تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے:
اے شوخ ادا! تمہیں خبر نہیں شاید! اس مطلب کی دنیا میں تمہارا ایک ایسا عاشقِ زار و نزار بھی رہتا ہے جو کم گو ہے مگر شعور کے مراتب اور انسانی ریشہ دوانیوں سے خوب واقف ہے، جو تنہائی پسند ہے، اس لئے کہ تنہائیاں اسے تم سے قریب تر کرتی ہیں، تمہاری سرگوشیوں میں غیر کو مخل نہیں کرتیں، اور اُس کے لئے تمثال جاناں کا عمل پیش کرتی ہیں۔
اسے تم سے نہ صرف محبت ہے بلکہ عشق ہے، جس کی کوئی انتہا اور حد نہیں ہوتی، جس کی کوئی دوا اور اس کا کوئی بدل نہیں ہوتا، وہ بے سبب بے وجہ تم پر قربان ہے، تمہارے ابروئے کرم کے بس ایک غمزے پر وہ دنیا کو جنت نما بنا سکتا ہے، اور تمہاری آنکھوں میں نمی پاکر وہ اس جہان آباد کو نذر آتش بھی کرسکتا ہے۔ وہ مجنوں ہے، دیوانہ ہے۔
اور پاگل بھی۔ تم سے پہلے وہ ایسا ہرگز نہ تھا، یہ دولتِ دیوانگی، یہ شوریدہ سری تمہارے حسن و دلکشی اور چتوَن کی عطیات ہیں، تمہارا وجود اس کی حیات و بقا کی دلیل ہے، تم سے ہی اس کی زندگی میں رعنائیاں ہیں، تم ہی سے وہ آبِ حیات و بقا کشید کرتا ہے۔ سنو جاناں! اِدھر دیکھو! اِدھر اِس طرف کو! تمہارا وہ عاشق، بلا کا عاشق کوئی اور نہیں میں ہی ہوں۔
جب پہلی بار ٹیلیویژن پر تمہیں خبریں پڑھتے ہوئے دیکھا اور سنا تھا وہ دن میری حواس باختگی کا پہلا دن تھا، اور اب جب بھی تمہارا دیدار میری آنکھوں کو مس کرتا ہے تو دل پر بے اختیاری کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور گھنٹوں قیدِ ہوش باختگی سے آزاد نہیں ہو پاتا، اب تو یہ عالم ہے کہ ہر گھڑی تمہیں اپنے پاس محسوس کرتا ہوں، گویا کہ ایک پل کے لئے بھی تم مجھ سے جدا نہیں ہوتی۔
سالوں پہلے سماج میں ٹیلیویژن دیکھنے والے بہت کم ہوا کرتے تھے، لیکن جب سے تم نے خبریں پڑھنا شروع کیا لڑکوں، لفنگوں، پیروں اور جوانوں کو ٹیوی کا نشہ سا ہونے لگا۔
تمہاری آمد نے ٹیلیویژن کی خریدوفروخت میں ایک بڑا انقلاب برپا کیا، گھر گھر ٹیوی اور اینٹینا لگوا دیا، بے روزگار اور آوارہ مردوں کو ضیاع اوقات کا سامان فراہم کیا، بڈھوں کی ٹھہری ہوئی حیات و زندگی کو رفتار عطا کیا، اور لگائی بجھائی کرنے والی خواتین کو عمدہ اور بہترین موضوعات گفتگو سے نوازا، تمہارے حسن اور سحر کا کچھ ایسا عالم تھا کہ
ناوِک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
مرزا محمد رفیع سودا
لیکن جب سے تمہاری جانبدارانہ خبروں کی قرأت اور اس کی افواہیں گردش میں ہیں ان سب نا شکروں نے تم سے منہ موڑ لیا اور اب تمہارے ہی خلاف زبان درازی اور آتش زنی پر اتر آئے۔
تمہیں پتہ نہیں شاید! یہ دنیا اور دنیا والے دل کے کالے اور ذہن کے بہت گندے ہیں، جب تم خبریں پڑھتی ہونا یہ بدنظر تمہیں گھورتے ہیں، تمہارے حسنِ آب دار کو داغ دار کرتے ہیں، محلے کے یہ لفنگے تم پر واہیات تبصرے کرتے ہیں تو میں غصے میں آکر اُن سے پِٹ جاتا ہوں، کیوں کہ اُن سب کو پیٹ پانا تمہارے اس عاشقِ نزار کے بس کی بات نہیں، شیخی برطرف لیکن حقیقت زندگی یہی ہے، اور یہاں فلموں کی طرح ہیرو مارتا نہیں مارا جاتا ہے۔ اِن دونوں بڈھوں کو دیکھ رہی ہونا! یہ کہتے ہیں تم صحیح خبریں نہیں پڑھتی، حکومت سے خائف ہو، فلاں سیاسی جماعت کی طرفدار ہو، تمہاری باتیں جانبدارانہ ہوتی ہیں، ان کی اِن ہفوات کو سن کر کئی روز تو میں ان سے لڑپڑا، لیکن ان کی دراز عمری نے ہاتھوں اور لاتوں کے تصرف سے مجھے روکے رکھا۔ حقیقت دیدہ ام کہ یہ دنیا والے بد نظر، بد بخت تمہیں نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی کبھی سدھرنے والے ہیں۔
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
اسرار الحق مجاز
اشتارالحق حبَاب
٢٥ فروری ٢٠٢٣
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں