یکساں سول کوڈ کا معاملہ
یکساں سول کوڈ کا معاملہ ہندوستان کے لئے ایک معرکتہ الآرا معاملہ ہے ہم یکساں سول کوڈ کی مخالفت کرتے ہیں کہ جمہوری ملک میں تمام لوگ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا اور مذہب کی آزادی کا حق ہے ۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی گئ تھی اور ابھی جلد ہی ایک خبر موصول ہورہی ہے کہ ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں ایک بورڈ کے تحت ایک میٹنگ ہوئ جس بورڈ کا نام ،، ساؤتھ انڈین مسلم پرسنل لاء بورڈ ,, ہے حقیقی مسلم پرسنل بورڈ سے ملتا جلتا نام رکھ کر اس کے پس پشت یکساں سول کوڈ کے جاری کرنے سے پہلے اسکی راہ ہموار کی جارہی ہے ، اس بورڈ کی صدارت میں ہندوستان کے مشہور عالم دین سید سلمان حسینی ندوی کا نام ہے اس نام سے تو اکثریت آشنا ہی ہوگی شر اور حضور والا میں لزوم کا تعلق ہے ایک دوسرے کے بغیر ہونا محال ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لاء کی کار کردگی سے جنوبی ہند متفق نہیں ہے اسلئے ان کو یہ اقدام اٹھانے پڑے ۔
نیز یہ بھی کہا کہ سناتن دھرم اور اسلام میں کوئ فرق نہیں ہے ۔مولانا سلمان ندوی کی یک طرفہ باتوں اور مرکزی حکومتوں کے فیصلے کی سراہنا کے ساتھ ساتھ یکساں سول کوڈ کی حمایت کا واضح اشارہ اس بات کی طرف پیش قیاسی کررہا ہے کہ جنوبی ہند میں مسلمان آر ایس ایس کا مسلم شعبہ ،، مسلم راشٹریہ منچ ٫٫ کو مضبوط و مستحکم کریں اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لئے راہیں ہموار کی جاسکیں ۔
جبکہ حقیقت تو یہ ھیکہ یہ 'یکساں سول کوڈ ' مختلف وجوہ سے ہمارے ملک کے لئے مناسب نہیں ہے ، ایک تو اس سے اقلیتوں کے مذہبی حقوق متاثر ہوں گے ، جودستور کی بنیادی روح کے خلاف ہے ۔
دوسرے : یکساں قانون ایسے ملک کے لئے تو مناسب ہوسکتا ہے ، جس میں ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہوں ، ہندوستان ایک تکثیری سماج کا حامل ملک ہے ، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اورمختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں ، کثرت میں وحدت ہی اس کا اصل حسن اور اس کی پہچان ہے ، ایسے ملک کے لئے یکساں عائلی قوانین قابل عمل نہیں ہیں ۔
تیسرے : مذہب سے انسان کی وابستگی بہت گہری ہوتی ہے ، کوئی بھی سچا مذہبی شخص اپنا نقصان تو برداشت کرسکتا ہے ، لیکن مذہب پر آنچ کو برداشت نہیں کرسکتا ، اس لئے اگر کسی طبقہ کے مذہبی قوانین پر خط نسخ پھیرنے اوراس پر خود ساختہ قانون مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے مایوسی کے احساسات اور بغاوت کے جذبات پیدا ہوں گے اور یہ ملک کی سالمیت کے لئے نقصان دہ ہے ، حقیقت یہ ہے کہ مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قوانین پر عمل کی اجازت دینا ملک کے مفاد میں ہے ، اس سے قومی یکجہتی پروان چڑھے گی ، نہ یہ کہ اس کو نقصان پہنچے گا ۔
اور مسلمانوں کی اصل تنظیموں سے ملتے جلتے نام رکھ کر لوگوں میں شر پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اسلئے ایسی جعلی تنظیموں سے گریز کریں بہت محتاط رہیں ۔
سمرہ عبدالرب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں