مستحکم عمارت کا راز
محمد رضی الاسلام ندوی
میری رہایش گاہ کے سامنے ایک میدان ہے - میں روزانہ رات میں کچھ دیر وہاں ٹہلتا ہوں - برابر میں ایک اسکول ہے - کچھ دنوں قبل وہاں ایک عمارت بننے لگی - کام کا آغاز زمین کی کھدائی سے ہوا - میں نے دیکھا کہ مزدوروں نے کئی فٹ چوڑی اور کئی فٹ گہری کھائی کھود دی - پھر اس میں موٹی موٹی سریا ڈالی گئی - اینٹیں چنی گئیں - پکا مسالہ بھرا گیا - اینٹوں کی کافی تہیں بچھانے کے بعد دیوار زمین کی سطح کے برابر آئی - اس کے بعد کام آسان تھا - دیکھتے دیکھتے وہاں ایک بلندوبالا عمارت کھڑی ہوگئی-
میں نے سوچا : کتنی خوب صورت عمارت ہے ، جو نظر کو بھا رہی ہے ! لیکن دیکھنے والی نگاہوں کو نہیں معلوم کہ اس عمارت کو استحکام بخشنے میں ان اینٹوں کا کتنا بڑا حصہ ہے جو زمین میں دفن ہیں اور کسی کو نظر نہیں آ رہی ہیں - اگر ہر اینٹ کا اصرار ہوتا کہ میں زمین کے نیچے نہیں جاؤں گی تو کیا یہ عمارت کھڑی ہو سکتی تھی؟!
یہی مثال کسی تحریک یا تنظیم کی بھی ہوتی ہے - اسے استحکام دینے کے لیے کچھ لوگوں کو بنیاد کی اینٹیں بننا پڑے گا - تقریریں ، مقالے ، کتابیں ، اسٹیج ، بینر ، دورے ، عہدے ، مناصب ، یہ سب ضروری ہیں - جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں وہ اہمیت رکھتے ہیں - لیکن اتنے ہی ، بلکہ ان سے زیادہ قابل قدر وہ لوگ ہیں جنھیں کوئی نہیں جانتا ،
جن کا نام کسی کی زبان پر نہیں ہوتا ، کسی رسالے میں یا کسی کتاب پر نہیں چھپتا ، کسی اسٹیج پر وہ نظر نہیں آتے ، لیکن گم نامی کے ساتھ ، خاموشی سے وہ تحریک کی آبیاری اور اسلام کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں -
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں