ناقل:- ریحان اعظمی
مشہور ہندی طبیب صالح بن بہلہ (اس کا اصلی نام سالی تھا جو معرب ہوکر صالح ہو گیا تھا بعض کا خیال ہے کہ مسلمان ہوکر اس کا نام صالح ہو گیا،اس کا نام سنہ پیدائش سنہ وفات اور ولدیت کے بارے میں کافی اختلاف ہے،بعض مورخین نے اس کے باپ کا نام نہلہ اور بعض نے بہلہ بتایا ہے،یہ ہندوستانی تھا اور ویدک علاج کا ماہر تھا،خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں عراق میں رہتا تھا جہاں اس کی بہت شہرت تھی صحت اور ہلاکت کے متعلق پیش گوئی میں مہارت رکھتا تھا۔
خلیفہ ہارون رشید کے چچا زاد بھائی ابراہیم بن صالح کے علاج میں ایک مرتبہ اپنی حذاقت کا ثبوت پیش کیا جس کو مرض سکتہ ( سکتہ ایک مرض ہے جس میں ابلون دماغ اور مجاری روح میں سدہ پڑ جانے سے تمام اعضاء کی حس وحرکت موقوف ہو جاتی ہے لیکن قلب و نفس کی حرکت کسی قدر باقی رہتی ہے جو دشواری سے محسوس ہوتی ہے اور مریض مثل مردہ کے معلوم ہوتا ہے۔
انگریزی میں اس کو Apoplaxy کہتے ہیں۔
لاحق ہو گیا تھا،ابراہیم کے بارے میں یونانی طبیب جبرئیل بن بختیشوع نے یہ پیشن گوئی کر دی تھی کہ یہ چند گھنٹوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے گا۔اس واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید کے سامنے دستر خوان بچھا ہوا تھا،کھانے کا وقت تھا لیکن اس وقت جبرئیل غائب تھا،خلیفہ کو یہ بات بری لگی اور اس نے جبرئیل کو بہت برا بھلا کہا اتنے میں جبرئیل آ پہنچا۔
اس نے جب دیکھا کہ خلیفہ اس کی غیر حاضری سے برہم ہے تو اس نے خلیفہ سےکہا، امیرالمونین آپ بجائے میرے اوپر ناراض ہونے کے اس بات پر غم منایئے کہ آپ کا بھائی ابراہیم بن صالح بہت بیمار ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ رات تک مر جائے گا،ہارون رشیدکو یہ سنکر بہت تشویش ہوئی،اس نے فوراً دستر خوان اٹھوا دیا اور اپنے بھائی کے اس حال کو سنکر رونے لگا۔
خلیفہ کی ایسی حالت دیکھ کر وزیراعظم جعفر بن یحییٰ برمکی (م 803ء) نے خلیفہ کو یہ مشورہ دیا کہ صالح بن بہلہ زیادہ تجربہ کار ہےاور وہ ہندی طب کا ماہر ہے،اس لیے ابراہیم کا علاج اس سے کروایا جائے۔چنانچہ اس کے مشورہ پر صالح بن بہلہ کو بلوایا گیا اور اس کو اس کمرے میں لے جایا گیا جہاں ابراہیم موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا مردوں کی طرح بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا۔
صالح بہت دیر تک مریض کا معائنہ کرتا رہا اور آخر میں اس نے خلیفہ کو اطمینان دلایا کہ آپ فکر نہ کریں،آپ کا بھائی بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔خلیفہ کو صالح کی بات سے کافی اطمینان ہوالیکن تھوڑی دیر بعد ہی خلیفہ کے پاس خبر پہنچی کہ ابراہیم کا انتقال ہو گیا ہے یہ سنتے ہی خلیفہ کے ہوش اڑ گئے اور اس کے غصے کی کوئی انتہا نہ رہی۔
لیکن صالح نے خلیفہ کو پھر اس بات کا یقین دلایا کہ آپ کا بھائی زندہ ہے اور وہ ابھی کسی حالت میں بھی مر نہیں سکتا اس کا علاج آپ میرے اوپر چھوڑ دیجئے۔اگر مجھے اس میں کامیابی نہیں ملی تو میں ہرسزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں،اگر آپ کو میری اس بات کا یقین نہ ہوتو آیئے میں آپ کو کرشمہ دکھاؤں،یہ کہہ کر صالح بن بہلہ ہارون رشید کو مردہ‘‘ کے پاس لے گیا اور اس کے پیر میں سوئی چبھوئی،ردعمل کے طور پر مردہ ابراہیم‘‘ نے فوراً اپنے پیر کھینچ لیے۔
صالح نے ہارون سے کہا کہ آپ ہی بتائیے کہ کیا کوئی مردہ اس طرح سے حرکت کر سکتا ہے اور اس کو درد کا احساس ہوسکتا ہے؟ ہارون نے کہا کہ نہیں! ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا اس کے بعد صالح نے حکم دیا کہ ابراہیم کو تنہا کمرے میں چھوڑ دیا جائے اور اوپر سے کفن وغیرہ ہٹا کر غسل دیا جائے اور اس کو اس کے اصلی کپڑے پہنائے جائیں ورنہ وہ اپنی یہ حالت دیکھ کر خوف کی وجہ ہے دم توڑ دے گا۔
ہارون نے ایسا ہی کیا پھر صالح نے ایک لمبی نلکی لے کر اس کے اندر چھکنی کا سفوف بھر دیا اور دوسرے سرے کو ابراہیم کی ناک میں داخل کر دیا جس طرف سے سفوف بھرا تھا اس طرف اس نے زور سے پھونک ماری، جس سے ابراہیم کے جسم میں حرکت ہوئی اور چھینکیں آئیں اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔
ابراہیم کے زندہ ہونے کی خبر سے ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی خلیفہ ہارون صالح کی اس مسیحائی سے ششدر رہ گیا کہ اس نے اس کے بھائی کو دوبارہ زندہ کر دیا۔جب ابراہیم سے حال پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کسی کتے نے میرے پیر کی انگلی میں کاٹ لیا ہے اور اس کے بعد ہی میری آنکھ کھل گئی،یہ انگوٹھا وہی تھا جس میں صالح نے سوئی چبھوئی تھی،ابراہیم اس واقعہ کے بعد کافی دنوں تک زندہ رہا اور آگے چل کر ملک کا حاکم بھی مقرر ہوا۔
حوالہ( ہماری طب میں ہندوؤں کا ساجھا23-27)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں