تازہ ترین

اتوار، 25 ستمبر، 2022

سنگھ سپریمو سے ملاقات۔۔۔۔Frank dialogue ہی مسئلہ کا حل ہے۔

سنگھ سپریمو سے ملاقات۔۔۔۔Frank dialogue ہی مسئلہ کا حل ہے۔ 

تحریر: مسعودجاوید

میں آج بھی اپنی اس رائے پر قائم ہوں کہ : 
١-  مولانا وستانوی صاحب کو ملک کے وزیراعظم مودی جی سے ملاقات کی پاداش میں دارالعلوم دیوبند کے منصب اہتمام سے برخواست کرنا صحیح فیصلہ نہیں تھا۔ 


٢- مسلم قیادت کا ملک کے وزیراعظم سے ملاقات کرنے سے گریز حکیمانہ فیصلہ نہیں تھا۔ ہم اس ملک کے شہری ہیں اور وہ ہمارے وزیراعظم ۔ ہم اپنے مسائل، اس سے قطع نظر کہ ان کا حل نکالا جائے گا یا نہیں،  ان کے گوش گزار کرنے کے پابند ہیں ۔  وزیراعظم ، متعلقہ وزراء، وزارتوں اور محکموں کے سربراہان سے مل کر ان کو میمورنڈم دینا ہمارا حق اور مہذب طریقہ ہے۔ ان سے ملاقات اور میمورنڈم کے بعد پریس کلب آف انڈیا میں مقامی و بیرونی پریس کے نمائندوں کو آگاہ کرنا ہمارا حق اور ہمارے اوپر فرض ہے۔ 
ملاقات نہ کرنے سے پچھلے آٹھ سالوں میں سوائے نقصان کے کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا ۔ 


٣- کانگریس پارٹی مسلمانوں کی شرشت میں ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ٢٠١٤ میں  مودی جی کی سربراہی میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد سے مسلم قیادت دوری بنا کر رہنے لگی۔ بیک ڈور چینل سے دعوت کے باوجود مسلم قیادت ملنے سے کتراتی رہی۔ 
کانگریس پارٹی مسلمانوں کی شرشت میں ہے اس کا ناجائز فائدہ کانگریس اعلی کمان کے ارد گرد فرقہ پرست عناصر نے اٹھایا ، گمراہ کیا اور کانگریس سے ایسے اقدامات کرائے کہ نتیجتاً کانگریس شکست سے دوچار ہوئی ۔ 


٤- جبکہ یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ حکومت مسلم خیرخواہ کی ہو یا بدخواہ کی، اس کا وزیراعظم اور اور حکومت تمام ہندوستانیوں کی ہے جنہوں نے اس پارٹی کو ووٹ دیا ان کی بھی اور جنہوں ان کے مخالفین کو ووٹ کیا ان کی بھی ۔۔ تو پھر ملنے سے گریز کا کیا فائدہ ! ہاں جو لوگ برسوں کانگریس کی عنایات سے  محظوظ ہوتے رہے ملاقات نہ کرنے کے پیچھے ممکن ہے کانگریس کی خدمت کرنا مقصد رہا ہو ! 


٥- سنگھ سپریمو پچھلے کئی مہینوں سے اپنے بیانات سے ایسا تاثر دے رہے ہیں کہ سنگھ کے موقف میں لچک ہے۔ سنگھ  'سخت گیر موقف' رکھتا ہے یہ مسلمانوں کی غلط فہمی ہے۔ بیانات کے علاوہ پانچ مسلم دانشوروں سے ملاقات (بیک ڈور میٹنگ ) کے لئے وقت نکالنا اور غیر مسلموں کو مسلمانوں سے کن باتوں کو لے کر شکایات ہیں اسے رکھنا اور مسلم نمائندوں کا غیر مسلموں سے کیا شکایتیں ہیں ان کا رکھنا ۔۔۔ بظاہر اچھی سمت میں جانے کا عندیہ ملتا ہے گرچہ ہنوز دلی دور است۔ اس لئے کہ جب تک ہندو رہنما بالخصوص سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیمیں ہندوؤں کے اجتماع میں ہندوؤں کو مخاطب کر کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بات اور عہد نہیں کریں گے عوام پر مضبوط گرفت جن کی نہیں ہے ایسے دانشوروں سے بند کمرے میں گفتگو کرنا کافی نہیں ہوگا


٦- اسی طرح مسلم رہنماؤں کو عوامی اجتماع میں علی الاعلان کہنا ہوگا اور عہد لینا ہوگا کہ ہم تمام مسلمان بحثیت ذمہ دار ہندوستانی شہری دستور ہند کے پابند ہیں اور ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے مترادف ہوگا۔ ہم بحیثیت ذمہ دار شہری اہانت دین اور اہانت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر بھی قانون  اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے انصاف کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ۔ "سر تن سے جدا " یہ پڑوسی ملک سے امپورٹ کیا ہوا جملہ ہے۔ 



مسلمانان ہند کی کتابوں میں اور دل و دماغ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ مسلمانان ہند جانتے ہیں کہ بعض کام ریاست کے کرنے کے ہوتے ہیں ان میں کسی فرد یا گروہ کو  دخل انداز نہیں ہونا چاہیے۔ مجرم کو ثبوتوں کی بنیاد پر سزا دینا قانون اور عدالت کا کام ہے نہ کہ فرد کا۔‌  


٧- ہم مسلمان قرآن مجید میں  اللہ کی طرف سے دی گئی رہنمائی کے پابند ہیں کہ ہم کسی بھی  مذہب کے دیوی دیوتاؤں کے خلاف توہین آمیز بات نہیں کرتے ہیں اور نہ کریں گے۔ ہم اپنے دین حنیف اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے پابند ہیں اور رہیں گے کہ کبھی بھی کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ کو نجس نہیں کریں گے اور نہ کسی طرح کا نقصان پہنچائیں گے۔ 


٩- اسی طرح کا اعلان اور عہد و پیمان سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے سربراہ اپنے ذمہ داروں کی مجلس اور عوامی جلسوں میں کریں گے جب ہی فرقہ وارانہ کشیدگی ختم ہوگی ۔ 


مجھے تعجب ہے کہ سنگھ جیسی منظم تنظیم جس کے پاس ہر قسم کے ریسرچ اور تجزیہ کرنے والے ہیں انہیں یہ غلط فہمی کیسے ہوئی کہ جن دانشوروں کی عوام تک دسترس نہیں انہیں مسلمانوں کے نمائندے سمجھ کر ان سے اتنی اہم بات کی جائے! 


اگر اکثریتی فرقہ کے لوگ بالخصوص سنگھ  ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے واقعی سنجیدہ ہے تو  جس طرح رتھ یاترا؛ عوامی تحریک چلائی گئی تھی اسی طرح ایک رتھ یاترا ؛عوامی تحریک کے ذریعے گاؤں گاؤں شہر شہر یہ میسیج دے کہ بہت ہو چکا اب بند بھی کرو ۔۔۔‌ ملک کو کمزور ہونے اور ٹوٹنے سے بچاؤ ۔ enough is enough.


 ہم مل کر پکاریں گے تو لوٹ آئے گی منزل ۔ 

سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد امریکہ دنیا کا اکیلا داروغہ عالم بن تو گیا لیکن وقتی طور پر ہدف ادھورا یا پورا ، کے بعد اس کے اپنے حلیف بعض یوروپی ممالک بالخصوص فرانس ، جرمنی اور کینیڈا وغیرہ امریکہ سے دوری بنانے لگے اس لئے کہ انہوں نے محسوس کیا کہ مہذب دنیا میں ون مین شو جمہوری نظام اور فکر کو منہدم کرنے کے مترادف ہوگا ۔

 امریکی سیاست دانوں نے بھی محسوس کیا کہ طاقت کے بل بوتے پر اقوام عالم کے دل نہیں جیتے جا سکتے ہیں ۔ چنانچہ امریکہ نے اقوام عالم بالخصوص یورپ کی تشویش کو کم کرنے کے لئے نیو ورلڈ آرڈر یعنی ایک نیا نظام عالم تشکیل دینے کا اعلان کیا ۔ 



بات عالمی سطح کی ہو یا ملکی سطح کی، ریاستی سطح کی ہو یا بلدیاتی سطح کی، حتی کہ کنبے کی سطح کی، طاقت ، رعب اور دبدبہ بہت دنوں تک ساتھ نہیں دیتا ہے۔ یہ بات ہم سب کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad