تازہ ترین

منگل، 20 ستمبر، 2022

عصری تعلیم کے نام پر مدارس کا اولین مقصد فوت نہ ہو۔

عصری تعلیم کے نام پر مدارس کا اولین مقصد فوت نہ ہو۔
تحریر: مسعودجاوید :دینی مدارس میں ہائی اسکول تک کی لازمی تعلیم کی وکالت دارالعلوم دیوبند نے کل کے اجلاس میں کی یہ بلا شبہ قابل ستائش ہے یہ اور بات ہے کہ اس کے خدوخال کیسے ہوں گے اور آیا  ہندوستان کے تمام مدارس اس فیصلے کا استقبال اور عملدرآمد کا عہد کریں گے یا نہیں یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ 
 
تاہم دینی مدارس کا ہدف اساسی اسلامی تعلیمات کی بقاء و تحفظ اور کتاب وسنت کی ترویج واشاعت ہے۔ ان کا اولین مقصد ایسی جماعت تیار کرنا ہے جو کتاب وسنت کے نشر واشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے ۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات پر ہونے والے اعتراضات کا معترضین کی زبان اور اسلوب میں  مدلل اور مسکت جواب دے ۔ قرآن کی تفسیر ، تشریح اور توضیح فی زمانہ رائج مقامی زبانوں میں اشاعت کرے ۔ حدیث کی تشریح ،تحقیق اور تنقیح کر کے رطب و یابس روایات میں تمیز کرے۔ فقہ اور اصول فقہ اور اس کی معاون علوم و فنون میں ید طولی حاصل کرے۔‌ یہ جب ہی ممکن ہوگا جب دورہ کے بعد  ان علوم و فنون میں تخصص کے لئے  شعبے ہوں گے اور طلبہ اس کے لئے  ششم سے ہی ذہنی طور پر تیار ہوں گے۔ 


ظاہر ہے ذہانت، میلان اور استعداد کے اعتبار سے  تمام طلباء ان تخصصات کے اہل نہیں ہوتے ہیں۔ اس لئے جن طلباء کے اندر یہ صلاحیتیں نہیں ہیں ان کو عصری تعلیم کی دانشگاہوں میں داخلہ کے اہل بنانے میں دینی مدارس کے ارباب حل وعقد مدد کریں اور وہ اس طرح کہ این سی آر ٹی کی مخصوص کتابیں درجہ پنجم تک کے نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ ایسے طلباء اوپن اسکولنگ سے دسویں جماعت کا امتحان بحیثیت پرائیوٹ دیں اس کے بعد وہ آگے مزید عصری تعلیم حاصل کرنے کے اہل ہو سکیں۔ 


پنجم تک دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کی کتابیں پڑھانے کا فائدہ مذکورہ بالا متخصصین کو بھی ہو گا اور ہونا بھی چاہیے اس لیے کہ دعوت دین کے لئے بھی اور اچھا شہری ہونے کے لئے بھی ضروری ہے کہ بنیادی دنیوی تعلیم سے ہر شخص واقف ہو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad