تحریر:-مہدی حسن عینی دیوبند
گزشتہ ایک ہفتے میں موہن بھاگوت سے چند مسلم دانشوروں کی ملاقات اور پھر دہلی کی ایک مسجد میں اپنے ہی ایک گماشتے کے یہاں ان کی حاضری اور پھر ان مولی صاحب کی جانب سے موہن بھاگوت کو راشٹرپتا قرار دینا یہ سب ایک سلسلہ کی کڑی ہے جس کا سرا آر ایس ایس کی گزشتہ مہینوں ہوئی فضیحت اور رسوائی سے ہے،گزشتہ مہینوں اور سالوں میں ملک اور بین الاقوامی سطح پر جب بھی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ملک میں ہوئے امتیازی سلوک کا تذکرہ ہوا تو ہر طبقے نے اس کے لیے ہندوتوا کے نظریہ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور بھارت میں ہندوتوا کی علمبردار آر ایس ایس ہے،اس لئے بین الاقوامی سطح پر بار بار آرایس ایس کا تذکرہ بھارتی مسلمانوں کے لئے ایک ولن کی حیثیت سے ہوا،بطور خاص نوپور شرما کیس اور پھر اترپردیش کے فسادات کے دوران مسلمانوں پر پولیسیا اٹیک کے بعد بی جے پی کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ آر ایس ایس بیک فٹ پر نظر آئی،اور اپنی شبیہ کو درست کرنے۔
نیز آر ایس ایس کو سبھی بھارتیوں کی جماعت قرار دینے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کے مقصد سے خود موہن بھاگوت میدان میں اتر پڑے،لیکن انہوں نے جن مسلم دانشوروں کا انتخاب کیا وہ سب کانگریس کے وقت ملائی کھانے والے اور بی جے پی کے دور اقتدار میں سرکار کی چاپلوسی کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں،ان تمام شخصیات میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جن کے ساتھ 10 لوگ کھڑے ہوکر ان کی حرف بحرف تائید کرے،اور یہ سب دغے ہوئے کارتوس ہیں جن کے پروفائل میں بڑے بڑے عہدے اور القاب تو ہیں لیکن زمینی سطح پر ان کی حیثیت زیرو ہے،آر ایس ایس کو ایسے ہی افراد چاہئے جو میڈیا میں آکر مسلمانوں کےنمائندے بن کر آر ایس ایس کو فرقہ پرست متشدد جماعت کے بجائے ایک معتدل نظریاتی جماعت بتائیں تاکہ آر ایس ایس کی شبیہ صاف ہوسکے۔
اس سلسلے میں موہن بھاگوت پہلے بھی کئی تیر چلا چکے ہیں لیکن کوئی بھی مرکزی شخصیت ان کے دام میں پوری طرح نہیں پھنس سکی بالآخر انہیں واپس عمیر الیاسی صاحب کی لمبی سفید داڑھی کا سہارالینا پڑا،عمیر الیاسی بحیثیت سرکاری مولوی بھارت سے اسرائیل تک بی جے پی کے لیے کام کرچکے ہیں،اس لئے ان کو اس فرض منصبی کی ادائیگی کے لیے کسی اسکرپٹ کی ضرورت بھی نہیں پڑتی،بی جے پی حکومت کی شبیہ صاف کرنے کے لئے یہی کام اجیت ڈھوبال کررہے ہیں،لیکن فرق یہ ہے کہ ڈھوبال عوامی نمائندوں کو سادھ رہے ہیں تاکہ حکومت کے خلاف شاہین باغ تحریک کی طرح مستقبل میں ہر طرح کےاحتجاج وغیرہ کو مذھبی عقیدت کی تاثیر سے دبایا جاسکے، ان کے علاوہ اندریش کمار تو سالوں سے مسلم راشٹریہ منچ لیے مسلمانوں کے دوسرے سطح کے لوگوں کی تربیت اور بھرتی کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کتنے ارباب دستار و جبہ خود کو گروی رکھتے ہیں اور نام نہاد دانشوروں کی کتنی قیمت صاحب سرکار نے لگائی ہے، بس ضرورت ہے کہ ملت کے نوجوان اپنی صفوں کو درست رکھیں،اور صبر و استقلال کے ساتھ جذبات پر قابو رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو ملت کی تعمیر کے لیے صرف کرتے رہیں اور اپنے عقائد پر ڈٹے رہیں مایوسی کو قریب نا آنے دیں،امید کا چراغ روشن رکھیں،روشن صبح کی کونپلیں اسی سیاہ رات سے پھوٹیں گی، شہداء اور اسیران ملت کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ان شاء اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں