ہم کیسے سماجی حیوان ہیں !
تحریر: مسعودجاوید
انسان اور جانور میں حد فاصل انسانوں کا سماجی ہونا ہے۔ تو کیا اپنے آپ میں مست رہنے سے ہم پر معاشرتی حیوان سوشل انیمل समाजी प्राणी کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے نہیں ۔
صلہ رحمی اور پڑوسیوں کے حقوق اسلامی تعلیمات کے معاشرتی پہلو کے روشن باب ہیں۔
اسی لئے اپنے ان رشتہ داروں کو جو آپ کے اصول یعنی والدین ، دادا دادی نانا نانی وغیرہ نہ ہوں یا جو آپ کے فروع یعنی بیٹا بیٹی پوتا پوتی نواسہ نواسی نہ ہوں، ان کو زکوٰۃ دینے کا دو اجر ملتا ہے ایک زکوٰۃ کی ادائیگی کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اپنے غیر اور غیر اپنے ہونے لگیں تو سرخ آندھی ( قیامت) کا انتظار کرنا۔ آج ہم اپنا اور اپنے اردگرد کا جائزہ لیتے ہیں بلا مبالغہ ہر طرف یہی نظر آتا ہے کہ اپنوں کا خون سفید ہوگیا ہے اور مخلص دوست سگے بھائی سے زیادہ اپنے پن کا ثبوت دے رہا ہے۔
سماجی پہلوؤں میں ایک اور پہلو جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زور دیا ہے وہ ہے پڑوسیوں کے حقوق۔
پڑوسیوں کی خبر گیری کرنے سے آپ خود اور محلہ ، علاقہ اور کالونی کے لوگ بہت سی پریشانیوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔ لیکن افسوس ہم نے دین کو مسجدوں میں محدود کر رکھا ہے ۔ ہم اس دور میں جی رہے ہیں جس میں آدمی next door neighbour تک سے واقف نہیں ہوتا ہے۔
اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دس دس گھروں سے واقف ہوتے تو بہت ممکن ہے کوئی عائشہ خود کشی نہیں کرتی اور مریم جہاں کے رشتے دار اپنی بیوی کو پیٹ پیٹ کر موت کی گھاٹ نہیں اتارتا۔
پڑوسیوں کی خبر گیری اور اسلام کے سماجی پہلوؤں پر توجہ دے کر کئی قسم کے اجتماعی کام انجام دیے جا سکتے ہیں۔
آپس میں رابطہ رکھنے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ممکن ہے آس پاس کسی گھر میں فقر و فاقہ سے تنگ آکر کسی نے چوری مشغلہ بنا لیا ہو کوئی نشے کا عادی ہو چکا ہو کوئی ڈپریشن میں چلا گیا ہو جس کی فوری طور پر کاؤنسلنگ نہیں کی گئی تو خود کشی کر سکتا/ سکتی ہے۔ کسی گھر میں میاں بیوی میں ناچاقی سے طلاق کی نوبت آنے والی ہو کہیں گھریلو تشدد ہو رہا ہو وغیرہ وغیرہ ۔ پڑوسیوں سے رابطہ رکھنے سے ہمیں ایک دوسرے کے دکھ درد کا علم ہو گا اور ہم ایسے لوگوں کی دستگیری کر سکتے ہیں، کاؤنسلنگ کر سکتے ہیں اور بساط بھر مالی و اخلاقی مدد کر سکتے ہیں۔
آج کے دور کا المیہ یہی ہے کہ ہر شخص اپنے آپ میں مگن رہنا چاہتا ہے۔ جوائنٹ فیملی سے نیوکلیئر فیملی بنے اور اب کبوتر خانوں میں قید ۔۔۔۔ گھر سے دفتر ۔۔ دفتر سے گھر۔۔۔ نہ اپنے پرابلم کسی سے شیئر کرنا اور نہ دوسروں کے مسائل جاننے کی کوشش کرنا اور اسے حل کرنے میں بساط بھر تعاون کرنا۔
بدبخت ہے وہ انسان جس کا کوئی مخلص دوست نہ ہو۔ ایسا مخلص جس سے وہ اپنا دکھ سکھ شیئر کر سکے جب وہ مسائل کے سمندر میں غوطہ کھا رہا ہو تو وہ ہاں سے اسے نکالے جب غم سے نڈھال ہوکر گرنے لگے تو اس کا ہاتھ تھام لے جب وہ کسی کشمکش میں ہو تو اس کا ہاتھ پکڑ کر صحیح سمت لے جاۓ۔
ہمارا ملک ان دنوں بہت سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے ۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے متوسط طبقہ کو ادنی طبقہ اور ادنی طبقے کو خط افلاس کے نیچے دھکیل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بظاہر خوش پوشاک نظر آنے والوں کا نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ان کی عزت نفس اور معاشرہ میں ان کا جو مقام تھا وہ اس کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ کسی کے سامنے اپنی معاشی پریشانیوں کا ذکر کریں، کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔
قرض لینے میں بھی اب شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور یہ بھی سوچتے ہیں کہ مستقبل قریب میں قرض کی ادائیگی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے تو کس منہ مانگیں ! یہ وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ اذیت کی زندگی گزار رہا ہے باہر سے خوشحال اور اندر سے کھوکھلا !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں