تازہ ترین

بدھ، 14 ستمبر، 2022

ایک زندہ کتاب ،‘‘طفل برہنہ پا کا عروج’’ (آپ بیتی)تعارف و تبصرہ محمد علم اللہ


ایک زندہ کتاب ،‘‘طفل برہنہ پا کا عروج’’ (آپ بیتی)
تعارف و تبصرہ محمد علم اللہ ، نئی دہلی

میں نے اپنی زندگی میں لا تعداد کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، خصوصاً خود نوشت اور سوانح کا مطالعہ میری دلچسپی کا مرکز رہے ہیں، ان میں بہت کم ہی کتابیں ایسی رہی ہیں جنہیں پڑھتے ہوئے آنسو رواں ہو گئے ہوں ، یہ کتاب ان ہی میں سے ایک ہے ۔اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ انسان کے اندر اگر جنون اور کچھ کرنے کا جذبہ ہوتو نہ صرف کامیابی اس کا مقدر بنتی ہے بلکہ وہ دوسروں کےلیے بھی رول ماڈل بنتا ہے نیزبدلےمیں معاشرے کو بہت کچھ عطا کرتا ہے۔

یہ کتاب ‘‘طفل برہنہ پا کا عروج’’پروفیسر جلیس احمد خان ترین کی ایک ویسی ہی کتاب ہے جو پڑھنے والے کو نہ صرف سوچنے پر مجبور کرتی ہےبلکہ جگہ جگہ پر حیران کرکے رکھ دیتی ہے کہ انسان تن تنہا اپنی کوشش، لگن اور محنت سے کیسےدنیا میںبیش بہا خدمات انجام دیتا ہے۔کتاب کو ملک کے معروف اشاعتی ادارہ ‘‘فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیویٹ لمیٹیڈ’’ نے دیدہ زیب اور خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے۔
تقریباً ۲۶۵ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک ایسے یتیم بچے کی کہانی ہے جس کے پاس بچپن میں پہننے کےلیے چپل نہیں تھی، سات سال کی عمر میں والد کا سہارا چھن گیا ، غربت اتنی زیادہ تھی کہ اسکول میں نیکرپہن کر آنے سے منعکیا گیاتو غریب ماں کے پاساتنے پیسے نہیں تھے کہ نیا سلوا کے دیتی ، پرعزم بیوہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ بڑی بہن کی شلوار پہنا کر بچے کواسکول بھیج دے، وہ جو کرسکتی تھی اس نےوہی کیا، جس پر اسکول کےدیگر بچوں نےننھے جلیس احمدکا مذاق اڑایا لیکن وہی یتیم بچہ اپنی محنت اور تگ ودو سے کامیابی کے ان مدارج کو طے کرنے میں کامیاب ہوا کہ دیکھنے والے حیران و ششدر رہ گئے۔

اس نے نہ صرف اسکول میں نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی بلکہ بعد کی زندگی میں بھی ہر جگہ نمایاں رہا اور یہ پہچان اسے صرف اور صرف اس کی محنت اور پریشانیوں سے بھرے کام کو بھی بطور چیلنج کے قبول کر لینے کی صورت میں ملی۔ملک او ربیرون ممالک کے نامور رسائل میں عہد جوانی میں ہی مقالے شائع کراکر اپنی شناخت بنائی، وہیںاس کے ان ہیکاموں کا نتیجہ تھا کہ اس نے تین ناکام ترین یونیورسٹیوں کی سربراہی کی اور ان کو بام عروج تک پہنچاکر دم لیا۔ وہ ۲۰۰۱ سے ۲۰۰۴ کے دوران کشمیر یونیورسٹی کاوائس چانسلر رہا، ۲۰۰۷ سے ۲۰۱۳ کے دوران پونڈیچیری یونیورسٹی کی سرپرستی کی تو ۲۰۱۳ سے ۲۰۱۵ کے درمیان بی ایس عبدالرمان چنئی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔

آج کل کےہمارے نوجوان زمانے اور ماحول کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ا ن کے ساتھ بھید بھاؤ ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا ہوتا ہے اور اس کو وہی محسوس کر سکتا ہے ، جس کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہوں، لیکن اس کتاب کے ذریعہ ہمیں اس سمت میں بھی رہنمائی ملتی ہے کہ ایسے منفی رویوں کو کیسے انگیز کیا جائے اور کیسے اپنا راستہ بنایا جائے ۔

مصنف نے کتاب میں اپنی ماں کی اہمیت کا کافی تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ کس طرح انھوں نے غربتو افلاس کے باوجود مصنف اور ان کے بہن بھائیوں کو پالا پوسا اور پڑھایا لکھایا ۔ ہمارے معاشرے میں عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ مائیں بچوں کو لاڈ پیار تو دیتی ہیں لیکن تعلیم وتربیت کی طرف توجہ نہیں دیتیں جس کی وجہ سےبچے کی نشوونما نہ صرف ناقص رہ جاتی ہے بلکہ اس کی شخصیت کا بھی ارتقا نہیں ہوپاتا، حالانکہ مائیں چاہیں تو اپنی اولاد کو ہیرا بناسکتی ہیں۔والد کے انتقال کے بعد کئی لوگوں نے یتیم خانہ بھیجنے کی بھی بات کہی لیکن ذمہ دار ماموں نے یتیم خانہ بھیجنے سے منع کر دیا، یہ بات محل نظر ہے کیوں کہ اکثر ہمارے معاشرے میں حیات والدین کو بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے بچے کو مدرسہ یا ہاسٹل میں ڈال دیتے ہیں اور بے فکر ہو جاتے ہیں ، انھیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ بچہ کیا پڑھ رہا ہے اور اس کی کیا ترقی ہو رہی ہے، جب گھر کے سر پرست حضرات کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ بچے کی ترقی ہو رہی ہے یا نہیں تو دوسرے کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ آپ کے بچے کی فکر کرے گا۔

کتاب کا بیانیہ انتہائی دلچسپ اور رواں ہے جس سے پڑھنے والا بور نہیں ہوتا ہے بلکہ مزید دلچسپی پڑھتا جاتا ہے اور کتاب ختم کرنے کے بعد بھی ایک ناول یا افسانے کی طرح حسرت رہتی ہے کہ کتاب کو ابھی ختم نہیں ہونا تھا۔ دراصل مشکل سے مشکل بات کو بھی خوبصورت انداز میں کہنے کا سلیقہ ہی مصنف نے ایسا اختیار کیا ہے کہ قاری اس میں محو ہوکر رہ جاتا ہے۔ حالانکہ اصل کتاب انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے لیکن محمود فیض آبادی نے قابل تعریف ترجمہ کیا ہے ، اس کے بعدڈاکٹر ظفرالاسلام خان ، گلزار صحرائی ، اور اجمل فاروقی جیسے صاحب نظر اور اردو زبان کے رمز شناسوں نے اس پر نظر ثانی کا کام کرکے کتاب میں چار چاند لگا دئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے ترجمہ پر بھی اصل کا گماں ہوتا ہے بلکہ سچی بات تو ہے کہ اگر کتابمیں مترجم یا نظرثانی کرنے والوں کا نام نہیں دیا جاتا توپڑھتے ہوئے اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتاکہ قاری ترجمہ پڑھ رہا ہے۔

کتاب میں کل گیارہ ابواب ہیں، لیکن یہ زیادہ طویل نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے مضامین کی شکل میں ہیں جس سے قاری پر کتاب کا مطالعہ گراں نہیں گزرتا ہے ، کتاب کا پیش لفظ معروف صحافی سدھیر کلکرنی نے لکھا ہے جو خاصی اہم چیز ہے۔ سدھیر کلکرنی نے تفصیل سے کتاب کا تعارف کردیا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ چند صفحات میں انہوں نے کتاب کی تلخیص کردی ہے جس کے مطالعہ سے قاری کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ کتاب کا مطالعہ کرناچاہئے یا نہیں۔اپنے اس مقدمہ میں انھوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے، انداز بھی فاضلانہ ہے ، جس سے حالات کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔

کتاب کی ایک چیز جومجھے بہت اچھی لگی وہ یہ کہ مصنف نے کئی ابواب کے شروع اور کہیں کہیں پر درمیان میں مغربی مصنفین کے اقوال کا خوبصورت استعمال کیا ہے۔ اس سے نہ صرف کتاب کی معنویت میں اضافہ ہواہے بلکہ کتاب کا حسن بھی دوبالا ہوتانظر آتا ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ مصنف کے اندر ایک خوبصورت آرٹسٹ چھپا ہوا ہے جو اس سے اچھی طرح و اقف ہے کہ خوبصورت چیز کیسے تلاش کی جائے اور اس کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کیسے لا جواببنایاجائے۔کتاب پڑھتے ہوئے اس کا اندازہ جگہ جگہ ہوتا ہے کہ مصنف ایک فن کار ہے اور اسے بات کہنے کا سلیقہ خوب آتا ہے۔

اس کتاب کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نہ صرف ایک مشہور سائنس داں، ماہر تعلیم اور اعلیٰ منتظم اور قائد ہیں بلکہ اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہایک آرٹسٹ بھی ہیں جس کی دلیل ان کے ہاتھوں سے بنا ہوا کتاب کاسرورق ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہو ں نے کئی ایسے آرٹ کے نمونے بنائے جن کی فروختلاکھوں میں ہوئی اور اس کا ایک وافر حصہ انہوں نے مسلم بچوں کی تعلیم کےلیے ہبہ کردیا۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں اور اس کا ثبوت انہوں نے پونڈی چیری یونیورسٹی کا ترانہ لکھ کر دیا جس کا تذکرہ انہو ں نے اس کتاب میں کیا ہے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر کتاب سے مصنف کے الفاظ میں ہی کچھ چیزیں نقل کر دی جائیں تاکہ وہ لوگ جو پوری کتاب کتاب نہیں پڑھ سکتے وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ مصنف جموں کشمیریونیورسٹی میں جب تھے اور یونیورسٹی ابتر صورت میں تھی۔ اس کو انھوں نے کیسے اوپر اٹھایا اور اس کے لئے انھوں نے کیا کیا۔ اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے ‘‘میں نے اپنے اصول مقرر کیے’’ عنوان کے تحت وہ بتاتے ہیں:

‘‘مجھے کیا کرنا ہے اورکیا نہیں کرنا ہے اس کےلیے میں نے اصول متعین کرلیے اور اس کے مطابق ایک خاکہ تیار کرلیا۔ میرے وہ کرنے او رنہ کرنے کے گیارہ اصول جن پر میں کشمیریونیورسٹی میں تجربہ کیا اور جو نتائج کےلحاظ سے بہت ثمر انگیز ثابت ہوئے یہ تھے۔

۱۔ کسی کو اس کی اجازت نہ دو کہ وہ دوسرے شخص کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرے۔ اگر اسےکوئی شکایت ہے تو اسے ہدایت کرو کہ لکھ کر پیش کرے۔ پھر وہ دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔

۲۔ کبھی تہنیتی جلسوں یا ڈنر اورپارٹیوں کے دعوت نامے قبول نہ کرو۔

۳۔ کبھی اپنی سرکاری قیام گاہ، اس کےباغ یا فرنیچریاکچن کو اپ گریڈ کرنے یا بہتر بنانے کو اولیت مت دو۔ اکثر وائس چانسلرز اپنی بیویوںیا گھر والوں کے دباؤ میں اس کو اولیت دیتے ہیں۔

۴۔ سب کو یہ کھلا پیغام دو کہ سب تم سے قریب ہیں اور سب تم سے دور رہیں۔

۵۔ سب کو یقین دلاؤکہ ہر کوئی تم سے ای میل کےذریعہ رابطہ کرسکتا ہے اور یہ کہ تم ۲۴ گھنٹوں کے اندر ا ن کے ای میل کا جواب دو گے۔

۶۔ ان کے اندر یہ احساس پیدا کرو کہ تم ان میں سے ایک ہو لیکن اسی کےساتھ ان پر واضح کردو کہ نتائج کےلیے ان پر سختی کرو گے اور سہولیات دینے میں نرمی برتوگے۔

۷۔ ذات برادری کا کارڈ قطعاً استعمال نہ کرو، جسے اکثر وائس چانسلر استعمال کرکے گروہی تفرقوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں،یہ ایساخطرناک کھیل تھا جسے کھیل کر میری پیش رو لیڈی وائس چانسلر نے بہت مصیبت جھیلی۔

۸۔ کبھی کسی کامیابی کےلیے خود کریڈٹ نہ لو، بلکہ اس کا کریڈٹ پوری ٹیم کو دو۔

۹۔ اگر کوئی پروجیکٹ فیل ہوجائے تو ناکامی کا دوش ٹیم پر مت ڈالو بلکہ خود اس کی ذمہ داری قبول کرو۔

۱۰ ۔ اگر تمہارا اپناکوئی مفاد نہیں تو ہر ا فسر تمہارے ساتھ دوڑے گا اورتمہاری رفتار سےدوڑے گا۔

۱۱۔ ہر ملازم پرجوش ہوجائے گا بشرطیکہ تم اس کے کام کا علی الاعلان اعتراف کرو اور اس کی ستائش کرو۔

آخراً، تم ان کو یہ تاثر دو کہ تم متعین اہداف کو حاصل کرنے کےلیے ان کی مدد اور تعاون کے محتاج رہو گے لیکنیونیورسٹی کے مفاد میں تم ہر قیمت پر ان کو حاصل کرکے رہوگے۔’’ (صفحہ نمبر، 185-186)

مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں کیسے کام کرنا چاہئے اس کی مثال پیش کرتے ہوئے ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:

‘‘میں نے دیکھاکہ آریہ سماج، عیسائی اور دیگر فرقے کے طول وعرض میں، شہروں میں، قصبات میں، اور دیہات میں اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر کی غرض سے زمین کے بڑے بڑےرقبے خریدے جاتے ہیں، لیکن مسلمانوں کو میں دیکھتاہوں کہ فقط مسجد، عیدگاہ، قبرستان کےلیے زمین خریدیں گے جو اگر چہ اپنی جگہ ضروری ہیں لیکن وہ کبھی تعلیمی اداروں کےلیے زمین نہیں خریدیں گے، مسلم سیٹھ مسجدوں اور درگاہوں پر کروڑ خرچ کردے گا لیکن تعلیمی ترقی میں ایک پائی بھی نہ دے گا۔ یہاں تک کہ وقف کی املاک بھی متولیوں اور ا وقاف مافیا کی دست برد سے محفوظ نہیں ہیں۔ ریاستی اور ضلعی وقف بورڈ بھی کرپشن کا شکار ہیں اور وہ اس قابل نہیں کہ وہ اوقاف کی املاک کو ڈیولپ کرکے ان سے آمدنی حاصل کریں اور اس آمدنی کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ اگر مسجد، مدرسہ، عیدگاہ یا قبرستان کےلیے مسلم کمیونٹی سے چندہ مانگو تو آسانی سے مل جائے گا لیکن اگر دنیوی تعلیم کے اداروں کےلیے زمین کی ضرورت ہوتو کوئی کچھ نہ دے گا۔ آج بھی جہاں کہیں نئی شہری بستیوں کی توسیع ہوتی ہے تو مسلم گروہ حکام سے وہاں مسجد کےلیے جگہ کے طالب ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی اسکول یا کالج کےلیے زمین کا مطالبہ نہیں کرتا۔ اس سے سارے ملک میں لیڈر شپ کے خلاء کا انعکاس ہوتا ہے۔۔۔’’ (صفحہ نمبر 231)

بچوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنے ماموں کے ذریعے پھول بن کے نام سے کنڈر گارٹن اسکول کھولے جانے اور اس کی وکالت کرتے ہوئے بتاتے ہیں:

‘‘ ہم سب کی زندگی میں نازک ترین دو رتین سے چھ سال کی عمر کا ہے۔ یہی بچے کی تکوین (Formation)کی عمر ہے۔ اس میں آپ بچے کو جس شکل میں ڈھالناچاہیں اسے کچی مٹی کی طرح ڈھال دیں اور مٹی کےسوکھتے ہی اس کی وضع دائمی ہوجائے گی۔’’ (صفحہ نمبر 233)

ہندوستان میں وقف املاک کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

‘‘اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر اوقاف کی اراضی واملاک سے صحیح ڈھنگ سے اور تجارتی پیمانے پر استفادہ کیاجائے تو اس سے سالانہ ۶۰۰۰۰کروڑ روپئے کی آمدنی ہوسکتی ہے جو مسلموں کے پس ماندہ طبقےکو دس سے پندرہ سال کے اندر تعلیمی واقتصادی پسماندگی سے نکالنے کےلیے کافی ہے۔’’ (صفحہ نمبر 242)

مدارس کے بارے میں ان کا خیال صائب معلوم ہوتا ہے، سماج اور قوم کے بارے میں متفکر ہر سمجھدار شخص کا خیال یہی ہونا چاہئے، وہ کہتے ہیں:

‘‘ملک کے طول وعرض میں طرح طرح کے مدرسوں کا جال بچھا ہوا ہے جہاں غریب طبقے کے بچے پانچ سال یا اس سے زیادہ کی عمر میں داخل ہوکر قرات اورناظرہ کی تعلیم پاتے ہیں۔ ابتدائی سے اوپر کے مدارس میں عربی زبان اور قرآن، حدیث، فقہ ، تفسیر جیسے اسلامی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان مدارس کو مختلف مکاتب فکر مثلاً دیوبندی،بریلوی، سلفی اور غیر مسلکی عناصر چلاتے ہیں۔ کچھ مدارس ایسے ہیں جہاں دینی تعلیم کےساتھ دنیوی تعلیم بھی دی جاتی ہے اورکچھ ایسے ہیں جو ریاستی حکومت سے گرانٹ پاتے ہیں ورنہ کثیر اکثریت کا بجٹ مسلم سماج کی خیراتوزکوٰۃ سے چلتا ہے۔ میں نے ملک میں موجودہ مدارس کی اصل تعداد معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، ضلعی لیول پر ایک سطحیاندازے کے مطابق ایک ضلع میں۲۰ مدرسے ہونے کی بنیاد پر ان کی تعداد ۱۲۰۰۰ ہوسکتی ہے۔ اگر ان میں سے ہر ایک میں طلبہ کی اوسط تعداد ۵۰۰ مقرر کی جائے تو طلبہ کی مجموعی تعداد کا تخمینہ۶۰ لاکھ نکلتا ہے۔ لیکنیہ محض ایک سرسری تخمینہ ہے۔ صحیح تحقیق کے بعد یہ تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ ان مدرسوں میں اس کم عمر کے بچے کہاں سے آتے ہیں؟ ان کا تعلق مسلم معاشرے کے مفلس ترین گھرانوں سے ہوتا ہے جو ان کی پرورش کا بار سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتے۔یہاں سے نکل کر وہ حافظ، مولوی، موذن اور امامتکا کام سنبھالتے ہیں۔ حافظے کا یہ عمل اپنے آپ میں محض ایک مقدس عمل ہی نہیں بلکہ یہ اس بچے کو عزت واحترام بھی فراہم کرتا ہے کہ وہ کوئی عام انسان نہیں ہے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ یہ مدارس مذہبی ٹریننگ کے ساتھ ماڈرن مضامین مثلاً سائنس ، ریاضی، علوم معاشرت اورلسانیات وغیرہ کی تربیت کیو ںنہیں دیتے جس سے علماء کا یہ طبقہ باعزت طریقے سے اپنی روزی کماسکے؟ یہ سوال ہمیشہ موضوع بحث رہتا ہے کہ آخر مدارس اپنے طلبہ کو پورے سماج میں رچنے بسنے کے قابل کیوں نہیں بناپاتے؟ یہ مدارس ایسی صلاحیت کیوں پروان نہیں چڑھاتے جس سے یہطلبہ معاشی طو رپر خود کفیل بن سکیں؟ جن سےوہ امام ہونے کے باوجود ایک باوقار زندگی گزار سکیں؟ اب واقعہ یہ ہے کہ ہم اکثر مدارس سے مولوی، حافظ، امام نکالتے جو مساجد کمیٹی کے رحم وکرم پر گزر بسر کرتے ہیں، جن کی تنخواہیں سرکاری دفاتر کے چپراسیوں سے بھی کم ہوتی ہیں۔ مزید برآں اپنی رسمی ڈھرے کی تربیت کی وجہ سے ان کادائرہ اپنی مقامی برادری اور مسجد کی جماعت تک محدود ہوجاتا ہے اور انہیں باہر کی دنیا کا کوئی علم نہیں ہوپاتا۔

میرے نظریے سے مدارس کے منتظمین کم سے کم اتنا کرسکتے ہیں کہ انہیں مذہبی تعلیم کے ساتھ ریاستی سکینڈری بورڈ کے کلاس دس کو پاس کرنے کے قابل بنادیں۔ دسویں کرنے کےبعد ان کے سامنے آگے کی تعلیم اور تکنیکی مہارت کی ٹریننگ حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوجاتے ہیں۔

میں یہاں اس سوال کو ہندوستانی سوسائٹی کےسیاق میں شدومد سے اُٹھارہا ہوں ۔ ہندوستانی سوسائٹی دنیا کی تنوع ترین سوسائٹیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں صلح وآشتی اور امن وہم آہنگی کی کبھی مختلف برادریوں اور طبقات کے مابین ربط وارتباط (Networking)کا نظام ہے۔ یہ برادریاں جتنا ایک دوسرے سے منقطع اور دور ہوں گی اتنا ہی بدگمانی، تعصب اور بھید بھاؤ کادور دورہ ہوگا۔ دنیوی اورماڈرن تعلیم سےمحروم یہ مدارس ہزاروں کی تعداد میں جن ائمہ ومدرسین کو پیدا کرتے ہیں وہ زندگی بھر افلاس میں مبتلا رہتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ ہوتا نہیں جس سے وہ باعزت طریقے سے روزی کماسکیں اور گزر بسر کرسکیں۔ وا قعہیہ ہے کہ وہ دوسری برادریوں سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔’’ (صفحہ نمبر 257-258)

مسلم نوجوانوں کو درد مندی کے ساتھ نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

‘‘یہ مسلم نوجوانوں کےلیے آزمائش کادور ہے۔یہ وقت ہے کہ وہ تسلیم کریں کہ ان کا مستقبل اچھی اور سود مند تعلیم سے وابستہ ہے۔ انہیں چاہئے کہ ایک اعتدال پسند مسلمان کی حیثیت سے عبادات ادا کریں اور اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کریں اور اسی کےساتھ دوسرےفرقوں کےساتھ ربط وضبط کو اپناطرز حیات بنائیں۔ عورتوں کی تعلیم کسی بھی قوم کی اقتصادی اور اجتماعی بہبود کی کلید ہے۔ میں نے ہمیشہ وکالت کی ہے کہ ہر مسجد سے ملحق اسکول کی تعمیر کی جائے۔ کم از کم ایک کنڈر گارٹن سے شروعات کی جائے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ مینار پر لگنے والا سرمایہ اسکول کی تعمیر پر صرف کیاجائے۔ میں اس کی پرزور تائید کرتا ہو ںکہ ائمہ حضرات اپنےخطبات جمعہ میں تعلیم اور تعلیم نسواں کا پیغام دیں، ائمہ حضرات یہ پرچار کریں کہ ان کا مذہب دوسرے مذاہب کے احترام اور دوسرے مذاہب کو ماننے والوں سے حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے۔ محراب ومنبر وہ پلیٹ فارم ہے جہاں سے غیر مسلموں کے ساتھ محبت، بھائی چارہ، حسن سلوک، خیر سگالی اور مہربانی کا پیغام عام کیاجاسکتا ہے۔’’ (صفحہ نمبر 260-261)

اپنی زندگی کا حاصل بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

‘‘ہماری ماں ہم کو سچائی اور ایمان داری کا سبق پڑھایا کرتی تھیں، ہماری پرورش کچھ ایسی ہوئی کہ ہم محنت کی قدر کرنے اور کسی بھی کام کو عزت وافتخار سے کرنے کے قابل ہوئے۔ دوسرا سبق میں نے یہ سیکھا کہ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ اگر یہ کامیابی سبھی جدوجہد اور محنت ومشقت سے حاصل ہوتو اس سے روح کو اطمینان اور آسائش حاصل ہوتی ہے، ہم کو فقط اپنے ضمیر کا خوف ہوتا ہے اور کسی دوسری شے کا نہیں۔ میسوریونیورسٹی میں اپنے کیرئیر کے دوران مجھے دوسروں کے تعصبات ، بھید بھاؤاور آزار کو جھیلنا پڑا۔ اس سے وقت گزرنے کےساتھ میرا کردار مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ اسی کے ساتھ میں نے ہمیشہ اپنی منزل مقصود کو سامنے رکھا اور راستےمیں حائل دشواریوں کے سامنے سپر نہیں ڈالا۔ اس سے ہمارا یہ عقیدہ راسخ ہوا کہ ہر شئے کا فیصلہ خدا کی جانب سے ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ ہردشواری کو عبور کرکے آگے قدم بڑھائیں۔ خدا ان ہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ الغرض نیک نیتی او رمخلصانہ جدوجہد ہر کامیابی کی شرط لازم ہے۔ اب اس کےلیے بھی جرات درکار ہے کہ آدمی ہمت نہ ہارے، تھک ہار کر نہ بیٹھ جائے بلکہ اپنے مقصد کو پیش نظر رکھ کر اس کے حصول کی پیہم کوشش کرتا رہے۔ اب میں آپ کویقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ اس راستے پر چلے تو کبھی آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔ کیوں کہ تقدیر الہی سے جو کچھ ہوا وہ آپ کی بھلائی کےلیے ہوگا۔ ہماری ماں نے سکھایاکہ ہم کو اپنے دشمنوں کے خلاف بھی انتقام کا جذبہ نہیں رکھنا چاہئے۔ جب تم اپنے مقصد کو حاصل کرلو تو راستے کی دشواریوں کو بھول جاؤ اور درگزر سے کام لو۔ انہوں نے بتایاکہ جب ہم دعا مانگیں تو نہ صرف اپنے لوگوں کی بھلائی کےلیے نہیں،بلکہ تمام انسانوں کی بھلائی کی دعا مانگیں۔

انتظامیہ میں رہ کر میں نے محسوس کیا کہ تم فقط اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر کوئی کام کروگے تو تمہاری آدھی طاقت جاتی رہے گی کیوں کہ عوام کی بھی آنکھیں ہیں،وہ سب کچھ سمجھتے ہیں لیکن جب تک برسراقتدار ہووہ کچھ بول نہیں سکتے۔ ہندوستانی سوسائٹی کا دستور ہے کہ جب تک تم اقتدار میں ہو تمہارے ماتحت خوشامد اور چاپلوسی سے اپنے سارے کام کراتے رہیں گے اور سارے فائدے حاصل کریں گے لیکن تمہارے اقتدار سے باہر ہوتے ہی وہ لوگ تمہاری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیں گے، قطع نظر اس کے کہ تم نے ان کو کتنے فا ئدے دئے۔

جب تم کسی مشن کو خلوص اور بے غرضی سے اختیار کروگے تو کامیابی کاراستہ خود بخود کھلتا جائے گا۔ اگر تم کرپشن اور غلط ذرائع سے دولت جمع کروگے تو کچھ وقت کےلیے اس سے خوشی ہوگی لیکن اس سے تمہاری روح کو سکون نہیں حاصل ہوگا اور کسی نہ کسی دن تمہیں اپنے اس جرم کا احساس ہوگا اور تم اندر اندر روتے رہو گے۔ ان عام خیالات کا اظہار میں اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر کررہا ہوں۔’’ (صفحہ نمبر 252-253)

اگر مختصرا ًاس کتاب کے بارے میں مجھے کچھ کہنا ہو تو میں یہی کہوں گا کہ خصوصی طور پر ہر مسلم قائد کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اپنا جائزہ بھی لینا چاہئے کہ کیا وہ واقعی قائد کہلانے کے مستحق ہیں جو اپنے اپنے اے سی لگے حجروں میں بیٹھ کر ملت کے عروج کا خواب دیکھتے ہیں، صحیح معنوں میں پروفیسر جلیس احمد خاں ترین جیسے لوگ قائد کہلانے کے مستحق ہیں اور ملت کے با شعور افراد کو چاہئے کہ ایسے افراد کو تلاش کرکے ان کی عزت افزائی کریں تاکہ آنے والی نسلیں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملت کی ڈوبتی ناؤ کو کھے سکیں۔

ختم شدہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad