مولانا نظام الدین اصلاحیؒ۔ جوانوں سے زیادہ جوان تھا وہ پیر
محی الدین غازی۔لوگ رات کے بڑھتے ہوئے اندھیروں کا شکوہ کرتے اور وہ طلوع آفتاب کی نہیں بلکہ ظہور آفتاب کی نوید سناتے۔
سب سے پہلے انھیں اعظم گڑھ شبلی نرسری اسکول کے میدان میں تقریر کرتے سنا۔ کہنے لگے سوویت یونین بکھر چکا ہے اور صرف دس سال کے اندر امریکہ کا بھی وہی حشر ہوگا اور پوری دنیا میں اسلام کا غلبہ ہوجائے گا۔ غلبہ دین کو اس قدر قریب کسی نے نہیں دکھایا۔ وہ یہ بات اتنے اعتماد کے ساتھ کہتے تھے کہ ہم نوجوانوں کے حوصلے بلند ہوجاتے۔
اسی دوران وہ جامعۃ الفلاح میں صدر مدرس کی حیثیت سے آئے۔ ان کے آنے سے پہلے ان کے رعب کا چرچا ہوگیا۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے اپنے پورے تعلیمی دور میں ایسا بارعب استاذ نہیں دیکھا۔ طلبہ کو جمع کرکے چند جملے کہتے اور ڈسپلن بحال ہوجاتا۔
پھر انھیں اعظم گڑھ کی جیل میں دیکھا۔ عزیمت کی راہ انھیں یہاں لے آئی تھی۔ ہم لوگ ملنے گئے تو نہایت ہشاش بشاش پایا۔ وہ جیل کے اندر جس قدر خوش اور آرام سے نظر آرہے تھے، ہم نے بہتوں کو محلوں میں اتنا خوش اور آرام سے نہیں پایا۔ اسی زمانے میں چرچا ہوا کہ ایمرجنسی کے زمانے میں بھی مولانا نظام الدین اصلاحیؒ نہ صرف جیل میں رہے بلکہ جیل کی زندگی کو انجوائے کرتے۔ دل کی بات کہوں تو مولانا کو جیل میں خوش و خرم، مسکراتے ہوئے گفتگو کرتے دیکھ کر میرے دل سے قید و بند کا سارا خوف رفو چکر ہوگیا۔
مدرسۃ الاصلاح میں امام حمید الدین فراہیؒ کے افکار پر ایک تاریخی سیمینار منعقد ہوا، اور اس میں مولانا نظام الدین اصلاحیؒ کے جملے سب سے زیادہ مشہور ہوئے۔ مولانا نے بزرگ اصلاحیوں کے نام گناتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا کہ جماعت اسلامی کو علامہ فراہی کے شاگردوں اور مدرسۃ الاصلاح کے فرزندوں نے قیادت فراہم کی۔
انھوں نے روانی سے مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا ابواللیث اصلاحی، مولانا اختر احسن اصلاحی، مولانا صدر الدین اصلاحی کے نام لیے۔ فہرست نامکمل تھی۔ مولانا نے کسر نفسی سے کام لیا تھا، حاضرین نے فہرست میں مولانا کے نام کا اضافہ کردیا۔
مولانا نہایت مخلص اور بہت پرجوش انسان تھے۔ اخلاص اور جوش کا یہ امتزاج انھیں ایک سیاسی پارٹی تک لے گیا۔ ان کا جماعت اسلامی سے تنظیمی رشتہ منقطع ہوگیا۔ مفادات کی سیاست پارٹی کو اپنی رو میں بہالے گئی تاہم مولانا اپنے دامن کو تمام چھینٹوں سے بچاکر چاند پٹی گوشہ نشین ہوگئے۔ مولانا خود کو رکن جماعت ہی مانتے رہے۔ میں نے چند ماہ قبل مولانا سے فون پر گفتگو کے دوران کہا: مولانا آپ جماعت اسلامی کی رکنیت کا فارم بھردیجیے۔ کہنے لگے کہ میں تو رکن ہوں۔ فارم بھر کر یہ کیوں ثابت کروں کہ میں رکن نہیں ہوں۔
مولانا کی عمر لگ بھگ پچانوے سال تھی۔ لیکن صحت اچھی تھی اور مطالعہ خوب کرتے تھے۔ چند روز قبل فون کیا اور کہا کہ رہنمائے ترجمہ قرآن میں آیتیں تلاش کرنے میں دقت پیش آتی ہے، اسے سورتوں اور آیتوں کی ترتیب کے لحاظ سے مرتب کرنا چاہیے تھا۔ میں نے عرض کیا: ان شاء اللہ دوسرے حصے کی اشاعت کے وقت دونوں حصوں کا انڈیکس بھی شامل کردوں گا۔
مولانا نظام الدین اصلاحیؒ کا وطن اعظم گڑھ کا مشہور گاؤں چاند پٹی تھا۔ مولانا ابواللیث اصلاحیؒ کے چچا زاد بھائی تھے۔ جماعت اسلامی کے سابقون اولون میں تھے۔ کافی پہلے جماعت کی مجلس شوری میں شامل ہوگئے تھے۔ گفتگو بے باک کرتے تھے۔ ابھی تک یادداشت بہت اچھی تھی۔ ارادہ تھا کہ جماعت اسلامی ہند کی تاریخ کے سلسلے میں ان سے استفادہ کروں گا۔ مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔
مولانا نوجوانوں کی تربیت بڑے انوکھے انداز میں کرتے۔ وہ ہمت، حوصلہ، بہادری اور جوش پیدا کرتے تھے لیکن جذباتیت سے بچانے کی فکر بھی رکھتے تھے۔ وہ پچانوے سال کے جوان تھے، بڑھاپے والی کوئی بات نہ ان کی شخصیت میں تھی اور نہ کوئی بڑھاپے والی بات کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان سے ملاقات کرکے نوجوانوں کو تحریک ملتی تھی۔
اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں