مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کا فقدان اور حل
تحریر: مسعودجاوید
تعلیم سے ہی تصویر بدلے گی یا یہ کہ تعلیم سے ہی تقدیر بدلے گی اس موضوع پر ایک عرصہ سے لکھ رہا ہوں مگر ان تحریروں کا محور مرکزی ملی قیادت ہوتا تھا اور اپیل ، خواہش اور گزارش کل ہند کہی جانے والی ملی قیادت کے سربراہان سے ہوتی تھی کہ وہ مسلمانوں میں معیاری تعلیم عام کرنے کے لئے دینی مدرسوں کے نہج پر انگلش میڈیم اسکولوں کا جال بچھائیں۔
لیکن پچھلے چند مہینوں کے دوران تعلیمی بیداری کے میدان میں ملی قیادت سے مایوسی کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمیں خود اپنے گاؤں ، شہر اور ریاست میں اس کے لئے متحرک ہونا ہوگا۔ اس لئے کہ تقریباً ہر ملی قیادت کے قیام کے اغراض ومقاصد میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنا شامل تو ہے مگر عموماً اس پر کسی نے کام نہیں کیا۔
اسی طرح مسلمانوں کے سینکڑوں این جی اوز ہیں جن کے اغراض و مقاصد میں اقلیتوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لئے کام کرنا لکھا ہے لیکن وہ کاغذ پر ہی ہے زمین پر نظر نہیں آیا ۔
اس لئے اب ہر شہر اور قصبے میں مسلم نوجوانوں کو تعلیمی بیداری کا بیڑہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
میں خیراتی ادارے چلانے کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں۔ جیسا کہ بارہا لکھا اسکول اور نرسنگ ہوم دو ایسے سیکٹرز ہیں ، جو منفعت بخش تجارت بھی ہیں اور خدمت خلق بھی، اس میں انویسٹمنٹ کرنے کے لئے کہہ رہا ہوں۔
عام روایتی تعلیم کے لئے سرکاری اسکول ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں اور اسکولوں کی کارکردگی سے عام طور پر لوگ مطمئن نہیں ہیں۔
پہلے کی بنسبت لوگ اب زیادہ حساس ہیں اچھے کھانے پینے اور مکان سے کہیں زیادہ کوالٹی ہیلتھ کیئر اور کیریئر اورینٹڈ تعلیم ان میں سے زیادہ تر لوگوں کی ترجیحات ہیں ۔ متوسط طبقہ کے لوگوں میں بھی اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے لیے دوسری ضروریات اور اخراجات میں کٹوتی کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
چونکہ تعلیم کا سیکٹر اب منفعت بخش تجارت ہو گیا ہے اس لئے ایک طرف بڑے کارپوریٹ گھرانے اس میں انوسٹمنٹ کر رہے ہیں تو دوسری طرف دہلی پبلک اسکول اور ڈی اے وی اسکول جیسے بڑے نام والے اپنا اپنا دائرہ عمل وسیع کر رہے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں شاخیں کھول رہے ہیں یا فرینچائزی دے رہے ہیں۔ یہ دونوں اسکول ملک و بیرون ملک ،جہاں جہاں ہندوستانی رہتے ہیں، میں ایک برانڈ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
شہر سے دور دراز کول فیلڈ علاقوں میں بھی دیانند اینگلو ویدک اسکول کھولنے کے لئے ڈیمانڈ ہوتے ہیں اور کھولے جاتے ہیں اس لئے کہ اس اسکول میں ماڈرن سیکولر سی بی ایس ای کے نصاب کے ساتھ ہندو مذہب آریہ سماج کی بنیادی تعلیم سے طلباء کو واقف کرایا جاتا ہے۔ آج اس کے ہزار سے زیادہ اسکول پورے ملک میں معیاری تعلیم کے زیور سے بچے اور بچیوں کو آراستہ کر رہے ہیں ۔
گزشتہ کئی دنوں سے بہار کے مدھوبنی سے
۔ Great India Academy کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائرکٹر
۔Najmul Huda Sani نجم الہدی ثانی صاحب outreach مشن کے تحت دہلی کے دورے پر ہیں ۔ دو روز قبل جب میں سفر سے دہلی لوٹ رہا تھا ان کا ملاقات کے تعلق سے میسج آیا۔ کل شام وہ تشریف لائے اور تفصیل سے اس انگلش میڈیم اسکول کی موجودہ ہیئت اور مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بتایا ۔
خاکسار نے بھی دیانند اینگلو ویدک اسکول کی غیر رسمی مشاورتی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے معلومات اور تجربات ان کے ساتھ شیئر کیا اور تعلیم کے تعلق سے جامعہ نگر سمیت ملک کے مختلف خطوں بالخصوص شمالی ہند کے حالات زار پر ہم لوگوں نے باتیں کی۔
نجم الحسن ثانی صاحب کی باتیں بالخصوص GIA کے مستقبل کے منصوبوں کو سن کر ان سے بہت امیدیں بندھی ہیں۔ میں نے ان سے یہی کہا کہ اگرآپ اور آپ کی ٹیم نے کوالٹی ایجوکیشن کی ڈلیوری سے والدین کا اعتماد حاصل کر لیا تو ان شاءاللہ آپ کا یہ ادارہ ایک ماڈل کی طرح ابھر کر سامنے آئے گا۔ دوسرے علاقوں سے لوگ آپ کے یہاں سیکھنے آئیں گے کہ کس طرح تجارتی منفعت کے ساتھ ملت کے نونہالوں کو نہ صرف روایتی تعلیم سے آراستہ کیا جاسکتا ہے بلکہ مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے بھی ان کی ذہن سازی کی جا سکتی ہے۔
اسکول اور مستقبل کے منصوبے جن سے انہوں نے آگاہ کیا اور جو devotion اور commitment ان میں میں نے محسوس کیا اس سے لگا کہ عنقریب وہ اور ان کی ٹیم کچھ بڑا کر کے دیکھائے گی۔ ۔۔ ان شاء اللہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں