تازہ ترین

جمعہ، 23 ستمبر، 2022

میر صادق ! ہیرا گروپ سے تسلط کا پنجہ ہٹا کیوں نہیں لیتا!

(تحریر : مطیع الرحمن عزیز)حیدر آباد کی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمیشہ ہر زمانے میں یہاں کی سر زمین سے ایسی سازشوں کا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے جس سے دیگر قوموں کا چھوڑ ملک بھارت اور خاص طور سے مسلم امہ کا تہس نہس ہوتا رہا ہے۔میر جعفر نے اپنی منافقت سے نواب سراج الدولہ کے تختہ پلٹ کا کام کیا تھا تو میر صادق حیدر آباد کی سرزمین دکن سے تعلق رکھنے والا ٹیپو سلطان کے ساتھ غداری کی اور زمام حکومت انگریزوں کے ہاتھوں میں سوپنے کا کام کیا۔نوے کی دہائیوں میں حیدر آباد کی سرزمین پر جنتا کو آپریٹیو بینک ہوا کرتا تھا، جس کو اس وقت کے میرصادقوں نے اپنی سیاسی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تہہ و تیغ کیا اور اس کے مالک کو گولی مار کر خودکشی کی شکل دے دی گئی، اور پورے بینک میں جمع پیسے پر قبضہ جما یااور ساتھ ہی ساتھ حیدر آباد کی ہی سرزمین پر ایک بینک کا وجودعمل میں آچکا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر کے چپہ چپہ پر اس کے شاکھائیں کھلنی شروع ہو گئیں، یہاں تک کہ بہت جلد وہ وقت آگیا جب حیدر آبادی ماؤں اور بہنوں کی گردنوں اور ہتھیلیوں کے زیوروں کو اسی بینک کے لاکر میں جمع کرا دیا گیا اور بڑے دھلڑے سے ایک مہنگے سود قسط کی نظر لاکھوں ماؤں اور بہنوں کی سونے اور سنگار جاتے رہے اور میر صادق و میرجعفروں نے ملک بھر میں گھوم پھر کر غداری اور دھوکے بازی سٹے بازی کے نئے نئے ریکارڈ قائم کرتے رہے۔
 اس طرح کے واقعات حیدر آباد کی سرزمین سے منظر عام پر آتی رہتی ہے،گزشتہ روز ایک خاتون کہنے لگیں کہ ان کے چچیرے بھائی نے میڈیکل کالج کھولا تو اس پر اتنے بڑے بڑے مقدمات اور مطالبات تھوپ دئے گئے کہ وہ بیچارہ یہ سوچتا پھرتا رہا کہ آخر میں نے قوم کے نونہالوں کی تعلیم اور ترقی کے لئے سوچا ہی کیوں تھا۔ ہیرا گروپ آف کمپنیز بھی اسی سرزمین کی ایک مظلوم کمپنی ہے جس نے پچیس لاکھ افراد کی روزی روٹی کا بندبست کیا آج وہ تمام حقائق اور مظلومیت و معصومیت کے باوجود اپنے نیک ارادوں اور پختہ عزائم کو لئے لوگوں کی طعن و تشنیع بلا وجہ سنتی پھر رہی ہے۔

ہیرا گروپ آف کمپنیز چتوڑ کی سرزمین سے چل کر پہلے آندھرا پردیش کے شہر تروپتی اور پھر حیدر آباد کو اپنی تجارت کے لئے صدر دفتر منتخب کیا تو دھمکیوں اور سازشوں کے وہ چکر چلائے گئے کہ اللہ کی پناہ۔یہیں پر بس نہ کیا گیا غنڈے موالی اور پھروتی کے ماہرین کو کمپنی کے پیچھے لگا دیا گیا،لاکھ طریقوں سے ہیرا گروپ کے ذمہ داروں اور کارکنوں کو حراساں کیا گیا۔

حراساں کرنے کی اولین مدت چار سال رہی۔ جب اس طرح سے کام نہ بن سکا تو حیدر آباد کے ممبر پارلیمنٹ جناب اسد اویسی نے ہیرا گروپ کے خلاف غلط کاروبار کا الزام لگا کر ایف آئی آر درج کرایا۔یہیں پر بس نہ کیا گیا۔اس ایف آئی آر کے پیچھے چار سال تک کمپنی کو جانچ پڑتال کے مشقت آمیز مرحلے سے گزارا گیا۔آخر کار بے بنیاد اور جھوٹا ایف آئی آر قرار دے کر عدالت نے حیدر آبادی ممبر پارلیمنٹ اسد اویسی کو شکست فاش سنائی۔ہیرا گروپ آف کمپنیز نے اس کے جواب میں اسد الدین اویسی پر سو کروڑ اور ان کے ایم آئی ایم کے ایک پارٹی ممبر شہباز احمد خان پر دس کروڑ ہتک عزت مقدمے کی کارروائی کی۔ ابھی خبروں میں سنا گیا ہے کہ 12 ستمبر 2022میں ہتک عزت کیس کی سماعت میں عدالت سے اسد اویسی کی جانب سے یہ اپیل داخل کی گئی تھی کہ معاملے کو خارج کر دیاجائے۔لیکن عدالت نے اسد اویسی کی اپیل کو خارج کر دیا اور کہا کہ اگلی سماعت میں عدالت کے سامنے ہر حالت میں حاضر ہوں۔

قارئین : منظر نامہ کو پیش کرنے کا مقصد ہیرا گروپ کے اوپر گزر رہی اس داستان کو بیان کرنا مقصد ہے کہ اول تو بغیر دلیل اور ثبوت کے ہیرا گروپ آف کمپنیز کوبند کرایا گیا اور اس کی سی ای او کو گرفتار کرتے ہوئے قید کرا دیا گیا۔کمپنی کے تمام وسائل پر قبضہ کر لیا گیا۔آنا فانا تمام دفاتر پر بڑے بڑے تالے لگا دئے گئے۔ہیرا گروپ کی تمام جائیدادوں پر نوٹس بورڈ گاڑ دئے گئے۔ باقی بچی کسر یہ ہوئی کہ کمپنی سی ای او کے رشتے میں آنے والے 36 افراد پر غیر ضمانتی وارنٹ جاری کر دئے گئے۔

 کیا ہوا کچھ بھی نہیں،عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ سی ای او ہیرا گروپ آف کمپنیز کو ڈھائی سال تک الگ الگ قید خانوں میں گھمایا جاتا رہا۔ فریق خاص کی قصدا وقت گزاری عمل میں لائی جاتی رہی،پہلے سپریم کورٹ میں مقدمہ پہنچنے نہیں دیا گیا۔بعد میں جب کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں پہنچی تو برسوں سی ای او ہیرا گروپ آف کمپنیز کو حراست میں رکھتے ہوئے معاملہ معلق رکھا گیا۔آخر کار سپریم کورٹ کو جلال آیا اور دعوی دار ایجنسیوں کو پھٹکار لگاتے ہوئے یہ حکم صادر کیا کہ ”بیشک معاملہ سیاست کے زیر اثر دیکھا جا رہا ہے۔لہذا کسی کو محض اس لئے قید نہیں رکھا جا سکتا کہ آپ لوگوں کی خواہش دکھائی نہیں دیتی۔ آج لگ بھگ سالوں کا عرصہ گزرتا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ سے ہیرا گروپ آف کمپنیز کو چلانے کی اجازت دی گئی ، مگر کون سے وہ شہہ زور ہیں جو حیدر آبادی ایجنسیوں کو سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے حاضر نہیں ہونے دے رہے ہیں۔

افسوس اس بات کا مزید اور بڑھ جاتا ہے کہ کمپنی سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ سپریم کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ عدالتوں کے جانچ پڑتال کے مطابق ہی سہی اگر بات کریں تو 87 جائیدادیں ہیرا گروپ کے اثاثوں میں دستیاب ہیں۔ان جائیدادوں کو ایک ایک کرکے بیچنے سے دریغ نہیں ہے اگر ضرورت محسوس کی گئی، جس کے ذریعہ لوگوں کے پیسوں کی ادائیگی ہو سکے۔ لوگوں کے امانتوں کی دین داری 5500کروڑ عدالت کے مطابق ہے۔جس میں سے نصف تعداد سے زیادہ نے کمپنی میں خود کو مسلسل تجارت جاری رکھنے کیلئے حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اور ایس اے کالونی ٹولی چوکی کی ایک جائیداد جسے جانچ ایجنسی کے سامنے بطور اطلاع رکھا گیا کہ یہ جائیداد جو کہ 900 کروڑ روپئے کے لگ بھگ کی ہے ہم فروخت کرکے لوگوں کو ان کی امانتوں کی ادائیگی کر دینا چاہتے ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ اس پر اپنی حمایت کی مہا ثبت کر دے۔ اور جانچ ایجنسیوں کو جو جانچ کرنا ہے کر کے اپنی رضامندی دکھا دیں۔

 لیکن یہاں رضامندی دکھانے کی بات تو دور۔ کوئی میر صادق و میر جعفر ہے جو اپنی سیاسی طاقت سے ریاستی جانچ ایجنسیوں پر حاوی ہے اور ان کو عدالت کی تاریخ پر پہنچنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ کل ملا کر سو کی سیدھی بات یہ کہ تاریخ نے جن بھی میر صادق و میر جعفر کو دیکھا تھا، آج اگر کسی کو دیکھنا ہے تو وہ حیدر آباد کی سرزمین کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے گا تو اسے آج بھی میر صادق و میر جعفر کی اولاد مل جائیں گے، جو ہو بہو ملک دشمن طاقتوں کا کام آسان کرنے کے لئے اپنی عارضی طاقت کو بچانے کیلئے کام کر رہے ہیں، اللہ بہتر جانتا ہے اور ان سے نمٹے گا بھی۔ان شااللہ

کل ملا کر اگر بات کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ کن لوگوں کو خدشہ اور خوف ہے ہیرا گروپ کے بازیاب ہونے اور کامیاب و کامران نکل آنے سے۔ صاف واضح ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر بات کریں تو حیدر آباد کی سرزمین پر سیکڑوں ماﺅں بہنوں اور بزرگوار سے بات چیت کے بعد پتہ چلتا تھا کہ ہیرا گروپ کے ہونے سے مقامی حیدر آبادی بینکوں سے قرض اور سود اور گروی رکھے ہوئے زیوروں کی لعنت سے چھٹکارہ دستیاب ہوتا تھا۔ایسے میں کوئی بینک کا مالک ہی ہو گا جو نہیں چاہے گا کہ اس کے سود کی شرح میں کمی واقع ہو اور عوام خوشحال ہوںاور سودی کاروبار سے دور رہیں۔

 دوسری بات جو سمجھنے میں آنے والی ہے وہ یہ ہے کہ عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی سماجی خدمت کے بعد سیاست میں حصہ داری بھی حیدر آباد کی سرزمین پر کچھ لوگوں کو کھٹک رہی ہے۔ ممکن ہے کسی کی گندی سیاست کے اجاگر ہونے اور اس کی بدخلقی و ہفتہ وصولی کے قلع قمع ہونے کا خدشہ ہو۔ جس کی وجہ سے عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے پیر پیچھے دھکیلے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی تعلیمی، سماجی، فلاحی، رفاہی، فلاحی، بہبودی خدمت کے ساتھ ساتھ سماج میں تمام طبقات میں مقبولیت بھی فریق خاص عرف میر صادق و میر جعفر کو کھٹک رہی ہو گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad