مولانا ارشد مدنی کی جانب سے ناجائز مدارس کو توڑنے کی تعبیر
یہ دیکھیے کیسے مولانا ارشد مدنی کے بیان کے غلط حصے کو میڈیا پورے ملک کے مدارس کےخلاف ماحول بنانے کے لیے استعمال کررہاہے.
مولانا ارشد مدنی نے دارالعلوم دیوبند سے پریس کانفرنس میں کہا کہ جن مدرسوں کے کاغذات نہیں جو سرکاری زمینوں پر بنے ہوئے ہیں ایسے مدارس ناجائز ہیں اور انہیں توڑ دینا چاہیے،
کل رات مولانا ارشد مدنی صاحب نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ، وہ یوگی سرکار کے مدرسہ سروے کا استقبال کرتےہیں،
سروے کا استقبال اور ناجائز مدارس کی تعبیر اور ان پر بلڈوزر چلائے جانے کی وکالت، یہ بہت ہی غلط اور غیرمناسب ہے، مولانا ارشد مدنی صاحب کا یہ بیانیہ ملک بھر کے مدارس کےخلاف ماحول سازی اور ان پر سرکاری کارروائیوں کا راستہ آسان کرنے کے لیے سنگھی مشنری کے ذریعے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائےگا، جس کا آغاز نیشنل میڈیا پر ہو چکا ہے،
میڈیا باقاعدہ یہ بات چلا رہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند مے سروے کی حمایت کردی ہے اور دارالعلوم کے صدر مدرس مولانا ارشد مدنی نے ناجائز مدارس پر بلڈوز چلانے کی وکالت کی ہے،
بہت ممکن ہے بلکہ یقینی طورپر کچھ مدارس غلط طور پر پائے جائیں گے، لیکن ان سے زیادہ یقینی یہ ہےکہ جو صحیح مدارس ہیں ان کو سرکار اگر چاہے تو کیوں نہیں پھنسا سکتی ہے؟ اور سبھی مانتے ہیں کہ اسوقت سرکار کی نیت بھی یہی ہے، کیا مدرسوں کو ناجائز قرار دےکر یہ سرکار ان مدارس کے ذمہ دار علماء کو گرفتار نہیں کرسکتی ہے؟ کیا موجودہ سرکار میں یہ بعیداز امکان ہے؟ اور پھر یہ کون طے کرےگا کہ کونسے مدارس ناجائز ہیں؟ موجودہ سرکار اور اس کی سنگھی ایجنسیاں؟ ان پر اعتماد کیسے کرلیا جائے؟
مولانا ارشد مدنی صاحب کا یہ بیانیہ صرف اترپردیش نہیں بلکہ ملک بھر کے مدارس کےخلاف استعمال کیا جاسکتا ہے،
مدرسہ سروے پر مولانا ارشد مدنی صاحب کا استقبالیہ بیان آگے چل کر دیگر صوبوں کے مدرسوں کے لیے سر درد بننے والا ہے، ابھی صرف اترپردیش میں سروے ہورہاہے آگے ایک ایک کر کے یہ مصیبت ہر صوبے میں شروع ہوگی اور تب ممکن ہےکہ سرکاری کارندے مولانا ارشد مدنی کا یہ بیان بھی مدرسے والوں کو پیش کریں کہ تمہارے اتنے بڑے مولانا نے تو یوپی میں مدرسوں کے سرکاری سروے کا استقبال کیا تھا تم کو کیا دقت ہے؟
ہم نے کل بھی کہا تھا کہ، سروے ہونا الگ بات ہے، اور سرکاری سروے کو قابلِ استقبال یعنی کہ welcoming step قرار دینا دوسری بات ہے، اور یہ دوسری بات سرکاری اور سیاسی سطح پر غلطی ہے، اس پر مستزاد اب ناجائز مدارس کی تعبیر اور ان کو توڑنے یعنی کہ ان پر بلڈوز کی وکالت یہ بڑی افسوسناک باتیں ہیں جو بڑوں کی طرف سے سامنے آرہی ہیں،
لیکن شاید ابھی بھی ہندوستانی مسلمانوں میں حق بات اور صحیح موقف سے زیادہ شخصیت پرستی اور عقیدت میں غلو کا مزاج زیادہ غالب ہے جس کی وجہ سے انہیں بس حضرتوں کے بیانات کےعلاوہ ہر چیز غلط نظر آتی ہے اور اپنے حضرتوں کے بیانات پر کوئی بھی سوال انہیں برداشت نہیں ہوتاہے،
یعنی اگر اتنی نازک صورتحال اور سخت ہندوتوا حالات میں گھرے ہوئے لوگوں کو ترجیحی طورپر اپنی شخصیت پرستی اور غالی عقیدت کی ہی پڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے علامتی قائدین اور محبوب شخصیات پر کوئی سوال برداشت ہی نہیں کرنا چاہتےہیں توپھر آنے والے حالات اگر مزید خراب ہوں تو تعجّب کی کوئی بات نہیں ہے_
ناجائز مدارس، اور ان پر بلڈوزر والی تعبیر قومی میڈیا میں کم از کم مولانا ارشد مدنی صاحب کو استعمال نہیں کرنی چاہیے تھی _
✍: سمیع اللہ خان
ksamikhann@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں