حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ دریافت کی۔ تو معلوم ہوا کہ اس کا شوہر جہاد کے سلسلے میں باہر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اس سچے جذبہ محبت کا گہر ااثر پڑا۔ انہوں نے اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: عورت بغیر مرد کے کتنے دن صبر کر سکتی ہے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جو ازواج مطہرات میں سے تھیں۔ انہوں نے فرمایا: چار ماہ۔ یہ معلوم کرکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بحثیت خلیفہ سپہ سالاروں کے نام حکم بھیج دیا ۔جو شادی شدہ ہوں وہ اپنی بیویوں سے چار مہینے سے زیادہ غائب نہ رہے ۔ اس تاریخی واقعے سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ آدمی اپنی بیوی کے جذبات نہ بھولے۔
اوراگر زیادہ مدت کےلیے پردیس میں رہنا ہے۔ تو بیوی بچوں کو ساتھ میں رکھے۔اس کی تائید قرآن مجید میں بھی ہے۔ جہاں اعلیٰ کا ذکر ہے۔ سورت البقرہ میں جو لوگ اپنی بیویوں سے قسم کھا بیٹھیں ہیں۔ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے سو اگر وہ رجوع کرلیں تو اللہ پاک معاف فرمادیں گے۔ چارہ ماہ کے بعد عورت مرد سے مطالبہ کرسکتی ہے۔ کہ یا تو وہ اسے بسائے یا پھر طلاق دیدے۔ تاکہ وہ اپنی زندگی بہتر طریقے سے گزار سکے ۔ یہ اجازت اس لیے دی گئی ہے۔ کہ مرد تو بیوی کی موجودگی میں نکاح کرسکتاہے۔ لیکن جب تک عورت ایک مرد کے نکا ح میں موجود ہو تو وہ اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایاہے : کہ کوئی اپنی بیوی کے راز کے باتوں کو افشاں نہ کرے۔ لوگوں میں اللہ پاک کے نزدیک بد ترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے پاس جائے اور اپنی بیوی کو ملے اور مرد اس بات کو باہر پھیلائے۔ آپس کی پرائیویٹ باتیں دوسروں کو بتانا حرام ہے عورتوں اور مردوں دونوں کےلیے ۔ اسی طرح عورت میں عیب موجود ہوتو مردوں کو چاہیے کہ اس عیب کی تشہیر نہ کرے۔ بلکہ اس کو اپنے تک محدود رکھے۔ سورت البقرہ میں ہے:”کہ وہ تمہار ا لبا س ہے۔ اور تم ان کا لباس ہو”۔ لباس انسان کے عیب چھپاتا ہے اور زینت کا سبب بنتا ہے۔ اللہ ہم سب کو دین کی سمجھ عطافرمائے ۔ اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ ثم آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں