تازہ ترین

جمعرات، 1 ستمبر، 2022

ترقیاتی دور میں مکاتب اور مدارس میں فن کتابت سیکھنے کا شوق ماضی کا حصہ بن کر رہ گیا

ترقیاتی دور میں مکاتب اور مدارس میں فن کتابت سیکھنے کا شوق ماضی کا حصہ بن کر رہ گیا

طلبہ خوشخط اور تحریری مہارت کیلئے لکڑی کی تختی پر مشق کرتے تھے،آج نئی نسل ناواقف

تحریر:حاجی ضیاء الدین جونپوری ۔ دہائیوں قبل جب وسائل کم تھے تو تحریری مہارت کا ذریعہ لکڑی کی تختی ہو اکر تی تھی جس پر طفل مکتب و مدارس کے طلبہ تحریری مشق کیا کر تے تھے زمانے نے ترقی کی تو بازاروں میں کاپی اور فائنٹین پین دستیاب ہو نے لگے اور پھر رفتہ رفتہ تختی ماضی کا حصہ بن گئی ہے یوں تو خط و کتابت ، تحریریںانسانی ضروریات و دستاویزات کے لئے بھلے ہی سند کا کام کر تی ہوں لیکن اگر تحریر خوش خط ہو تو ہر انسان کا دل جیت لیتی ہیں دہائیوں قبل مکاتب ومدارس کے اساتذہ اپنے شاگردوں کو خوش خط میں ماہر بنانے کے لئے تحریری مشق کر اویا کرتے تھے۔

 طلبہ کے لئے تحریری مشق کا واحد ذریعہ لکڑی کی تختی ہو ا کر تی تھی جس پر طلبہ سر ہری ، نر کٹ وغیرہ کی قلم سے سیاہی کی مدد سے الف، ب، لکھنے کی مشق کیا کر تے تھے اور اساتذہ بھی اپنے شاگردوں کی پوری مدد کیا کر تے تھے بعض اساتذہ طلبہ کا ہاتھ پکڑ کر عملی مشق کروانے میں مدد کر تے تھے تو وہیں بعض اساتذہ اپنے طلبہ کے لئے قلم کی نوک کو خود تیار کر تے تھے اور تختی پر استاذ اصلاح بھی کر تے تھے طلبہ جھولا ( بستہ ) اور تختی لٹکائے میلوں پیدل چل کر اسکول یا مکتب تک پہنچتے تھے شام کو مکتب سے گھر لوٹنے کے بعد طلبہ تختی کو دھوتے تھے تختی دھونے کے بعد پیلی مٹی یا دو دھی کا لیپ لگا تے تھے اور جب تختی سوکھ جا تی تھی تو پھر تختی پر طلبہ الف ، ب وغیرہ کی تحریری مشق کیا کر تے تھے۔

 اساتذہ تختی کے ایک سمت الف ، ب ، وغیرہ لکھواتے تھے تو دوسری جانب گنتی وپہاڑہ کی مشق کرا تے تھے درجنوں تختیوں کی جانچ کر کے استاذ طلبہ کی تحریری اصلاح بھی کیا کر تے تھے دنیا وی وسائل کم تھے تو بعض علاقوںمیں روشنائی بھی نہیں ملتی تھی کچھ لوگ گیہوں کو جلا کر اس کی راکھ سے سیاہی بنا لیا کر تے تھے سیاہی تو بن جاتی تھی تو سیاہی رکھنے کے لئے شیشی بڑی مشکل سے ملتی تھی زمانے نے ترقی کی تو بازاروں میں کالی و ہری ریڈی میڈ سیاہی کی پڑیا کے علاوہ بھری ہو ئی شیسی میں سیاہی (رو شنائی ) ملنے لگی جس سے کچھ آسانی ضرور ہو ئی ۔


 طفل مکتب کو خوش خط میں ماہر بنانے کے لئے اساتذہ ہاتھ پکڑ کر خود ہی مشق کروایا کر تے تھے بعض اساتذہ کی تحریریں طلبہ کے لئے مثالی ہو ا کر تی تھی بعض اساتذہ طلبہ کی قلم کا خط بنانے کے لئے ایک چھوٹا سے چاقو اپنی جیب میں ہمیشہ رکھا کرتے تھے اساتذہ طلبہ کے اندر خوش خط کی صلاحیتیں پیدا کر نے میںمد د گار ثابت ہو تے تھے مکاتب کے بعد مدارس میں داخلہ لینے پر طلبہ فن خطاطی سیکھا کر تے تھے ترقی ہوئی تو گائوں و مکتب مدارس سے تختی کاچلن غائب ہو گیا ہے ۔

دور حاضر میں طلبہ کے اندر خوش خط کی صلاحیتیں پیدا کر نے کا رواج ختم ہوگیا ہے مکاتب ومدارس کے طلبہ کاپی پر فائنٹین پین کی مدد سے تحریری مشق کر نے لگے ہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بڑے مدارس میں فن خطاطی کا شعبہ ضرور قائم ہے لیکن عام مدارس میں طلبہ اپنی مرضی سے فن خطاطی کے استاذ سے فن خطاطی کو سیکھ رہے ہیں ماہرین بتاتے ہیں کہ فن خطاطی کا چلن عربی و اردو زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں ہے ۔نمائندہ انقلاب نے جامعہ حسینیہ لال دروازہ کے استاذ قاری محمود عالم بلیاوی سے رابطہ کیا تو انھوںنے بتا یا کہ علاقائی مدارس ومکاتب میں طلبہ میں خوش خط بنانے کا رواج ضرور تھا

 لیکن فن خطاطی کا کوئی شعبہ قائم نہیں ہے فن خطاطی بھی ایک فن ہے ہر حرف کو ناپ تول کر لکھا جاتا ہے الف میں تین خط ہوتے ہیں لمبائی مو ٹا ئی کا بھی دھیان دینا ہو تا ہے اس کے علاوہ نستعلیق کا علیحدہ پیمانہ ہو تا ہے خط ثلث عربی میں ہوتا ہے جو کافی دشوار کن ہو تا ہے خط دیوانی جلی ، دیوانی خفی اور ایک عام خط ہو تا ہے خط نسخ کے علاوہ خط رقع عام طور پر عربی میں لکھے جانے والے خط ہو تے ہیں ۔

انھوںنے بتا یا کہ دور حاضر میں کمپیوٹر و دیگر فانٹ ضرور آگئے ہیں لیکن اس کے لئے فن خطاطی کا جاننا ضروری ہو تا ہے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حفظ کے دوران تعلیم فن کتابت سیکھنے کا شوق ہوا اور بعد نماز عصر سے مغرب تک استاذ کے پاس خطاطی سیکھنے جا یا کر تا تھا فارغ ہو نے تک سیکھتا رہا ہے خلیق ٹونکی کا شمار فن خطاطی کے ماہر اساتذہ میں ہو تا تھا۔


 غالب اکیڈمی میں فن خطاطی کی درس دیا کر تے تھے جنھوںنے الفی قر آن لکھا ہے خوش خط سے لے کر ہاتھ سے لکھے جانے والے فن خطاطی سے لوگوں کی دلچسپی کم ہو رہی ہے مجھے ان کی سر پرستی حاصل ہوئی ہے چند طلبہ اپنی مرضی سے خطاطی سیکھنے کے لئے ضرور آتے ہیں لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے کی بنسبت اردو پڑھنے و لکھنے کا رواج ختم ہو تا جا رہا ہے وہیں نسل نو پر مکاتب و مدارس کی جانب سے خوش خطاطی و رسم الخط پر توجہ نہ دئے جانا لمحہ فکریہ ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad