تازہ ترین

پیر، 26 ستمبر، 2022

ندوہ ہمارا گاؤں اور ہم

ندوہ ہمارا گاؤں اور ہم

آصف انظار عبدالرزاق صدیقی

بھارت گاؤوں کا دیس ہے، آپ شہر میں کھڑے مٹی کے جس تودے پر ہاتھ رکھیں نیچے سے گاؤں کی بھر بھری ، چکنی یا دومٹ مٹی نکل آئے گی۔
کسی ادیب کو کھرچیں ، کسی معلم کو کریدیں ،کسی سائینس داں کا تجزیہ کریں کسی صوفی کے پیچھے مراقب ہوں نیچے سے ایک جھاڑ جھنکار دیہات نکل آئے گا۔۔


ہم مہابیر جین کے دیس ویشالی میں پیدا ہوئے اور ہمارا آبائی مسکن سابق مظفر پور لیچیوں کا نگر اب موجودہ وقتوں میں سیتا کی مڑھی ہے۔۔


ہمارا گاؤں اتنا دیہات تھا کہ سب سے قریبی شہر دربھنگہ بھی چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
 گاؤں کا نام البیلا ہے۔۔پاک ٹولہ جو  بھارتی تلفظ کی زد میں آکر پکٹولہ ہوگیا تھا ، جیسے دلی میں منیر خان منیر کا ہوگیا مہر ِولی  مہرولی ہوگیا ،



ہمارا گاؤں اتنا دور افتادہ ہے کہ سورج کی روشنی بھی پورے آٹھ منٹ بعد پہنچتی ہے۔۔
علم کی روشنی کو آپ اسی پر قیاس کر لیں۔
معلوم نہیں ہمارے یہاں علم کی روشنی کا پہنچی مگر جب ہم نے مکتب جانا شروع کیا اس وقت ہمارے علاوہ ہمارے خاندان میں جتنے لوگ تھے ہماری دادی کو چھوڑ کر سبھی پڑھے لکھے تھے۔۔


ہماری دادی پڑھی لکھی نہیں تھیں البتہ یہ کنفرم ہے کہ وہ نہایت تعلیم یافتہ تھیں ، یعنی ہم نے بنجارہ نامہ ، مفلسی نامہ اور نظیر اکبر آبادی کی دیگر نظمیں انھیں سے سنی علاقائی زبان جو کہ ہر چندر اردو ہے اردو نہیں ہے پر ماہرانہ قدرت رکھتی تھیں چنانچہ روزانہ دوچار محاورے ،کہاوتیں اہل خانہ کو ضرور رسید کرتیں ، اب وہی محاورے اور کہاوتیں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کتاب میں ہم سے روز ٹکراتی ہیں ۔


ہم گھر  میں اکلوتے ان پڑھ تھے سو فیصلہ ہوا کہ اسے بھی پڑھایا جائے چنانچہ بیٹھک جس کو ہمارے دیار میں دروازہ بولتے ہیں وہاں مولوی ایوب صاحب کا قمچیوں سمیت قیام ہوا اور ہمارا داخلہ 
 گاؤں کےمدرسۂ اصلاحیہ میں ہوا۔جس کے ناظم تعلیمات ہمارے پھوپھی زادا مولانا عبدالعلیم صدیقی قاسمی رحمہ اللہ تھے مولانا عبد العلیم صدیقی صاحب معروف مفکر اور ادیب مولانا نور عالم خلیل امینی کے بھی استاذ رہے ہیں جس کا ذکر مولانا امینی نے نے اپنی یاداشت میں بھی کیا ہے۔۔اورجس کو ابھی نایاب حسن صاحب نے ایک شخص دلربا سا میں شائع کیا ہے۔۔مولانا عبد العلیم صدیقی صاحب کا خاکہ ہم بعدہ لکھیں گے۔۔


ہم مولوی ایوب صاحب کی شفقت اور قمچیوں کے سائے میں پلنے لگے۔
حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی صاحب ہمیں فارسی اور اردو کی تعلیم دیتے تھے۔۔یعنی یہی کہ رفت گیا اور بود تھا ۔



ہمارے کان ندوہ دیوبند علی وغیرہ کے نام سے نا آشنا تھے۔ہم ندوے سے پہلے اقبال سید سلیمان ندوی اور نسیم حجازی ، دینی تعلیم کا رسالہ اور اسماعیل میرٹھی سے متعارف ہوئے ۔۔


ہمارے دادا عبدالرزاق صدیقی صاحب دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ تھے۔اور دادا کے بڑے بھائی مولانا عبدالسبحان بھی فیض یافتگان دیوبند میں سے تھے۔۔۔البتہ ان دونوں بزرگوں نے ظلم یہ کیا کہ اپنی زمینداری کے چکروں میں الجھ کر دیوبندیت کو پس پشت ڈال دیا ۔۔


اب دیوبندیت کی حفاظت کا کام ہمارے ناتواں کندھوں پر آپڑا تھا ۔۔اور ہم نسیم حجازی کے چرنوں میں جاپڑے تھے۔۔


ہمارے دو پھوپھی زادا بھائیوں کے فرزند ندوے میں زیرِ تعلیم تھے
اور ایک چچازاد منصورہ مالیگاؤں میں غیر مقلد بننے کی کوشش میں تھے مگر بن نہ سکے۔


مسجد آتے جاتے ندوے کے طالب علم مولانا نوشاد صاحب سے ملاقات ہوئی اور ہم حیرت کی آنکھ سے انہیں دیکھتے ، خوبصورت چہرہ دبلا پتلا جسم کالی مخملی رامپوری ٹوپی۔۔۔


انھیں کی معرفت اقبال سے تعارف ہوا۔

جب انھوں نے ہمارے چچا زاد بھائی سے اقبال کے معروف وپامال شعر 

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

کا مطلب پوچھا ۔

اور فارسی کی پہلی کتاب پڑھے ہوئے ہم۔۔
ہم نے اپنے طور پر ۔ نشیمن کا مطلب نشۂ من ،یعنی میرا نشہ ترجمہ کیا۔۔
اور یوں اقبال کو دبوچ لیا۔۔


اور یہاں سے ہمارا تعارف ندوے سے ہوا
اور عشق ہی ہوگیا۔۔ندوے میں داخلے تک کافی خوار ہوئے۔۔ مگر کسی طرح ندوے پہنچ ہی گئے۔۔


ندوہ ٢٦ ستمبر ١٨٩٨ء کو قائم ہوا 
اور اس کے ٹھیک سو سال بعد ہم بغرض تعلیم ندوے میں داخل ہوئے ۔منیر کی کینٹین میں چاول کھانے ہم پہلے بھی داخل ہوتے رہے تھے ۔


یعنی ندوے کو ہم نے پورے سو سال انتظار کروایا تب جاکر ہم آئے۔۔ 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا



 تحریک ندوہ گزشتہ صدی کے مسلمانوں کی طرف سے اٹھنے والی نہایت موثر آواز تھی  مگر بوجوہ اس کا اثر بہت پھیل نہ سکا۔۔حالانکہ جو آواز ندوے نے سوا سو سال پہلے لگائی تھی وہ اب جاکر کہیں ہمارے دیوبندی بھائیوں کی سمجھ میں آسکی ہے۔۔



اب اسے ہم ندوے کے افہام وتفہیم کی کمزوری سمجھیں یا دیوبندیوں کی کوڑھ مغزی ۔۔دونوں میں سے ایک بات تو ہے۔۔ ہم دیوبندیوں کو کوڑھ مغز نہیں سمجھ سکتے سولا محالہ زبان ہوشمند ندوے کی کوتاہی ہے کہ آپ اپنی بات اپنے مخاطب کو  سواسوسال سمجھانے میں لگا دیں۔۔


یارب وہ نہ سمجھیں ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے ان کو دل اور جو نہ دے مجھ کو زباں اور 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad