تازہ ترین

جمعرات، 8 ستمبر، 2022

مولانا الہ داد چشتی ؒ کا شمار جونپور کے ممتاز علماء مشائخ میں ہو تا تھا

مولانا الہ داد چشتی ؒ کا شمار جونپور کے ممتاز علماء مشائخ میں ہو تا تھا 

جونپور (حاجی ضیاء الدین ) مشرقی یو پی کا جونپور ضلع جہاں تغلق، شرقی ، لودی اور مغلوں کی حکمرانی تھی جن کے زمانے میں علماء صلحاء نے کثرت سے جونپور کا رخ کیا تو جونپور کے حکمرانوں نے علماء و صلحاء کی خوب پذیرائی کی تھی جس سے جونپور علم وفن کا مرکز بنا جس کی تمام تر نشانیاں زمین اور تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں زمانہ سکندر لودی میںمشہور عالم و طریقہ سلسلہ چشتیہ کو حاصل کر نے والے مولانا الہ داد د اد چشتی ؒ کا شمار جونپور کے ممتاز علماء مشائخ میں ہو تا تھا۔


 آپ کی مزار شاہی عید گاہ کے عقب میں واقع ہے جہاں ہر سال عرس و دیگر تقریبات ہو تی ہیں مزار پختہ ہے مزار تک پہنچنے کے لئے راستے کا معقول انتظام ہے مزار سے متصل مسجد ہے اور لائن صاحب کی بیوی وغیرہ کی قبریں ہیں جو پختہ اور سائبان کے سائے میں ہیں مگر افسوس کی موجودہ وقت میں لائن صاحب کی بیوی کی مزار پر جواریوں کی ٹولی سجنے لگی ہے جس کو دیکھ کر دکھ ہو نا فطری بات ہے ۔ 

مولانا الہداد ؒ کی مزار پر عقیدت مند منتوں مرادوں حاجت مانگنے کے علاوہ فاتحہ پڑھنے اکثر پہنچتے ہیں۔ موئرخین لکھتے ہیں کہ مولانا ا،لہ داد چشتی ؒ بن عبدا للہ حنفی ؒ سلطان سکندر لودی کے عہد میں بڑے عالموں میں ہو تا تھا بعض مورخ عبدالملک جونپوری کا شاگرد لکھتے ہیں تو وہیں بعض قاضی شہاب الدین دولت آبادی ؒ کا شاگرد لکھتے ہیںآپ کا بھی وہاں مقام تھا جو زمانہ شرقی میں قاضی شہاب الدین دولت آبادی ؒ کا تھا اپ جونپور کے بڑے علماء و فقاء میں سے تھے مولانا عبداللہ حنفی سے علوم ظاہر حاصل کیا تھا۔

 مولانا الہداد ؒ علوم عقلی و نقلی میں اپنی مثال آپ تھے تو وہیں فقہ کے ماہر تھے نحو فقہ اصول فقہ میں وغیرہ میں نظیر تھےاکثر کتابوں کا شرح آپ نے لکھا ہے جن میں سے شرح کافیہ درنحو ، شر ح ہدایہ در فقہ ، شرح بزدری ، شرح مدارک در تفسیر وغیرہ کو بہت تحقیق کے ساتھ لکھا ہے آپ کے علم و فضل کی شہرت چہار طرف ہندوستان میں تھی عرصہ تک تمام علوم کا درس دیتے رہے۔

 آپ کے نام سے محلہ رضوی خان میں خانقاہ و مدرسہ تھا موجودہ وقت میں جس کا کوئی نام و نشان تک باقی نہ رہا تو وہیں آپ کی اولادوں کے جونپور میں ہونے کا کسی کو کوئی علم نہیں ہے آپ کا انتقال سکندر لودی کے عہد میں ۱۵۲۵ ؁میں ہو ا تھا اور آپ کی مزار محلہ تارا پو ر واقع شاہی عید گاہ کے عقبی حصہ کے نزدیک ہے مزار بلندی پر ہے جہاں تک پہنچنے کے لئے سیڑھیاں بنی ہو ئی ہیں مزار سے متصل دیگر قبریں ہیں جس میں اہل محلہ کے لوگ اپنے مرحومین کو دفن کر تے ہیں مزار پختہ ہے اور چھت تعمیر ہو ئی ہے قبر پختہ ہے جس کو لوہے کی جالی سے گھیر دیا گیا ہے۔۔


 سرہانے کی جانب ایک پتھر ہے جس میں فارسی زبان میں کتبہ کیا گیا ہے موجودہ وقت میں رنگائی کر دئے جانے سے پڑھ پانا مشکل ہے مزار پوری طرح پختہ ہے اور گیٹ لگا یا گیا ہے جس کو ڈیزائن سے مزین کیا گیا ہے ۔  ۱۷  ربیع الاول کو ہر سال عرس ہو تا ہے جس میں ہزاروں عقیدت مند حاضر ہو تے ہیں فجر کی نما زکے بعد غسل کی رسم ہو تی ہے اس کے بعد چادر پوشی ہو تی ہے عید گاہ کے جنوبی گیٹ سے انجمن و فن سپاہ گر اپنے فن کا مظاہرہ کر تے ہیں جلوس کی شکل میںلوگ مولانا الہ دادؒ کی مزار تک پہنچتے ہیں دیر شام میلاد شریف کا انعقاد ہو تا ہے ۔


اس کے بعد محفل سماع کا انعقاد ہو تا ہے بتاتے ہیں کہ موجودہ وقت میں سرفراز عالم بطور خادم خدمت انجام دے رہے ہیں مزار سے باہر صحن میں مولانا الہ دا دؒ کے دو بیٹوں کہ قبر یں بتائی جارہی ہیں مسجد سے متصل اہل محلہ مدرسہ کی تعمیر کروارہے ہیں جو نامکمل ہے اہل محلہ کا کہنا ہے کہ اہل خیر حضرات کے تعاون سے ہی ممکن ہو پائے گا کورونا سے پہلے کام شروع ہو ا تھا لیکن کو رونا وباء میں سب کچھ درہم برہم ہو چکا ہے ۔

مولانا الہ داد ؒ کی مزار سے متصل ایک دیگر مزار ہے جو حضرت لائن صاحب کی بیوی کی بتائی جا رہی ہے جس کے بغل میں دیگر قبریں پختہ ہیں اور اوپر سائبان بنے ہوئے ہیں لائن صاحب کی بیوی کی قبر پر نوجوان اکثر جوا کھیلتے ہوئے مل جاتے ہیں تو وہیں مزار کے سائبان میں ٹین شیڈ پر بستر ٹنگا رہتا ہے کچھ لوگ جہاں منتیں مرادیں مانگنے کے لئے پہنچتے ہیں تو کچھ لوگ فاتحہ پڑھنے کے لئے پہنچتے ہیں وہیں کچھ لوگ ٹولی بناکر جوا کھیلنے میں مشغول رہتے ہیں جس کو دیکھ کر دکھ ہو نا فطری بات ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad