تازہ ترین

اتوار، 11 ستمبر، 2022

نانا جان( تلمیذ رشید حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ) حضرت مولانا قمر الدین صاحب نوناری جون پوری نوراللہ مرقدہ - کچھ امتیازات و خصوصیات- کے آئینے میں

نانا جان( تلمیذ رشید حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ) حضرت مولانا قمر الدین صاحب نوناری جون پوری نوراللہ مرقدہ - کچھ امتیازات و خصوصیات- کے آئینے میں

✒️از : ام ہانی بنت محمد اطہر اعظمی
متعلمہ: مدرسۃ البنات اسماء عربک کالج، پارہ کمال جون پور


    میں نے اپنے زمانے کے نامور اصحاب اور اپنی قوم کی بڑی شخصیات کے بارے میں بہت پڑھا اور سنا؛ لیکن نانا مرحوم مولانا قمر الدین صاحب نوناری  جیسی عظیم شخصیت اور نیک سیرت و خصائل کے عظیم مرتبے پر فائز کسی کو کم ہی دیکھا، چوں کہ آپ کے اندر ان تمام صفات کے ساتھ جو کہ عموما صالحین کے اندر ہوتی ہیں چند انوکھی اور جداگانہ خصوصیات بھی تھیں جو آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔


     نانا محترم بہت حسین و جمیل تھے، رقت قلب کا عالم یہ تھا کہ دوسروں کی تکالیف دیکھ کر بےچین ہو جاتے تھے، جہاں تک اختیار ہوتا اس کو رفع کرنے کی پوری کوشش کرتے، حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے میں بہت فراخ دلی سے کام لیتے تھے، آپ کے اندر تعصب کی جھلک بھی نہیں تھی، نام و نمود چھو کر بھی نہیں تھا، طبیعت میں انصاف تھا  اور بہترین و بے مثال شاعر تھے، منٹوں میں بڑے بڑے اشعار تیار کردیتے تھے۔


     ضلع جون پور کے مشہور و معروف "مدرسۃ البنات اسماء عربک کالج" کے بانی مولانا عبد الوحید صاحب قاسمی نے آپ کو اس زمانے کے حاتم طائی سے تعبیر کیا آپ کے یہاں کوئی مہمان آتا تو بغیر کھانا کھلائے رخصت نہ کرتے، مہمان کے آنے سے وہ بہت خوش ہوتے، خاطر تواضع کرتے، اور اس کے خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتے تھے، آپ کے اندر بڑوں کی عظمت کے ساتھ ساتھ چھوٹوں سے شفقت کا بے انتہا جذبہ تھا، بچوں کے لیے ہمیشہ اپنے پاس ٹافیاں رکھے رہتے تھے ،جب کوئی جاتا اس کو ٹافیاں دیتے، ایک رات میں نانا محترم کے پاس تھی اور تھوڑی سی خدمت کی تو انہوں نے مجھے اسکے بدلے میں بہت سی دعائیں دیں ، اور ایک دعا لکھ کر دی کہ اس کو ہمیشہ پڑھتے رہو، وہ دعا یہ تھی: یا قوی القادر المقتدر قونی قلبی  , آج میں جو کچھ بھی ہوں بس انہیں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔


     آپ کا حسن اخلاق اعلیٰ درجے کا تھا ،تمام لوگ آپ کے گفتگو اور آپ کے نمایاں کردار سے بے حد متاثر تھے، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے ہم نانا محترم کے پاس بیٹھے تھے تو اچانک جانے کو کہا، ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ ایسے کیوں کہا، فورا ہم لوگ بغیر چوں چرا  کے اُدھر سے چلے گئے، بعد میں معلوم ہوا کہ ایک نابینا غیر مسلم ہے جو پورے دین ادھر اُدھر رہتا ہے، جب کھانے کا وقت ہوتا ہے تو اپنے وقت سے نانا محترم کے پاس آ جاتا، نانا اسے اپنے سامنے بٹھا کر کھانا کھلاتے، وہ کھا کر کافی دیر تک نا نا سے بات کرتا اور کچھ پیسے لے کر چلا جاتا، ہمیں بے حد تعجب ہوا کہ حسن اخلاق کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔ 


   خاکساری اور فروتنی فطری تھی ،چھوٹے بڑے سب اُن کے حسن اخلاق کے مداح تھے ،انکا رتبہ بڑا تھا مگر انہوں نے کبھی بھی خود کو بڑا نہیں سمجھا ،بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرتے تھے ،اسلامی شریعت کا اُن کے اندر بہت پاس و لحاظ تھا ، حرام مکروہ دور کی بات کوئی خلاف اولی کام دیکھتے تو آپ کے غصے کی انتہا نہ رہتی، ایک مرتبہ نانا کے یہاں ہم لوگ گئے ہوئے تھے، ہمارے آنے سے تو آپ حددرجہ مسرور ہوے، کچھ دیر کے بعد ہم میں سے کسی کو دیکھا کہ دوپٹہ سر سے نیچے تھا تو اتنی شدت سے ڈانٹا کہ ہم لوگ سہم گئے بعد میں غصّہ ختم ہونے کے بعد شفقت بھرے انداز میں سمجھایا۔


     آپ اپنے ماتحتوں کا بہت خیال رکھتے تھے، گھر کا نظام چلانے کا الگ ہی انداز تھا، آپ کے عمال آپ سے بہت خوش رہتے تھے ہر کام خوشی خوشی کرتے، خود حددرجہ محنتی تھے، آپ کو زراعت سے بے حد دل چسپی تھی، جانوروں کو پالنے کا بہت شوق تھا، ہم نے دیکھا کہ آپ نے اپنے جانوروں (بھیسوں )کے لیے اُنکے مربض میں پنکھے بلب اس کے علاوہ ہر قسم کی سہولیات فراہم کر رکھی تھیں۔

   آپ بہت صابر و شاکر اور صفائی پسند تھے ،مرض وفات میں جب کہ آپ اپنی ضروریات کو خود پوری کرنی کی استطاعت نہیں رکھتے تھے پھر بھی  بستر پر بول و براز کرنے سے گریز کرتے تھے حد درجہ منع کرنے کے بعد بھی بیت الخلاء میں لے جانے کے لیے اصرار کرتے، اور اس لاغری کی حالت میں بھی جب کہ حرکت کرنا بھی دشوار کن تھا صفائی کا پورا اہتمام کرواتے جیسے پہلے رہا کرتے تھے، آپ نے اتنی تکالیف کے باوجود بھی اللہ سے کبھی شکایت نہیں کی اور صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔


   آپ ایک مثالی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، ہمیں اس بات پر ناز ہے کہ آپ ہمارے پر  نانا تھے، ہم نے آپ کی زندگی سے اور آپ کی دعاؤں سے بہت کچھ حاصل کیا ہے؛ الغرض آج ہم جو کچھ بھی ہے صرف آپ کی دعاؤں کہ نتیجہ ہے        
    جان کر منجملہ خاصان میخانہ تجھے         
    مدتوں رویا کرینگے جام و پیمانہ تجھے


     بالآخر آپ تقریبا ۹۰سال کی عمر پاکر ۱۱محرم ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۰/اگست ۲۰۲۲ء کو ہم تمام لوگوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے، علم و فضل کا دیا آج گل ہو گیا۔
 
 آپ کے جانے سے اہلِ ارض مغموم ہوے۔
  ہائے رشک!!!
  آپ کے جانے سے اہلِ سماں مسرور ہوے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad