تازہ ترین

ہفتہ، 10 ستمبر، 2022

گہوارہ اردو میں سسکتی ہوئی اردو زبان : تحریر مسعودجاوید

گہوارہ اردو میں سسکتی ہوئی اردو زبان
تحریر: مسعودجاوید :اترپردیش کے سبھی ہسپتالوں پر ان کے نام اردو میں لکھا جائے گا ۔۔۔ ایک خبر ۔
کیا اردو پڑھنے والوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے ! سرکاری دفاتر پر لکھے گئے اردو نام پڑھے گا کون ؟ 

آزادی کے بعد برسہا برس تک اتر پردیش میں کانگریس کی حکومت رہی لیکن اردو کو دوسری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا جبکہ یہ اس زبان کا دستوری حق تھا ۔ 
اردو زبان وادب کا گہوارہ اترپردیش میں اُردو زبان ہندو مسلم منافرت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ 


 مسلم صدر جمہوریہ سے لے کر نامی گرامی مسلم مرکزی وزراء اور کانگریس کے دست و بازو جو پارٹی اور دہلی میں اقتدار کی گلیاروں کو رونق بخشتے رہے کبھی بھی اردو کو اس کا دستوری حق دلانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
 
مسلم ممبران اسمبلی کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ اترپردیش ودھان سبھا کے شوکیس میں مسلم چہرے رہے لیکن افسوس کسی نے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کی سنجیدہ لڑائی نہیں لڑی۔ مسلمانوں نے بھی اردو کو اس کا حق دلانے کے لیے قابلِ ذکر جدوجہد نہیں کی۔  


گہوارہ اردو اترپردیش سے کہیں زیادہ اردو زبان کو فروغ مہاراشٹر اور کرناٹک میں ہو رہا ہے۔ 

اترپردیش میں اردو سرکاری زبان نہیں بنائے جانے کا نقصان یہ ہوا کہ اگر اردو کو مسلمانوں کی زبان تسلیم بھی کر لیں تو مسلمانوں کی تقریباً ٩٠ فیصد بالخصوص نئی نسل اردو سے اس قدر نابلد ہے کہ وہ اردو رسم الخط میں لکھنا اور  پڑھنا بھی نہیں جانتے ۔ اس لئے کہ اسکولوں میں اردو زبان پڑھانے کا نظم نہیں ہے، اردو معلم نہیں اور اردو میں نصابی کتابیں نہیں ہیں ۔ اپنے بچوں کو اردو پڑھانے کے لئے گھر پر اتالیق رکھنے میں شاید ہی کسی کو دلچسپی یا اخراجات کا کوئی متحمل ہو۔ 


تعلیم کا معیار روزگار ہے۔ اردو زبان کے لئے کہیں آسامیاں نہیں ہوتیں تو کیوں کوئی اسکول اور اس کے بعد کالج اور یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب پڑھے ! 

اردو زبان پڑھنے کا رواج بتدریج ختم ہوتا گیا اور آج حال یہ ہے مسلمانوں کی اکثریت اردو نہیں ہندی اخبارات پڑھتے ہیں ۔ 


حکومت مسلمانوں کو مشاعروں سے بہلاتی رہی کہ وہ اس کی خیرخواہ ہے اور اس کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے لیکن اسکولوں سے اردو کو ختم کر کے دراصل اردو کی جڑ کاٹ دی گئی ہے۔ 


آج بھی اردو زبان کے لئے اگر سنجیدہ کوشش کی جائے حکومتوں کے ان کے وعدے دلائے جائیں اور دستوری حقوق کے لیے سنجیدہ پرامن جدوجہد کی جاۓ،  الیکشن کے منشور میں درج کرایا جائے تو اردو کو اس کا حق پورا نہیں ادھورا ہی سہی مل سکتا ہے۔ 

اردو حقیقی معنوں میں دوسری سرکاری زبان بن جائے گی تو اردو معلمین کے لئے آسامیاں نکلیں گی ہر محکمے میں اردو مترجم اور اردو کمپیوٹر آپریٹر کی ملازمت ملے گی۔ 

اردو زبان میں ہمارا دینی اور قومی اثاثہ ہے اس کے تحفظ کے لئے بھی ضروری ہے کہ اسکولوں میں ہمارے بچوں کو  ان کی مادری زبان اردو پڑھانے کا نظم ہو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad