تازہ ترین

اتوار، 21 اگست، 2022

ہماری بے بسی کی ماں ہماری سیاسی بے وقعتی ہے

ہماری بے بسی کی ماں ہماری سیاسی بے وقعتی ہے

تحریر: مسعودجاوید ؛ہم مسلمانان ہند سنگ و خشت نہیں ہیں ہم بھی گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان ہیں اسی لئے ملک میں ہونے والے واقعات اور حادثات ، حکومت کے قوانین اور قوانین کو نظر انداز کرنے کی اچھی بری روش ہم پر بھی اثرانداز ہوتی ہے ۔
ہم پر اداسیوں اور مایوسیوں کا خیمہ زن ہونا اسی کا غماز ہے ۔ 


 ہم کیوں اتنے سہمے ہوئے ہیں ؟ 
کیا واقعی حالات دن بدن سنگین ہوتے جا رہے ہیں؟ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک تو ماقبل ٢٠١٤ بھی ہوتا تھا تو اب اس قدر واویلا کیوں ؟ 
کیا مظلومیت کا رونا رونا تناسب سے زیادہ آؤٹ آف پروپورشن ہے؟ 


کیا اس کا مقصد موجودہ حکومت کو بدنام کرنا یا ہمارا راہ فرار اختیار کرنا ہوتا ہے  ؟ 
کیا واقعی روز بروز ہمارے اندر بے بسی کا احساس بڑھتا جا  رہا ہے؟ 


ہاں بہت حد تک آج ہمیں اپنی بے بسی کا احساس ہو رہا ہے اس لئے کہ ظلم و زیادتی ، فرقہ وارانہ فسادات ، یکطرفہ کارروائی یا توازن قائم کرنے کے لئے یا اکثریتی فرقہ کو خوش کرنے کے لئے  مسلمانوں کی گرفتاریاں ، ایف آئی آر، مقدمات اور سلاخوں کے پیچھے بھیجنا کانگریس اور دیگر غیر بی جے پی دور حکومت میں بھی ہوتا رہا ہے لیکن ان ادوار میں اس قدر بے بسی کا احساس اس لئے نہیں ہوتا تھا کہ ان دنوں فرقہ وارانہ فسادات دو مذہبی فرقوں میں نہیں ایک خاندان کے دو گروہوں کی مانند ہوتے تھے ۔۔۔۔ معمولی باتوں پر ، گاڑی کے ٹکر، دکان کے سامنے گاڑی لگانے، پیسوں کا لین دین ، 


باقی بقایا کی وصولی یا چھیڑ چھاڑ کے واقعات، مسجد یا مندر کے سامنے سے جلوس کے گزرنے وغیرہ پر دو لوگوں کے مسئلے کو دو فرقوں کا مسئلہ بنانے کی وجہ سے ہوتے تھے ۔ دونوں فرقے کے لوگ انتظامیہ کے ساتھ پیس کمیٹی میں بیٹھ کر معاملہ رفع دفع کرا لیتے تھے۔ دو چار دنوں کی تلخی کی بعد پھر وہی پڑوسی وہی دکاندار وہی خریدار آپس میں شیر شکر ہو جاتے تھے۔

اب کی نوعیت مختلف ہی نہیں سنگین بھی ہے وہ اس لئے کہ اب مذہب کا عینک لگا کر ہر سماجی مسئلے کو دیکھا اور سنا جاتا ہے۔  اب چھوٹی موٹی جھڑپ کو بھی ہندو مسلم کا رنگ دیا جاتا ہے۔ 


ہندوستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی بار دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہا ہے کہ کسی کی موت پر کوئی خوشی منائے ۔۔۔ مٹھائی کھائے اور کھلائے ! 


شاید یہ بھی پہلی بار پڑھنے اور سننے کو مل رہا ہے کہ مجرموں کو پھولوں کے ہار پہنائے جا رہے ہیں! 
 بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر‌ مسلم خاتون نہیں بھی ہوتی تو بھی گجرات درندگی کے مجرمین کو یوم آزادی پر آزاد کر دیا جاتا اس لئے کہ وہ سب برہمن ہیں اور برہمن " پیدائشی سنسکاری اعلیٰ اخلاقی عادات و اقدار کے حامل ہوتے ہیں ! 

ایسی باتیں دنیا میں ایک ہی ملک صہیونی ریاست میں کہی جاتی ہے اس کا دعویٰ ہے کہ اس کی قوم  شعب مختار ہیں دنیا بھر کی قومیتوں میں اللہ کی سب سے پسندیدہ چنندہ قوم ہے ۔


اللہ کا شکر و احسان ہے ہمارے مذہب میں بدترین دشمن کی موت پر بھی خوشی منانا اور اسے  برے الفاظ سے یاد کرنا منع ہے۔  


خواتین کے تحفظ کے لئے ملکی اور بین الاقوامی ایجنسیاں ہیں اور خواتین کو بااختیار بنانے کا عہد اس حکومت نے بھی کیا ہے اس کے باوجود قتل اور ریپ جیسے گھناؤنے جرائم کے مرتکب مجرموں کو یوم آزادی پر آزاد کرنے کے خلاف اپوزیشن اور الیکٹرانک میڈیا کی طرف آواز نہیں اٹھانا ہمیں بے بسی اور سیاسی بے وقعتی کا احساس دلاتا ہے۔  
ماقبل ٢٠١٤ سول سوسائٹی آواز بلند کرتی تھی اخباری بیانات جاری کرتی تھی چینلز پر ٹاک شو میں ایسے موضوعات پر بات کرتی تھی رائے عامہ بنانے والے اخبارات میں آرٹیکل شائع کراتی تھی جس کی وجہ سے  اقلیتوں کو آج کی طرح یتیمیت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔‌۔ 

 اقلیتوں کو محسوس ہوتا تھا کہ غیر مسلموں کی بہت بڑی تعداد حق اور انصاف کی لڑائی میں ان کے ساتھ ہے۔  اکثریتی فرقہ کے تمام انصاف پسند سیکولر لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اب تو نامی گرامی شخصیات بھی ٹرولنگ کے ڈر سے چپ رہنے میں امان سمجھتے ہیں ۔ 


آج ہر شہر میں مختلف مذاہب کے مانند لوگوں سماجی کارکنوں پر مشتمل سول سوسائٹی اور سیٹیزن فورم کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے ۔ آج مختلف فرقوں کے درمیان اعتماد کی بحالی کی سخت ضرورت ہے۔ 


#مذہب کی صحیح تشریح اور اس کا صحیح استعمال کسی بھی فرد میں #زہر نہیں بھرتا ہے۔ سیکولرازم #مذہب #دشمن نہیں ہے۔ سیکولرازم مذاہب دوست ہے وہ اس طرح کہ یہ رواداری سکھاتا ہے۔ یہ ہر ایک اپنی اپنی پسند کے مذہب کی اتباع کرنے اور دوسرے مذاہب والوں کے عقائد ، رسومات اور شعائر کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ہمارے دستور ہند میں اسی فرد کی آزادی کا مکمل حق دیا گیا ۔۔۔


تاہم مسلمانوں میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں مولوی اور غیر مولوی دیوبندی ،بریلوی، سلفی اور اسلامی جنہیں سیکولرازم اور آئین سے الرجی ہے۔

 
یہ گرچہ عشر عشیر بھی نہیں ہیں مگر سوشل میڈیا پر ان کی حماقتوں یا جہالتوں کی وجہ سے فرقہ پرست عناصر کو مدعا بنانے کا موقع مل جاتا ہے کہ قرآن پر عمل کریں گے یا دستور پر ! قانون کی برتری رہے گی یا پرسنل لاء کی ؟  حکومتی عدالتوں کے ہوتے ہوئے شریعہ کورٹ کیوں ؟ 

ان سب سوالوں کا معقول اور مسکت جواب ہمارے یہاں حوالے کے ساتھ موجود ہیں۔ مگر ۔۔۔۔۔افسوس ہمارے مولوی اور غیر مولوی اور  برادر کے پاس مسکت جواب نہیں ہوتا ہے اس لئے کہ وہ پڑھتے نہیں ہیں۔ 

دوسری بات یہ کہ ہر وقت مسلمان مسلمان کرتے رہنا ہمیں حاشیہ پر دھکیل رہا ہے بالفاظ دیگر خود ساختہ سوشل بائیکاٹ ، عزلت ghetto کا باعث بن رہا ہے۔  ہمیں بھی اس ملک کا ذمہ دار شہری بن کر ملک کی تعمیر و ترقی اور بلا تفریق مذہب و جاتیہ ہر ایک کے حقوق کے لیے کھڑا ہونا چاہیے ۔ 


 لیکن "حق اکیلے نہیں آتا وہ ہمیشہ اپنی جڑواں بہن" ذمہ داری کے ساتھ آتا ہے۔ 
ہم لوگ اپنے حقوق کو یاد رکھتے ہیں ذمہ داریوں کو نہیں!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad