تازہ ترین

پیر، 29 اگست، 2022

مذہبی رواداری کے بغیر امن و سکون ممکن نہیں ہے

مذہبی رواداری کے بغیر امن و سکون ممکن نہیں ہے

تحریر: مسعودجاوید 

میں نہیں چاہتا کہ ہندو - مسلم منافرت کو ہوا دینے والے شوشوں  پر کچھ لکھوں اس لئے کہ اس سے شرانگیز عناصر کا ہدف پورا ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ موضوعات ہر زبان پر ہو اور  talk of the town بنیں۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔ "درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو لکھ دیتا ہوں"۔


اگر سماج میں مذہبی رواداری کا فقدان ہوگا تو ہر چھوٹی بڑی بات کو تعصب کے عینک سے دیکھا جائے گا۔ اور بہت ممکن ہے کوئی نہ کوئی قانونی پہلو بھی نکل آئے گا اور تصادم کی راہ ہموار ہو جائے گی۔  


کیا  ہنومان چالیسہ پڑھے جانے ، گھنٹہ بجائے جانے یا کیرتن اور آرتی سے کسی مسلمان کا مذہبی جذبات مجروح ہوتا ہے ؟ ظاہر ہے نہیں۔ 


١- اس لئے کہ ہر  مسلمان جانتا ہے کہ یہ سب ہندو برادران وطن کا مذہبی شعائر ہیں اور ان کے عقیدے سے جڑے ہوئے رسومات ہیں۔ ہمیں ان کے عقائد رسومات اور جذبات کا احترام کرنا چاہیۓ۔


٢- اس لئے کہ  ہمارا دین کہتا ہے کہ غیراللہ کو ماننے والوں کو ان کے عقیدے پر چھوڑ دو اور تم اپنے عقیدے پر عمل کرو۔


٣-  اس لئے کہ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ان کے دیوی دیوتاؤں کی ہم توہین نہ کریں ۔ 
٤- اس لئے کہ ہمارے نبی رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو ناپاک نہ کرو اور کسی قسم کا نقصان نہ پہنچاؤ حتیٰ کہ جنگ کے ایام میں بھی۔ 


٥- اس لئے کہ ہمارے نبی رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ غیر مسلموں کے دھرم گروؤں، بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں پر ہاتھ مت اٹھاؤ حتیٰ کہ جنگ کے ایام میں بھی الا یہ کہ وہ دھرم گرو تمہارے خلاف ہتھیار اٹھائیں۔ 

٦- اس لئے کہ ہم اس وطن عزیز کے شہری ہیں اور اس ملک کے دستور کو ہم سب نے اپنی رضامندی سے اپنے اوپر نافذ کیا ہے۔ اس دستور کے مطابق یہ ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے اور سیکولرازم کا تقاضہ ہے کہ ہم میں سے ہر شہری اپنی پسند کے مذہب کی پورا یا ادھورا اتباع کرے یا کسی بھی مذہب کی اتباع نہ کرے ۔ اس دستور کا تقاضہ ہے کہ ہم دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے عقائد اور مذہبی رسومات اور کلچر کا احترام کریں۔  

-+-- تو پھر اذان اور نماز سے برادران وطن کے بعض عناصر کے جذبات کس طرح مجروح ہو رہے ہیں ؟ 

اس ملک کے ہر فرد میں تحمل اور برداشت کا مادہ فطری طور پر موجود ہے۔ جب تک سیاسی مفادات کے تحت اسے مشتعل نہ کیا جائے یہاں کے لوگ شیر و شکر کی طرح رہتے ہیں اور بقائے باہم میں یقین رکھتے ہیں ۔  
 
***** برسہا برس سے مندر، مسجد، گرودوارہ اور چرچ میں عبادت کے لئے جانے والے جاتے ہیں کبھی کسی کی پیشانی پر شکن تک نہیں آتا ہے۔  اب ایسا کیا ہو گیا کہ فرقہ وارانہ منافرت اور حساسیت اس قدر دل و دماغ میں گھر کر چکی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہونے لگے ہیں ۔ 


ہمارے اس ملک عزیز کی خوبصورتی فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں مضمر ہے ۔ مذہبی رواداری اور کثرت میں وحدت اس کی نشان امتیاز ہے ۔ اس کی بقاء ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ 


 لیکن عربی کا ایک مقولہ ہے :  " الناس علی دین ملوکہم "۔ یعنی عوام اپنے حکمرانوں کی تقلید کرتے ہیں  ۔  ہمارے ملک کے وزیراعظم صاحب کی باتوں کا عوام پر کس قدر اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ایک آواز پر کروڑوں لوگوں نے تالی اور تھالی بجائی، چراغ، دیا اور ٹارچ جلایا۔ 


 میرا دل کہتا ہے کہ اگر وزیر اعظم ایک بار صرف اتنا کہہ دیں کہ اب بس کرو ہندو مسلم تفرقہ بازی ۔ کوئی کسی فرد کو ، کسی کے کلچر کو ، کسی کے مذہب کو نشانہ نہ بنائے۔ میڈیا مذہبی منافرت کو ہوا دینا بند کرے اور ہر شہری دوسرے کے جذبات عقائد اور رسومات کا احترام کرے تو ماحول میں زبردست تبدیلی آ جائے گی۔ ۔ ان کی اتنی سی بات بہت زیادہ اثرانگیز ہوگی۔  

ہمیں خیر کی امید رکھنی چاہیے ۔ فرد ہو یا قوم، ہر ایک کے لئے ناامیدی مہلک ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad