تازہ ترین

جمعرات، 18 اگست، 2022

ابن عربی رح کے بارے میں مجدد الف ثانی رح کا موقف بحوالہ مولانا علی میاں ندوی رح

ابن عربی رح کے بارے میں مجدد الف ثانی رح کا موقف بحوالہ مولانا علی میاں ندوی رح
عمران صدیقی ندوی

کچھ دونوں سے سوشل میڈیا پر ابن عربی اور ان کے فلسفے وحد الوجود کو لے کر بہت کچھ لکھا گیا، کچھ لوگوں حمایت میں لکھ رہے ہیں تو کچھ لوگ مخالفت میں، جو لوگ ان کے رد میں لکھ رہے ہیں وہ لکھتے ہوئے اتنے آگے چلے جاتے ہیں کے پوری تصوف کی تاریخ جو دعوت و عزیمت کی گواہی دیتی ہے، کا انکار کر دیتے  بلکہ اس پوری تاریخ کو غلط ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں


 اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ابن عربی کے فلسفے کی حمایت میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں مانو ابن عربی تصوف کے واحد امام ہیں اور باقی سارے صوفیاء ان کے مقلد ہیں جبکہ ہر دور میں ابن عربی کے فلسفے کو رد کرنے والوں میں وہ لوگ ہی آگے رہیں ہیں جن کا تعلق تصوف سے رہا ہے بلکہ وہ اپنے دور میں تصوف کے امام ماننے گئے ہیں 


تصوف کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے کو یہ بات بہت آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ صوفیاء کی دو قسمیں رہی ہے ایک وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو معاشرے سے کاٹے رکھا، اپنے آپ کو چار دیواری میں قید رکھا، اپنے میں ہی مست رہے، ایسے لوگوں کی اکثریت نے ہمیشہ اس طرح کے فلسفیانہ باتوں کی تائید کی بلکہ اس کی تبلیغی بھی کی لیکن تصوف میں ایک بڑا گروہ ہر دور میں موجود رہا 
جس نے اپنے آپ کو معاشرے سے جوڑے رکھا، معاشرے کی اصلاح کی فکر کی، اسی کو سامنے رکھتے ہوئے افراد سازی کا کام کیا اور اپنے دور میں بڑے بڑے اصلاحی و انقلابی کام کیا، ایسے صوفیاء نے ہمیشہ اس طرح فلسفیانہ باتوں کا رد کیا اور کتاب و سنت کو ہی اپنی دعوت کا اصل محور و مرکز بنایا

ہم یہاں حضرت مولانا علی میاں ندوی رح ایک ملفوظ نقل کر رہے ہیں جس میں انہوں نے مجدد الف ثانی رح کے حوالے دے کر اسی بات کو واضح کیا ہے، مجدد الف ثانی رح نے جس دو ٹوک انداز میں ابن عربی رح کی بات کو رد کیا ہے، اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ صوفیاء نے ہر دور میں اس طرح کی فلسفیانہ باتوں کو شدت سے رد کیا ہے

---------------------------------------

مدینہ منورہ میں تصوف کی حقیقت پر تقریر

ہمارے یہاں سے جو طلبہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں پڑھنے کے لیے جاتے تھے، ان کو وہاں صوفی اور حنفی کہہ کر پریشان کیا جاتا تھا۔ ہم جب گئے (مارچ 1963) تو انھوں نے ہم سے شکایت کی، ہم نے کہا آپ شیخ الجامعہ کے پاس جائیے (اس وقت شیخ الجامعہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز تھے) اور کہیے کہ ہمارے فلاں استاد آئے ہیں، ہم ان کی تقریر سننا چاہتے ہیں۔ آپ اجازت دیں، شیخ نے کہا:

 ہم خود جامعہ کی طرف سے اس کا انتظام کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے انتظام کیا، سارے طلبہ اور اساتذہ نے بھی شرکت کی، ہم نے اسی موضوع پر تقریر کی۔ ہم نے کہا: تصوف
 ہندوستان کے مزاج کے مطابق تھا۔ یہاں پہلے سے جو جوگ چلا آرہا تھا۔ اس کے مقابلے کے لیے اسلامی تصوف بہت ضروری تھا۔ پھر ہم نے بیان کیا کہ حقیقی تصوف کیا ہے اور صوفیہ کیسے ہوتے تھے؟

حضرت مجدد الف ثانی کی حمیت دینی اور اتباع شریعت

ہم نے مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کا ذکر کیا، ہم نے ذکر کیا کہ مجدد صاحب نے کس طرح فتنہ ¿ اکبری کا مقابلہ کیا۔ ہم نے ان کی وہ تاریخی عبارت بھی سنائی جس سے ان کی ایمانی قوت اور دینی حمیت پر پوری روشنی پڑتی ہے۔ شیخ عبدالکبیر یمنی(وفات: 869)کوئی بزرگ گزرے ہیں، ان کی کوئی بات مجدد صاحب کو خلاف شریعت معلوم ہوئی تو ایک خط میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:


“مخدوما! بندہ را تاب استماعِ این چنین کلام نیست، رگ فاروقیم بے اختیار در حرکت می آید، شیخ عبدالکبیر یمنی باشد یا محی الدین ابن عربی، ما را محمد عربی درکار اس نہ ابن عربی، ما را نصوص باید نہ فصوص، فتوحات مدنیہ از فتوحات مکیہ مستغنی کردہ است۔”


(مخدوما! بندے کو اس طرح کی باتیں سننے کی تاب نہیں، بے اختیار میری فاروقی رگ حرکت میں آجاتی ہے (حضرت مجدد صاحب حضرت عمر فاروق کی نسل سے تھے)، شیخ عبدالکبیر یمنی ہوں یا شیخ محی الدین ابن عربی، ہمیں محمد عربی سے مطلب ہے نہ کہ ابن عربی سے، ہمیں نص سے کام ہے (قرآن و حدیث سے) نہ کہ ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم سے، فتوحات مدنیہ (احادیث نبویہ) نے فتوحات مکیہ (ابن عربی کی کتاب) سے ہمیں مستغنی کردیاہے۔)


تقریر جب ہورہی تھی تو شیخ عبدالعزیز بن باز بے قابو ہوئے جاتے تھے اور باربار اللہ اللہ اکبر کہتے تھے، یہ تقریر ریکارڈ تھی، ان کے اللہ اکبر اللہ اکبر کہنے کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔


مجالس حسنہ ، مجلس ۴۴
از حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمه‌الله

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad