تازہ ترین

ہفتہ، 20 اگست، 2022

مستقبل کا منظر نامہ اور ہماری ذمہ داری

مستقبل کا منظر نامہ اور ہماری ذمہ داری  

 ✍ڈاکٹر محمد طارق ایوبی  یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ کو بے اثر کرنے میں بی جے پی پوری طرح کامیاب ہو چکی ہے، ملک کی بدترین معیشت اور آسمان چھوتی مہنگائی کے باوجود ہندوؤں کا اتنا ووٹ حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہے جس سے اسکو بھاری اکثریت حاصل ہو جائے، آئندہ کے عزائم کیا ہیں وہ حال کی کار کردگی سے ظاہر ہیں، ایجینسیز اس کے تابع ہیں، ملک کے تمام جمہوری ادارے بھاجپا کے لیے کام کر رہے ہیں، 


الیکٹرانک میڈیا پورے طور پر حکومت کی ترجمانی کر رہا ہے، ای وی ایم پر شک کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اس کا کھیل ہوتا بھی ہے تو اس پر اس لیے شک نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بی جے پی نے اپنی فتح اور حصولِ اقتدار کے لیے تمام معاون وسائل پر تسلط حاصل کر لیا ہے، یہ بات بھی اب لوگ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اس وقت ملک کے سیاسی فیصلوں کی کمان پورے طور پر آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے، 


اپوزیشن کی کمر تقریباً ٹوٹ چکی ہے، کوئی نظریاتی طور پر غلام بن چکا ہے، کوئی سودا کر چکا ہے، کسی کو فائلیں کھلنے کے خوف نے خاموش کر رکھا ہے، اور اب تو بہت سے وہ چہرے سامنے آ گئے ہیں جو فکری طور پر پہلے سے ہی آر ایس ایس سے وابستہ تھے لیکن چہروں پر نقاب پڑی ہوئی تھی جس سے وہ مکروہ چہرے رخِ زیبا سمجھے جاتے تھے، نقاب رخ الٹ دی گئی تو ان کی بد صورتوں سے الٹیاں آنے لگیں، ان سب وجوہات کے سبب اپوزیشن کا متحد نہ ہو پانا فطری ہے۔


 یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جو قوم اپنی ترجیحات نہیں طے کرتی اس کا منزل مقصود تک پہنچنا دور! وہ کامیابی کے ساتھ سفر بھی نہیں کر پاتی، جو قوم عارضی و دائمی فیصلوں، اصولی مواقف اور عارضی تعامل میں تمیز نہیں کر پاتی اس کے لیے سماج میں عزت کا مقام حاصل کر پانا تقریباً ناممکن ہے، جو قوم اپنے مفادات کے تئیں خود سنجیدہ نہیں ہوتی، 


جو الزام تراشیوں، شکوہ و شکایات، عشوہ طرازیوں اور ردّعمل کو اپنا شعار بنا لیتی ہے، ہمہ وقت ہر چھوٹی بڑی بات پر بحث ومباحثہ کرتی رہتی ہے اس کا بے وزن ہو جانا یقینی اور فطری ہے، سوشل میڈیا کے دور میں یہ سب سمجھ چکے ہیں کہ صورتحال مزید خطرناک ہوچکی ہے، ایک طرف ہماری غفلت، تجاہل، نااہلی، ناعاقبت اندیشی، بے فکری یا فکری انتشار ہے، دوسری طرف ہمیں بے وزن کرنے کی ہمہ وقت اور مسلسل و منصوبہ بند کوششیں ہیں، اگر سیاسی طور پر اب بھی اپنی بے وزنی ہم پر منکشف نہ ہو پائی ہے اور ہمارے رویّوں میں تبدیلی نہیں آئی تو یہ مزید خطرے کی گھنٹی ہے۔


 یہ بھی اچھی طرح واضح ہو چکا ہے کہ کوئی ایک ہی پارٹی آر ایس ایس کے ایجنڈے کی علمبردار نہیں، بھاجپا کے ساتھ دوسری پارٹیاں بھی آر ایس ایس کا ایجنڈہ رکھتی ہیں، اور اگر پارٹی کی سطح پر آر ایس ایس کا ایجنڈہ نا بھی قابل قبول ہو تو بھی ہر پارٹی میں ایسے طاقتورلیڈران ہیں جو آر ایس ایس کے ایجنڈے کو اٹھائے پھرتے ہیں، اس پورے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اس وقت مسلم قوم کو بہت خاموش سیاست کی ضرورت ہے، 

نظریاتی سیاست سے متعلق گفتگو اور چینلزپر ڈبیٹ اس وقت فضول ہے، ہمارا رویّہ اس وقت یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے حلقوں میں خاموشی کے ساتھ نظریاتی شعور بیدار کرنے کی کوشش کریں، علاقائی جماعتوں سے رشتے استوار کریں اور عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ اپنی ساری طاقت اس پر خرچ کریں کہ اپوزیشن متحد ہو کرآئندہ کا عام الیکشن لڑے۔


 بہار میں جو کچھ ہوا اس کے اسباب کے تجزیہ کا یہ موقع نہیں لیکن بہرحال اسمیں ملک بھر کے لیے بہت واضح، مثبت اور خوشی آئند پیغام ہے، لیکن زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ بہار میں تبدیلی حکومت کے ساتھ ہی گودی میڈیا اپنی ڈیوٹی پر لگ چکا ہے، انڈیا ٹو ڈے جسکی آرایس ایس نوازی مشہور زمانہ ہے، اس جینل پر سدھیر چودھری جیسے بدنام زمانہ نیوز اینکر کا پروگرام Mood of Nation   یعنی’’ملک کا رجحان‘‘ کے عنوان سے چل رہا تھا، جس میں وہ یہ تأثر دے رہا تھا کہ تمام تر بدحالیوں کے باوجود آج بھی ملک کے ۴۳؍ فیصد عوام مودی کو بہت اچھا وزیر اعظم مانتے ہیں، ۲۳؍ فیصد اچھا مانتے ہیں، صرف۱۱؍ فیصد ہی خراب کہتے ہیں، اس نے اپنے فرضی سروے سے لوگوں پر یہ واضح کر دیا کہ۲۰۲۴ میں بی جے پی کی حکومت بن سکتی ہے، یہ محنت میڈیا اس لیے کر رہا ہے


 کیونکہ آرایس ایس اور بھجپا کو معلوم ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری اور گرتی معیشت اس کا کھیل خراب کر سکتی ہے ، اس کے سروے کا دوسرا حصہ دیکھنے سے یہ بات صاف ہو گئی کہ جس پروگرام کو وہ Mood of Nation  ملکی رجحان کا نام دے رہا ہے وہ دراصل آر ایس ایس کا رجحان ہے، یعنی  Mood of RSS  ہے، کیونکہ میڈیا نے ابھی سے پرانا کھیل دوہرانا شروع کر دیا ہے کہ ’’ مودی کے بالمقابل ‘‘ پی ایم کا چہرہ کون؟ جواب میں عوام کی پہلی پسند کے طور پر اروند کیجریوال کو پیش کیا گیا ہے،


 دوسرا چہرہ ممتا بنرجی کا ہے، راہل گاندھی کو صرف ۱۱؍ فیصد عوام نے پسند کیا ہے جبکہ اس سے زیادہ تعداد میں آج بھی کانگریس کے ممبران پائے جاتے ہیں، مراٹھی لیڈر شردپوار کو صرف ۳؍ فیصد لوگوں نے پسند کیا ، جو لوگ مہاراشٹر کی مراٹھی سیاست سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ صریح جھوٹ ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اپوزیشن میں راہل گاندھی ایک مضبوط آواز اور صریح موقف ( Clear Stand and Vision)  رکھنے والے لیڈرکے طور پر ابھرا ہے، اسے منصوبہ بند طور پر کمزور و کمتر ثابت کرنے کے لیے مہم چلائی گئی ، 


اس مہم میں خارجی عناصر اور مد مقابل کے علاوہ خود کانگریس کے لوگ بھی شامل رہے، غلام نبی آزاد اینڈ کمپنی یعنی کانگریس کے تمام مسلم چہرے اور کچھ  بڑے ہندو لیڈران بھی اس میں شامل رہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ راہل گاندھی آر ایس ایس کے نظریاتی حریف کے طور پر سامنے آیا ہے، اس کو کمتر ثابت کرنا اور کمزور  Degrade  کرنا سب سے بڑی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے کانگریس کا صدر نہیں بننے دیا گیا، 


جب بنا تو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا، کیونکہ مابعد آزادی وہ کانگریس کا واحد ایسا صدر تھا جس کا ہندتوا اور آرایس ایس کے تئیں نظریہ بالکل واضح ہے، جسے وہ کھل کر پیش کرتا ہے،۵؍اگست کی پریس کانفرنس میں اس نے جو کچھ کہہ دیا وہ آج کے ماحول میں کسی اپوزیشن لیڈر کے بس کی بات نہیں، ان بیانات اور تفصیلات کو یہاں نقل کرنے کا موقع نہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ کانگریس داخلی طور پر متحد نہیں ہے،



 آر ایس ایس سے وابستہ خیمہ خواہ اسکی وابستگی مجبوری میں ہو یا فکری طور پر مگر وہ علٰحدہ ہے، جن صحافیوں نے ۵؍اگست کے احتجاج میں کانگریس کے مسلم چہروں کی غیر حاضری کے سبب ان کی ملی وفاداری پرسوالیہ نشان لگایا وہ حق بجانب ہیں، اس سے یہ واضح ہو گیا کہ مسلمانوں کی لوٹ کھسوٹ کا سارا کام ان لوگوں نے کیا ہے جنہیں مسلمان اپنا لیڈر سمجھتے ہیں۔


 یہاں اس تفصیل کا بھی موقع نہیں کہ انڈیا ٹو ڈے نے اپنے سروے میں کیجریوال کو پہلی پسند اور ممتا بنرجی کو دوسری پسند کیوں قرار دیا، تاہم جاننے والے جانتے ہیں کہ انا ہزارے کی تحریک بھاجپا کی تحریک تھی اور کیجریوال اسی تحریک سے الگ ہونے والا ایک شخص تھا، عارضی طور پر اس کا ساتھ دیا گیا اور اس نے تعمیری کاموں کی بنیاد پر سیاست کا آغاز کیا، لیکن دہلی فسادات اور سی اے تحریک سے لے کر پنجاب الیکشن اور اب پنجاب میں پیش رفت سے یہ واضح ہو گیا کہ اس پر مزید اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ ہمارے حریف کی دوسری پسند ہے، اس سروے سے اسکا آرایس ایس کی فکر کا علمبردار ہونا واضح ہو گیا ، 


ممتا جی کو پہلے ایک مضبوط مخالف کے طور پر پیش کیا گیا لیکن پھر رفتہ رفتہ ان سے کام لیا گیا، صدر و نائب صدر کے انتخاب میں ان کے موقف اور یوپی اے سے علٰحدہ اتحاد کے اعلان نے ان کی ساری کہانی کہہ دیا، اب وقت ہے حالات کو سمجھنے اور منصوبہ بند عمل کرنے کا، اپوزیشن کا کام اسی پر چھوڑ دیں، ہاں اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کر کے اپوزیشن تک یہ بات پہنچائیں کہ وہ جلد از جلد اسے  وزیراعظم کا چہرہ بنادے جسے آر ایس ایس کمتر ثابت کر رہی ہے، 


اس سے فطری طور پر آر ایس ایس ۲۰۲۴ کی سیاست کے تئیں دفاعی پوزیشن میں آ جائے گی، خواہ یوپی اے اتحاد کا سربراہ کسی اور کو بنا دیا جائے، اس کے علاوہ مسلمانوں کو۲۰۲۴؍ کے انتخابات کی تیاری کے طور پر خود کو عملاً کنارے رکھنا چاہیے، عوامی سطح پر نظریاتی سیاست کی بحثوں سے گریز کرنا چاہیے، جو مسلمان عملاً سیاست سے وابستہ ہیں وہ اپنی سیاست کریں لیکن اگر وہ ملت کی دہائی دیں تو ملت کو انہیں خاموش کر دینا چاہیے، کیونکہ ملی مفاد کو مقدم رکھنے والے مسلم لیڈران بہرحال بھارت کے میدان سیاست میں اس وقت ناپید ہیں، ملت کا نام لے کر کھوکھلے دعووں اور جھوٹے نعروں سے ملت کا مزید نقصان ہی ہوگا ،


نظریاتی سیاست کے لیے خاموش محنت کی جائے، علاقائی سیاسی طاقتوں سے رابطے بڑھائے جائیں اور عام انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کو مضبوط کیا جائے، اس وقت چند لوگوں کی نظریاتی بحثیں ملت کے ان ہزاروں لوگوں کو فکری شکست سے نہیں بچا سکتیں جن کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہے، فکری ارتداد اور احساس شکست پنپ رہا ہے، دن بہ دن لوگ بھاجپا کا غلبہ قبول کرتے جا رہے ہیں، اس کی پالیسیوں اور نظریات سے متفق ہوتے اور اسکے سامنے سپر ڈالتے جا رہے ہیں،


 عوام تو عوام خواص بھی ہتھیار ڈال رہے ہیں، خوف و مفادات نے تو پہلے ہی اچھے اچھوں کے منہ میں بھاجپا کی زبان رکھ دی ہے، اس پر مستزاد یہ کہ خود بھاجپا نے بھی مسلمانوں کو جوڑنے کی مہم چلا رکھی ہے، جس کا Data   اعداد و شمار اور تفصیلات اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں، موہن بھاگوت کا یومِ آزادی پر ترنگا لہرانا جشنِ آزادی کے دن ہی ایک مسلم سماجی کا رکن کی گرفتاری اور بلقیس بانو کے ۱۱؍ مجرموں کی رہائی اور اس سے پہلے یوگی کا ہندویواواہنی کو ختم کرنے کا اعلان کرنا بڑی تبدیلی کا اعلان ہے، 

جس تبدیلی کے آگے اپنی قوم کو فکری شکست سے بچانا بڑا چیلنج ہے، غور کیجئے کہ آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر میں ان کا سربراہ قومی پرچم لہرائے، وہ لوگ ’’ امرت ہوتسو ‘‘کا عنوان دیں جنھوں نے کبھی آزادی کے امرت کا مزہ چکھنے کے لیے زہر کا کوئی گھونٹ پیا ہی نہیں، جن کا انگریزوں سے معافی مانگنا اور مراعات لینا مسلّم الثبوت ہے، ان کی مہارت کا کیا پوچھنا، اب امرت مہو تسو کو آئندہ ۲۵؍ سالوں کے لیے ’’ امرت کال ‘‘ کا نام دے دیا، دوسری طرف ہمارے لوگوں کا حال یہ ہے کہ ُادھر زبان سے کوئی بات نکلی اور اِدھر احساس شکست کے ساتھ سند حاصل کرنے کی خاطر دیوانہ وار اس کے پیچھے چل پڑے، 


یہ احساسِ شکست اور خود سپردگی ہی ہے کہ ہمارے لوگوں میں ان سے سندِ حب الوطنی حاصل کرنے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے ، لوگ ظالم کے جبر ، اپنے مفادات اور سیاسی غلبہ کے سبب اس کے نظریاتی غلام بنتے جا رہے ہیں ، اس سے بچنے کے لیے واحد راستہ سیاسی حکمت عملی ہے ، جوش و جذبات اور نظریاتی بحثیں اس صورتِ حال سے نہیں نکال سکتی ہیں ،

 اس صورتحال میں لازم ہے کہ پہلے ہم اپنے عام بلکہ پڑھے لکھے لوگوں کو فکری شکست سے بچانے کے لیے ایک سازگار اور نارمل ماحول بنانے کو ترجیح دیں، اور پھر نظریاتی سیاست پر گفتگو کریں، ۲۰۱۴ سے قبل ہم بھی کانگریس کے بڑے ناقدوں میں تھے اور اس لیے تھے کہ اس وقت اس کا موقع تھا کہ نظریاتی سیاست کو مضبوط کیا جائے، لیکن تب تو لوگ زندگی کے مزے لے رہے تھے، آج کے نظریہ ساز اس وقت کانگریس کے باج گزار تھے، اب اس وقت کانگریس پر تنقید کا موقع نہیں بلکہ ترجیح یہ ہے کہ ملک کے حالات کو نارمل کرنے کی فکر کی جائے اور اس سلسلہ میں منصوبہ بند کوشش کی جائے،


ہم یہیں پیدا ہوئے ہیں ، ملک پر سب سے زیادہ حق ہمارا ہے ، ہم کسی صورت بھی اپنے حق سے دست بردار نہیں ہو سکتے اور نہ ہی اب ہم سے دوسری ہجرت ہونے والی ہے ، اس لیے ضرورت ہے کہ پورے اعتماد کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا جائے ، نہ حالات کے آگے سپر ڈالی جائے اور نہ ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی جائے اور نہ ہی بڑھ بڑھ کر وفاداری ثابت کرنے اور دیش بھکتی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ہوڑ لگائی جائے ، ترجیحات طے کی جائیں اور متعین مقصد کے لیے رد عمل کی نفسیات سے بالا ہوکر کام کیا جائے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad