تازہ ترین

پیر، 22 اگست، 2022

شیراز ہند کے ایک سادہ مزاج گم نام صحافی کی ادبی خدمات

شیراز ہند کے ایک سادہ مزاج  گم نام صحافی کی ادبی خدمات

تصویر ۔سوشل میڈیا
از۔اسماعیل عمران :ملک عزیز میں موجود دور میں صحافیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ،ایسے میں انکے تذکرے میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔مگر خال خال ایسے صحافی بھی موجود ہیں جنکی صحافت کے چرچے عوام میں تو ہوتے ہیں لیکن صحافی خود ایک گم نامی میں زندگی بسر کرتے ہیں ،ان میں سے ایک گم نام صحافی  حاجی ضیاء الدین جن کا تعلق شیراز ہند جونپور سے ہے جنہوں نے اپنی صحافت کو اپنے لیے ذریعہ شہرت کبھی نہیں بنایا بلکہ گوشہ گمنامی میں رہ کر صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔


یاد رہے کہ انکی شخصیت صحافی میدان میں قلم آزما رہے نوجوانوں کے لیے سبق آموز بھی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز بالکل صفر سے  شروع کیا  ۔گزرتے وقت کے ساتھ صحافتی دنیا میں انھوں نے اپنی محنت لگن اور حوصلہ سے اپنامقام خود حاصل کیا ان کی تحریریں جہاں ماضی کی یادوں کو تازہ کر دیتی ہیں وہیں نوجوان نسل کے لیے سبق امیز بھی ہوتی ہیں۔


ذہن نشین رہے عصر حاضر میں کسی بھی صحت مند جمہوری سوسائٹی میں ایک قابل صحافی سوسائٹی کی آنکھیں ہوتا ہے  ۔سوسائٹی کے اندر موجود ہر طرح کی اچھائیوں اور برائیوں پر صحافی کی ہرآن  گہری نظر بنی رہتی ہے ۔  وہ سوسائٹی میں جنم لے رہی ہر طرح کی تبدیلیوں کو اپنے قلم کے ذریعے سوسائٹی کے سامنے ہائی لائٹ کرنا اپنی زندگی کا اہم ترین کام اور زمہ داری سمجھتا ہے ۔

آج کل  کی چکا چوند دنیا میں صحافتی خدمات کو انجام دینا ایک بڑا چیلنج بھی ہے ۔ایسے میں حاجی ضیاء الدین صاحب اپنی صحافتی ذمہ داریاں پوری امانت داری سے گزشتہ گیارہ سالوں سے  مسلسل صحافتی میدان میں انجام دے رہے ہیں ۔


وہ اپنے تحریروں کے ذریعے ضلع کی ایسی بہت سی معاشرتی  علمی و ادبی   اور سماجی شخصیات کے تعلق سے انکی حیات وخدمات پر روشنی ڈالی ہے جنہیں دوسرا کیا انکے اپنے ہی انکی خدمات کو بھول چکے ہیں ۔آج کے  نوجوانوں کو پتہ ہی نہیں ہمارے اسلاف کی حقیقی زندگی کیا تھی وہ کس طرح کا معاشرہ تیار کرنا چاہتے تھے ۔انہوں نے کیا کیا  قربانیاں دیں ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے حاجی ضیاء الدین صاحب سے ہمارے اسلاف کے وہ کارنامے جو تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئے ۔

 ان پر قلم بند کرنے کی ایسی توفیق عطا فرمائی ہے جو آئے دن اپنی تحریروں کے ذریعے  نئی نسل کو متعارف کراتے رہتے ہیں۔ انکے بہت سے ایسے مضامین ہیں جنہیں علمی و ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا ہے ۔قارئین کے لیے یہاں پر ہم انکے مضامین کے کچھ عناوین کو  بطور سند لکھ دیتے ہیں جس سے ادب اور تاریخ سے تعلق رکھنے والے افراد کو حاجی ضیاء الدین صاحب کی صحافت کی اہمیت کا اندازہ ہوجائیگا ۔انکی ماضی اور حال پر کتنی گہری نظر ہے ۔


٫٫طلوع وغروب اور نصف نہار کے مرتب مولانا ابو بکر شیث جونپوری سے نسل نو نابلد٫٫

مجاہد آزادی حفیظ اللہ خان عرف نانا نے اخری سانس تک سرکاری مراعات نہیں حاصل کیں،،

،،جونپور کی عظیم شخصیت  مولانا زین العابدین کی خدمات سے نسل نو کا نابلد ہونا باعث تشویش،،

،،فروغ اُردو کے نعرے لگانے والے ہی اُردو کو بھول گئے ،،

،،شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے کے بعد کئی شعراء تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئے ،،

،،جونپور تغلق ،شرقی اور مغل دور کے عالیشان کتب خانے تاریخ کا حصہ بن گئے ،،

،،عہد شرقی میں شیراز ہند جونپور کی سرزمین پر علم ومعرفت کی کہکشاں آباد تھی،،


،،زندگی کی بھاگ دوڑ مصروفیات کے سبب ساون کے جھولوں کا وجود خاتمے کے دہانے پر،،


اسکے علاوہ بہت سے اور  مضامین جو روز نامہ اُردو انقلاب کی زینت بن چکے ہیں جنہیں یکجا کردیا جائے تو ایک زخیم کتاب شائع ہوسکتی ہے میں حاجی صاحب سے درخواست کرتا ہوں کی وہ اپنے سبھی مضامین کو ایک کتابی شکل دیں جس سے نسل نو فائدہ اٹھا اسکے ۔ 


حاجی صاحب کی صحافت کا مقام و مرتبہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کی انکے لکھے ہوئے مضامین کو  علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ دینی درسگاہوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا و پڑھا جاتا ہے 
ابھی دس روز قبل انہوں ایک مضمون  
۔نوجوان نسل کو تندرست وتوانا رکھنے والے کھیل کود موبائل کی نذر۔۔ کے عنوان سے لکھا تھا جو بہت مقبول ہوا، جسے ہمارے یہاں کے مشہور دینی ادراہ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی کے ناظم اعلی حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب مظاہری نے  مدرسے میں لگے نوٹس بورڈ پر اپنی دستخط کے ساتھ  اخبار میں شائع مضمون کو طلبہ کے افادہ عام  کے لیے چشپا کرادیا ہے ۔


یہ اعزاز ایک مضمون نگار کے حوصلے اور ہمت میں مزید تقویت بخشتا ہے ، مجھے آج بذریعہ وہٹساپ میرے ایک عزیز نے مدرسہ کے نوٹس بورڈ پر چسپا مضمون کی تصویر بھیجی جسے دیکھ کر  بہت خوشی ہوئی ۔

اسکے بعد فوراََ میں حاجی ضیاء الدین صاحب کے فیس بک اکاؤنٹ پر گیا اور سوچا انہوں نے اپنے فیس بک پر ضرور ریاض العلوم کے نوٹس بورڈ پر چشپا اپنے مضمون کی تصویر اپلوڈ کی ہوگی ۔لیکن جب سرچ کیا تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔میں بہت حیرت میں پڑ گیا اور سوچتا رہا کی موجودہ دور میں صحافیوں کی ایک ایسی بھیڑ بھیڑوں کی طرح موجود ہے جو  اپنے اپ کو ایک اچھا قابل صحافی بتانے میں کوئی موقع ہاتھ سے گوانا نہیں چاہتی ۔

سوشل میڈیا کے دور میں ہر چھوٹی بڑی چیز لوگ شیئر کرنے میں اپنی قابلیت کی سند سمجھتے ہیں ۔ ایسے میں  آج بھی بہت سے ایسے قابل صحافی موجود ہیں جو  اپنی صحافتی خدمات  کو عوام الناس کے فائدے کے لیے  انجام دے رہے ہیں۔انہیں میں سے  شیراز ہند کے ایک سادہ مزاج گم نام صحافی حاجی ضیاء الدین صاحب بھی ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad