یہ کیسی آزادی؟
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں _ وہ خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مصر کے گورنر تھے _ گھڑ سواری کے ایک مقابلے میں ان کے بیٹے نے بلا وجہ مقابلے میں شریک ایک قبطی نوجوان کے ایک کوڑا رسید کردیا _ شاید اسے یہ زعم تھا کہ میں گورنر کا بیٹا ہوں ، میں جو چاہے کروں، کوئی میرے ساتھ انتقامی کارروائی پر قادر نہیں ہے _ ظلم رسیدہ نوجوان کا باپ اسے لے کر مدینہ پہنچا اور اس نے دربارِ خلافت میں شکایت کردی _
حضرت عمر نے تحقیق کی تو شکایت درست پائی _انھوں نے حضرت عمرو بن العاص کو لکھا کہ اپنے بیٹے کو لے کر مدینہ حاضر ہوں _جب مجلسِ خلافت منعقد ہوئی اور تمام لوگ اکٹھا ہوئے تو حضرت عمر نے کوڑا اس قبطی نوجوان کو تھمایا اور فرمایا کہ وہ عمرو بن العاص کے بیٹے سے بدلہ لے لے _ نوجوان اٹھا اور اس نے بھی کوڑا مار دیا _
حضرت عمر نے اس نوجوان کو مخاطب کرکے فرمایا :"اگر اس موقع پر تم عمرو بن العاص کو بھی کوڑا مار دیتے تو میں تمھیں نہ روکتا ، اس لیے کہ ان کے بیٹے کو اپنے باپ کے اقتدار کی وجہ سے ہی تمھیں مارنے کی ہمّت ہوئی تھی _"
پھر حضرت عمر حضرت عمرو بن العاص کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
مَتَى اسْتَعْبَدْتُمُ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْهُمْ اُمَّهَاتُهُمْ اَحْرَارًا؟.
(تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا ، جب کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا؟)
یہ ہے اسلام میں آزادی کا تصور _ اسلامی ریاست میں تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں _ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں ، کسی بھی علاقے یا ملک کے رہنے والے ہوں ، کسی بھی رنگ و نسل کے ہوں ، کسی بھی سماجی حیثیت کے مالک ہوں ، ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا بھید بھاؤ نہیں روا رکھا جائے گا ، ان کے ساتھ ادنی سا بھی ظلم ہوگا تو ان کی داد رسی کی جائے گی اور ان کا حق دلایا جائے گا _ اس زرّیں اصول پر صدیوں تک عمل ہوتا رہا ہے اور اسلامی مملکتوں کے زیرِ سایہ رہنے والے تمام شہری اس سے بہرہ ور رہے ہیں _
آج پوری دنیا میں آزادی کا یہ تصوّر مفقود ہے _ انصاف ، مساوات اور آزادی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود کوئی بھی ملک اور کوئی بھی تہذیب اس 'بلند گھاٹی' تک پہنچنے سے قاصر ہے _ اہلِ مغرب ان اصولوں کو اپنے درمیان نافذ کرنے کی تو کسی حد تک کوشش کرتے ہیں ، لیکن وہ شاید دوسروں کو ان کا مستحق نہیں سمجھتے ، اسی لیے ان کے حقوق پامال کرنے اور ان کی آزادی کو غصب کرنے کے لیے تمام حربے آزماتے ہیں _
مسلم ممالک کے شہری بدترین جبر کا شکار ہیں _ وہ اظہارِ خیال کی آزادی سے محروم ہیں اور مختصر تعداد پر مشتمل حکم راں ٹولہ غالب اکثریت پر ہر طرح کے ظلم روا رکھتا ہے _ ہند و پاک کے شہری بھی ہر برس آزادی کا جشن مناتے اور اس کے گن گاتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے عوام کی زندگیاں آزادی کی نعمت سے کوسوں دور ہیں _ وہ غلاموں سے بدتر حالت میں زندگی گزار رہے ہیں _
* اگر ملک میں کرپشن اور گھوٹالے عام ہوں،
* اگر گنتی کے چند لوگ ملک کی دولت کو لوٹ کر اپنی خفیہ تجوریاں بھر رہے ہوں،
* اگر عوام بھاری ٹیکسوں کے بوجھ سے دبے جا رہے ہوں،
* اگر روز مرّہ کی ضروریات کی چیزیں برابر مہنگی ہوتی جارہی ہوں،
* اگر فرقہ واریت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہو اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان منافرت کی آگ بھڑکنے لگی ہو ،
* اگر لوگوں کی جانیں اور ان کے اموال محفوظ نہ ہوں ، وہ اندیشوں میں جیتے اور خوف و دہشت کے سایے میں اپنے روز و شب گزارتے ہوں ،
تو پھر
_ آزادی کے دعوے کھوکھلے
_ آزادی کے نعرے پھسپھسے
_ آزادی کے نغمے بے کیف
یہ کیسی آزادی؟؟؟؟؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں