تازہ ترین

جمعرات، 25 اگست، 2022

کھیل کود اور تفریح کی پرانی روایات قصبہ پارینہ بن گئیں

کھیل کود اور تفریح کی پرانی روایات قصبہ پارینہ بن گئیں
بچوں کیلئے سائیکل سے اترے ٹائر کسی بی ایم ڈبلیو سے کم نہ تھے تو بائی اسکوب دیکھنے کا مزہ سنیما ہال جیسا ہوتا تھا

تحریر۔حاجی ضیاء الدین جونپوری چند دہائی قبل گائوں میں کھیل کو د کا اپنا مزہ اپنی روایات تھی شہرکی چکاچوندھ سے دور گائوں میں بائس کوپ دیکھنے کا مزہ کسی سنیما ہال سے کم نہ تھا گائوں کے باہر سیوان میں پہلوان ڈنڈ بیٹھک لگا تے تھے توکہیں کبڈی مقابلہ ہو تا تھا کہیں تاش کے پتوں پر کھلاڑی ہاتھ پھیر رہے ہوتے تھے تو کہیں بچے کانچ کی گولی کھیلنے میں مشغول رہتے تو کہیں پتنگ بازی مقابلے کا دور چلتا تھا کم عمر کے بچوں کا بھی کھیل کھیلنے کا طریقہ نرا لا ہوتا تھا۔

 بچوں کے لئے سائیکل سے اترے ہوئے ٹائر کسی بی ایم ڈبلو کار سے کم نہ تھے بچے ٹائر کو ایک ڈنڈے کی مدد سے  دھکا دیتے ہوئے میلوں تک دوڑ لگا یا کر تے تھے کم عمر بچیوں کا کھیل بھی نرا لا تھا بچیاں ایک رسی کے سہارے کود مقابلہ میں حصہ لیتی تھیں اور بچے لوہے کی سریا کو لوہار کے یہاں گول بنو اکر موٹے وائر کے سہارے دھکا دیتے ہوئے میلوں دور اسکول کا سفر طے کر لیتے تھے۔


 وسائل کی کمی کے باجود گائوں کی زندگی بہت آسان تھی موسم باراں میں شدت کی بارش ہو نے پر تالاب نالوں وغیرہ میں پانی بھر جا نے پر مل جل کر مچھلیوں کا شکار عام بات ہو تی تھی کچے مکانوں میں انسان سکونت اختیار کر تے تھے تو وہیں موزی جانوربھی انسانوں کے ساتھ کچے مکانوں میں اپنا آشیانہ بنا لیتے تھے گائوں کی اکثر آبادی کھیتی کسانی پر منحصر ہو ا کر تی تھی جہاں کھیتی کے کام کاج سے فارغ ہو نے پر کسی خاص مقام پر حقہ پینے والوں کی مجلس لگا کر تی تھی جہاں گائوں کی سیاست لے کر گائوں کے لوگوں کے مسائل کھیتی کسانی کی باتیں ہو تی تھیں اور بہت سارے مسائل کا تصفیہ ہو تا تھا تو وہیں بلا تفریق مذہب و ملت گائوں کی عزت کی خاطر سب کچھ قربان کر دینے کو ہر وقت تیار رہتے تھے۔


ایک گھر میں چولہے میں جلی ہو ئی آگ سے پورے محلہ کے لوگ آگ جلالیا کر تھے گائوں میں ایک کہاوت عام تھی کہ آگ اور نمک انکار نہیں کر نا چاہئے شادی بیاہ کے وقت میں پورے گائوں میں خوشی کا ماحول ہو تا تھا شادی والے گھروں سے ہفتہ بھر پہلے ہی گیت گانے کی آوازیں سنائی دینے لگتی تھیں ذرائع کم تھے تو گائوں کے لوگ ہانڈی ددیغ چار پائی وغیرہ گائوں سے اکٹھا کیا کر تے تھے گو یا مل جل کر شادی اختتام پذیر کر لیا کر تھے گائوں کے ماحول میں بچوں کی تربیت پہلی ترجیحات میں شامل ہو تی تھی جہاں بچوں کو اپنے بڑوں کے سامنے احتراما بیٹھنے کی اجازت ہو تی تھی۔


 بڑوں کی مجلس میں بچوں کو خاموش رہ کر پائتی کی جانب بیٹھنے کی تر غیب دی جا تی تھی تو وہیں بڑوں کی عزت واحترام کر نے کی ترغیب گھر کے افراد دیا کر تے تھے چھوٹی مو ٹی غلطیوں پر گائوں محلہ کے بڑے بوڑھے تنبیہ کیا کر تے تھے موسم سرما میں سردی سے بچنے کے لئے الائو کا انتظام مخصوص دروازوں پر ہو تا تھا جہاں  سردی سے بچنے کے لئے لوگ رات کو جمع ہو تے تھے الائو کی زینت قصہ گو کے ماہر ہو تے تھے جن کے بغیر الائو کی مجلس ناکام ہو تی تھی قصہ گو کی خوب آئو بھگت ہو تی تھی چائے اور بیڑی حقہ کا مفت انتظام تو ہوتا ہی تھا ۔

ان کے سر میں سر ملائے بغیر قصہ گو اپنی زبان کو جنبش نہیں دیتے تھے قصہ میں راجہ رانی ، پریوں کے علاوہ بھوت پریت کی کہانیاں شامل ہو تی تھیں دلچسپ بات یہ تھی کہ بعض قصہ گو اس قدر ماہر ہوا کر تے تھے کہ رات کتنی بڑی ہو اس کا اختتام تو ہوجا تا تھا لیکن قصہ کہانیوں کا اختتام نہیں ہو تا تھا بھوت پریت کی کہانیوں میں جن بھوت دئیت چڑیل کے واقعات کی منظر کشی اس طرح کی جاتی تھی کہ سننے والا صحیح مان کر سنا کر تا تھا قصبہ گو خود کے حوالہ دے کر کہا کر تھے کہ   گائوں کے باہر قبرستان میں فلاں درخت کے پاس میرے اور بھوت کے درمیان ہوئی جنگ میں صبح صادق ہو گئی اور مجبور ہو کر بھوت کو بھاگنا پڑا۔


 الائو پر بیٹھے لوگ قصہ گو کہ کہی ہر بات کو سچ مان کر سر میں سر ملا یا کر تے تھے علاقہ کے لوگ سنگا پو ر ملیشا وغیرہ سے سائیکل لایا کر تھے جس کی عزت موجودوہ وقت کے مر سڈیز سے کم نہ تھی گائوں کی زندگی آلودگی سے پاک تھی وقت بدلا تو گائوں کی زندگی بھاگ دوڑ بھری ہو گئی قدرت کا ستم کہیں یا ہم انسانوں کی بد اعمالی بارش نہ ہو نے سے نالا و تالاب بھرنا تو دور کی بات کھیت ہی سیرا ٓب نہیں ہو پارہے ہیں۔


 گائوں میں الائو جلانے کی روایت کم ہو ئی تو قصہ گو بھی ختم ہو تے جارہے ہیں شادی بیاہ کا انتطام ٹینٹ ہائوس او ر کیٹرین تک پہنچ گئی ہے شادی بیاہ والے گھروں سے گیت کی آواز کم سنائی دینے لگی ہے بائس کوپ کی جگہ موبائل پر فلمی دیکھنے کے علاوہ دیگر ضروریات پوری کر لی جارہی ہیں بچے اب سائیکل سے اترے تو دور کم عمری میں ہی مو ٹر سائیکل و کار سے فراٹے بھرنے لگے ہیں کھیتی کسانی کا کام سمٹ چکا ہے ۔


اور لوگ ذریعہ معاش کے لئے ملک و بیرون ممالک سکونت پزیر ہیں یہ بات سچ ہے کہ انسان کتنی بھی ترقی کر لیں اپنا ماضی اور مادروطن کی یادوں کو نہیں بھول سکتا ہے گائوں سے دور رہنے والے آج بھی گائوں کی پگڈنڈیوں کو یاد کر کے نم دیدہ ہو جا تے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad