نیوزی لینڈ دنیا کا واحد ملک ہے کہ جہاں سانپ نہیں پائے جاتے،اور آسٹریلیا میں سب سے خطرناک اور زہریلے سانپ پائے جاتے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے؟
آپکو بتاتا چلوں کے نیوزی لینڈ جنوب مغربی بحر الکاہل میں ایک جزیرہ نما ملک ہے ایسی زمین جو کہ مکمل طور پر چاروں اطراف سے پانی میں گھری ہو جزیرہ کہلاتا ہے. اس جزیرہ کے اندر بھی کئی چھوٹے بڑے جزیرے ہو سکتے ہیں جیسے نیوزی لینڈ میں موجود چھوٹے بڑے جزیروں کا تخمینہ 600 سے 700 سو کے لگ بھگ ہے ، اسکے علاوہ بھی سمندر کے نیچے چھپے بڑے زمینی پیمانے کی باقیات موجود ہیں۔
اب سوال یہ بنتا ہے کہ آخر کیسے اتنے بڑے بڑے بحروں کے اندر آئی لینڈز یا جزیرے معرضِ وجود میں آتے ہیں؟ سائنسدانوں کے مطابق جو بڑے بڑے آتش فشاں زیر آب موجود ہیں ان میں پانی کے اندر زمینی تہہ سے 2 سے 5 میل نیچے گرم سیال مادہ پن پتا رہتا جسکو می گما کہتے ہیں جیسے جیسے آتش فشاں پھٹتے ہیں ، وہ پانی پر لاوا کی تہیں بناتے ہیں جو کہ ٹھنڈا ہونے پر تہہ در تہہ سخت اور پتھریلی چٹانیں بناتے ہیں جو ہزاروں سال کے ارضیاتی مراحل سے گزرتے ہوئے پانی کی سطح سے بلند ہو جاتے ہیں ۔ یعنی کے جب آتش فشاں کی چوٹی پانی کے اوپر ظاہر ہوتی ہے اور لاوا ٹھنڈا ہو کر تہہ در تہہ جمتا ہے تو ایک جزیرہ بن جاتا ہے جو پہاڑ بنتے ہیں۔
انکی اگر بلندی ہزاروں سالوں کے ارضیاتی مراحل سے گزرتے ہوئے زیادہ ہوتی جائے اور سطح سمندر کم ہوتی جائے تو وہی درجہ حرارت گرنے پر گلیشیرز کی صورت بھی اختیار کرتے ہیں ۔ جبکہ آتش فشاں کا چیمبر ابھی بھی سمندر کی سطح کے نیچےہوتا ہے ، اسے سی ماؤنٹ (سمندری پہاڑ) کہا جاتا ہے یعنی زیر آب ایسے پہاڑ جو آتش فشانی سرگرمیوں کیوجہ سے بنتے ہیں۔
چونکہ یہ جزیرے بحروں میں الگ تھلگ پڑے رہتے ہیں تو یہ جلدی دریافت ہی نہیں ہوتے جیسے کہ آج بھی دنیا میں کئی ہزاروں جزائر ایسے ہوں گے جہاں انسان نے کبھی قدم ہی نہیں رکھا ہوگا وہاں پر چرند پرند، ریپٹایلز دوسرے جاندار ہیں نہیں ہیں کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا ہے زیادہ تر جزائر انہی لوگوں کی معرفت سے دریافت ہوتے ہیں جو کہ بحری سفر کرتے تھے کوئی جزیرہ حادثاتی طور پر دریافت ہوا اور کچھ مہم جو طبیعت کے لوگوں نے بحری سفر کرکے دریافت کیے۔
کئی ہزاروں سال پہلے ان جزائر پر کیا ارضیاتی تغیرات ہوئے یہ قدرت ہی بہتر جانتی ہے وہاں انسان اور دوسرے جانداروں کے رہنے لائق ماحول تھا نہیں یہ تبھی دریافت ہوتا رہا جب جب انسانی قدموں نے ان جزائر کی ان چھوئی زمین کو چھوا. اب کہیں تو حضرت انسان کو ایسے چرند پرند ملے جنکا وجود دوسرے ممالک اور جزائر پر نہیں تھا جیسا کے نیوزی لینڈ میں لاکھوں سال پہلے پایا جانے والا مووآ پرندہ جسکو (Dinornithiformes) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑا پرندا تھا جو کہ اڑان نہیں بھر سکتا تھا. تقریبا 600 سال پہلے وہ نیوزی لینڈ سے اچانک ناپید ہو گئے تھے ۔
زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ ایک ڈچ ایکسپلورر ابیل تسمان کو پہلا یورپی شخص تسلیم کیا جاتا ہے جس نے 1642 میں نیوزی لینڈ کو دریافت کیا تھا۔ اور 1840 میں ایک قدرتی ماہر رچرڈ اوون نے مووآ کی تیرہ قسموں کے فوسلز نیوزی لینڈ سے دریافت کیے تھے. لیکن آج تک کبھی بھی نیوزی لینڈ سے سانپوں کے فوسلز نہیں ملیں ہیں کہا جاتا ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پہلے جڑے ہوئے تھے لیکن لگ بھگ 85 ملین سال پہلے یہ دونوں ارضیاتی تغیرات کا شکار ہو کر علیحدہ علیحدہ ہو گئے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ آسٹریلیا تو دنیا کے زہریلے ترین سانپوں سے بھرا ہوا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ نیوزی لینڈ میں ایک بھی زمینی سانپ نہیں ملتا ہے تو اسکا جواب سائنسدان بھی مفروضہ کی صورت میں ہی دیتے ہیں جسکی کی ایک مفروضیاتی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہو سکتا ہے ہزاروں سال پہلے نیوزی لینڈ کا درجہ حرارت گلیشیرز کی موجودگی کی وجہ سے انتہائی خطرناک حد تک ٹھنڈا ہو اور کولڈ بلڈڈ ریپٹایلز کے رہنے کیلئے موضوع نہ ہو اسلئے اپنے وجود کو بنائے رکھنے کیلئے ریپٹایلز نے یہاں رہنا نہ سیکھا ہو اور دوسرے مناسب ماحول میں اپنا بسیرا کیا ہو یا ہزاروں سال کے ارضیاتی بدلاؤ کیوجہ سے انکا وجود نہ بچا ہو۔
اگر خوش قسمتی سے کبھی یہاں سے سانپ کے فوسلز ملتے ہیں تو پھر ریسرچ کا اگلہ مرحلہ شروع ہوگا کہ اگر سانپ نیوزی لینڈ میں پائے جاتے تھے تو کتنے ہزاروں سال پہلے پائے جاتے تھے، اگر انکا وجود ختم ہوا تو کیوں ہوا وغیرہ وغیرہ فلحال تو یہ راز ہی ہے اور مفرضوں پر مبنی باتیں ہیں،البتہ چونکہ نیوزی لینڈ بحر الکاہل میں واقع ہے تو اسلئے اسکے ساحل علاقوں میں بعض اوقات سمندری سانپ نظر آ جاتے ہیں جو کہ ایک ریکارڈ کے مطابق 2018 میں ایک گیارہ سالہ لڑکے کو yellow ballied sea snake میں نظر آیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں