آہ آج 17 جولائی ہے، گذشتہ برس آج ہی کے دن میری زندگی میں وہ حادثہ پیش آیا تھا جو بھلائے نہیں بھولتا۔۔۔۔۔۔۔
میری امی جن کی یاد ہر روز ستاتی ہے !
ڈاکٹر طارق ایوبی
میری امی میرا سرمایۂ حیات تھیں، محبت و شفقت کا پیکر تھیں، جسم نحیف تھا، مگر دل بہت بڑا تھا، عرصہ سے مبتلائے امراض تھیں لیکن عزم و ہمت میں لا جواب تھیں، ایک سادہ سی خدمت گذار مشرقی خاتون تھیں، وہ میری ماں تھیں، سب کی ماں سب کے لیے عظیم ہوتی ہے، سب کے والدین سب کے لیے بہت عظیم اور قیمتی ہوتے ہیں ،لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قربانیوں ،جان فشانیوں اور ذمہ داریوں کے نبھانے میں فرق ہوتا ہے،
کردار و عمل ان کی عظمت میں چار چاند لگا دیتے ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض والدین لا پروا ہوتے ہیں، بعض اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتے ہیں، بعض اچھی طرح اپنے بچوں پر توجہ نہیں دیتے، بعض قسمت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیںلیکن، بعض والدین ایسے بھی ہوتے ہیں جو قربانیوں کا پیکر ہوتے ہیں، محبت و شفقت اور ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کاندھوں سے اتارتے ہی نہیں اور بسا اوقات یوں ہوتا ہے کہ وہ اتارنا چاہیں تو حالات انھیں اتارنے نہیں دیتے،خوش قسمتی سے مجھے ایسے ہی ماں باپ میسر آئے،میرے والد نے کبھی دن کو دن نہیں سمجھا اور کبھی رات کو رات نہیں جانا،زندگی سے لڑتے رہے اور ہم بھائی بہنوں کی پرورش کی فکر میں کڑھتے رہے،امی بھی ہر طرح کہ سرد و گرم حالات میں ابّو کا ساتھ نبھاتی رہیں،
واقعہ یہ ہے کہ دونوں نے نہ صرف اپنے بچوں کو پالا بلکہ اپنے بچوں کے بچوں کی بھی پرورش کی ، والد ہمیشہ کسبِ حلال کے لیے دوڑ دھوپ کرتے رہے اور امی ہمیشہ قناعت کی تصویر بنی رہیں،والد کے پاس مال کمانے کے خوب مواقع تھے مگر شدید ترین حالات میں بھی انھوں نے گھر کے اندر حرام نہ آنے دیا،امی بھی مکمل محتاط رہیں،
ابّو کی اجازت کے بغیر ہمارے منہ میں کوئی لقمہ نہ جانے دیا، ابّو ارب پتیوں اور کروڑپتیوں کی صحبت میں رہے لیکن کبھی مرعوب نہ ہوئے، امی نے گھر میں کبھی احساس کمتری کا شکار نہ ہونے دیا،
کبھی کسی کی دولت کی طرف نظر نہ اٹھائی،کبھی کسی کو دیکھ کر کسی خواہش کا اظہار نہ کیا، مجھے کہنے دیجیئے کہ میرے ابّو امی بڑے صاحبِ کردار اور بہت با عمل ،قناعت پسند اور جہدِ مسلسل کے
پیکر،مجھے کہنے دیجئے۔ ؎
ہمیں پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب
پڑھی ہیں باپ کے چہرے کی جھرّیاں ہم نے
اور امی کا حال یہ تھا کہ ؎
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھودیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
اور
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
بخدا میری ماں کا سوتے جاگتے یہی حال تھا، گھر
میں ہر ایک کے لیے جس قدر وہ پریشان رہتی تھیں اس قدر کوئی اور پریشان نہیں ہوتا تھا، نعمت جب چھن جاتی ہے تب اس کا اور اس کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے، تب خوبیاں سامنے آتی ہیں، ان کے انتقال سے وہ گھر میرے لیے سونا ہو گیا جہاں میں بڑے شوق سے جایا کرتا تھا،ان دعاؤں سے، ہاں بے لوث دعاؤںسے محروم ہوگیا جو میرے ساتھ چلا کرتی تھیں، جو سایہ دار بادل بن کر میرے سر پر منڈلاتی رہتی تھیں،
ذرا معلوم ہوجاتا کہ بخار آگیا ہے تو فون کا تانتا بندھ جاتا، یقینا زمانہ قدیم کے شریف گھرانوں کے دستور کے مطابق میری امی پڑھی لکھی نہیں تھیں، صرف ناظرہ قرآن اور تھوڑی بہت اردو سے آشنا تھیں، ماہر القادری کی بعض نعتیں اور شاہنامہ اسلام کے کچھ بند یاد تھے، لیکن پڑھا لکھا ہونا ہی سب کچھ نہیں ہے، ان کی نرم مزاجی ان کی محبت اور ان کی عظمت رہ رہ کر کچوکے لگاتی ہے،
وہ ہمارے لیے بہت عظیم تھیں، مجھے قوتِ گویائی انھوں نے بخشی،بچپن میں سیٹھے کے قلم انھوں نے بناکر دیے، میری لکڑی کی تختی پر مٹی وہی لگاتی تھیں،مجھے صبح پابندی سے مکتب کے لیے وہی تیار کرتی تھیں، مجھے صرف ۶سال کی عمر میں انھوں نے ہی اپنے آپ سے جدا کردیا تھا،میر ے لیے وہ میرا
عظیم ترین سرمایہ تھیں،بالکل سچ کہا ہے ؎
تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک
مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی
اس وقت اگر کسی کو بد نصیبی کا مطلب پوچھنا ہو تو مجھ سے پوچھے،محبت سے محرومی کے معنی سمجھمنا ہوں تو مجھ سے معلوم سے کرے، جب ۲۴ جولائی کو گھر سے آ نے کے لیے نکلا تو محبت بھری نظریں ڈالنے والا کوئی نہ تھا،پیٹھ سہلانے والا کوئی نہ تھا،یہ پوچھنے والا کوئی نہ تھا کہ ’’ بھیااب کب آؤ گے‘‘آنسوؤں کو چھپاکر مسکراہٹوںکے ساتھ رخصت کرنے والا کوئی نہ تھا،گھر لاکھ بھرا پڑا ہو مگر ماں نہیں تو کچھ نہیں،
صرف ماں کا رشتہ ہی ایسا مقدس رشتہ ہے جس میں کوئی غرض نہیں شامل ہوتی، کوئی مطلب نہیں شامل ہوتا، کوئی خواہش نہیں شامل ہوتی،اس کی اولادیں ناکارہ نکل جائیں،
اسے تنہا چھوڑ دیں، اس سے جدا ہوجائیں پھر بھی وہ اپنے بچوں کو ہر حال میں خوش دیکھنا چاہتی ہے،پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہے،مجھے ۶ سال کی عمر میں خود سے جدا کیا اور پھر یہ جدائیگی دائمی بن کر رہ گئی،۲۰۰۲ء تک ندوہ میں رہا تب تک سال میں تقریبا دو ڈھائی مہینے گھر پر گذرتے تھے، ۲۰۰۳ء میں علی گڑھ آگیا تو بھی گرمی کی چھٹیاں اور عید گھر پر ہوتی تھی،۲۰۰۸ء میں فیملی کے ساتھ علی گڑھ میں قیام ہو گیا اور پھر ۲۰۱۱ء میں پی ایچ ڈی مکمل ہوگئی، باقاعدہ عملی زندگی کی ابتداء ہو گئی ذمہ داریاں بڑھ گئیں، نتیجہ یہ ہوا کہ گھر جا نے کا سلسلہ تو رہا لیکن بد نصیبی سے کبھی طویل قیام کی نوبت
نہ آئی۔
میری امی ایک اچھے متمول زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، کھیتہ سرائے میں محلہ ادھیاری کے لوگوں کی علاقہ میں دھاک تھی، امی کے دادا منظور حسن مرحوم علاقہ بھر میں پہچانے جاتے تھے،وہ ابو کے حقیقی پھوپھا بھی تھے، میرے نانا جان ڈاکٹر ضرار حسن مرحوم بڑے ماہر طبیب تھے، علاقہ بھر میں ان کے تجربہ کی دھوم تھی، اسی خاندان کی ایک شاخ میں مفتی راشد حسین ندوی صاحب ہیں جو مدرسہ ضیاء العلوم کے مہتمم ہیں،
بڑے شریف النفس اور وضعدار عالم ہیں، رشتے میں وہ میری امی کے چچا ہوتے ہیں، ان کے بڑے بھائی کو میری امی کی حقیقی خالہ زاد بہن منسوب ہیں، یہ خاندان بڑا متمول تھا اور اپنی شناخت رکھنے والا خاندان تھا، میرا تعلق بھی ایک چھوٹے سے زمیندار خاندان سے تھا،
لیکن نانیہال کی زمینداری بڑی تھی، وہاں کا حصہ میرے گاؤں میں بھی تھا، میری والدہ تقریبََا پونے دو سال کی تھیں جب میری نانی رخصت ہوگئیں، ان کی دادی اور پھوپھی نے پرورش کی،میرے بڑے بھائی اور بڑی بہن نے پرنانی کو دیکھا ہے ،وہ ’’ حجّن اماں ‘‘کے نام سے مشہور تھیں، میری والدہ اپنی دادی اور پھوپھی کی بڑی چہیتی تھیں، پھوپھی ۱۹۴۸ء میں پاکستان چلی گئیں اور وہیں کی ہو کر رہ گئیں بلکہ عرصہ پہلے راہی ملکِ عدم ہوچکیں،
ان کے اور نانا کے خطوط میں محبت کی جھلکیاں میں نے دیکھی ہیں، ۲۰۰۷ء میں آخری بار نانا آئے تھے تو قریب سے ان کی محبت کا مشاہدہ کیا، مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں، میری والدہ کی ایک بہن تھیں جو بچپن میں ہی رخصت ہوگئیں، ہمارے ایک ماموں ہیں جو بحمد اللہ بقید حیات ہیں ، نانا نے نانی کے انتقال کے بعد پھر دوسرا نکاح کیا تھا، وہ نانی اب بھی موجود ہیں، ان ہی سے میری چار خالہ ہیں، اللہ سب کو صحت و عافیت کے ساتھ رکھے۔
میری امی بڑی نیک اور سادہ لوح خاتون تھیں، میں نے ہمیشہ ان کو گھر میں سب سے آخر میں لیٹتے دیکھا اور صبح سب سے پہلے اٹھتے دیکھا ، ابّو کا عام طور پر فجر سے ایک گھنٹہ پہلے اٹھنے کا معمول ہے امی بھی اکثر ساتھ ہی اٹھ جایا کرتی تھیں، عرصہ سے تہجد و تسبیح اس وقت کا معمول تھا، میں نے کبھی اپنی آنکھوں سے ان کی فرض نماز چھوٹتے نہیں دیکھا،ہمیشہ پابندی سے تلاوت کرتے دیکھا ،بحمد االلہ ایک مرتبہ ابو کے ساتھ حج کے لیے گئی او ر پھر ابھی چند سال قبل عمرے کے لیے گئیں تو پورا رمضان وہیں گذارا۔
میری امی بڑی خدمت گزار تھیں، ان کی شخصیت آج کل کی لڑکیوں اور بہوؤں کے لیے آئیڈیل ہے، یہ ان کی نیکی اور مزاج کی شرافت تھی جو ان کو خدمت پر ابھارتی تھی، بقول ابو کے وہ جس گھر میں پلی تھیں اس گھر میں انھوں نے سوائے روٹی پکانا سیکھنے کے کوئی کام نہیں کیا، آٹا گوندھنے والی بھی آٹا گوندھ کر رکھتی تھی تب امی روٹی پکاتی تھیں،لیکن جب سے ہمارے ساتھ آئیں تب سے کوئی کام باقی نہ بچا جو انہوں نے کیا نہیں،
ایک زمانہ میرے ابو کا بڑی تنگی اور پریشانی کا گذرا ہے، لیکن وہ عزم کے دھنی ہیں، انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، آگے بڑھتے رہے اور ہمیں یہاں تک لے آئے، بہر حال ا ن حالات میں بھی امی ہر طرح ابو کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں، ابو عادت کے مطابق اچانک کسی کو ساتھ لے آتے ایک شخص ہوتا دو چار لوگ ہوتے اور کھانے کا حکم ہوجاتا ،امی کے لیے کوئی مسئلہ نہ ہوتا،
حالانکہ تب چولہا جلا کرتا تھا،اور میرے یہاں اچھے قسم کا ایندھن بھی میسر نہ ہوتا تھا، مگر امی گرمی کی دوپہر ہو یا سردی کی رات سراپا خدمت گذار بن کر حاضر رہتیں، امی کے کام میں بہت جلدی ہوتی یھی،ایک ساتھ دو ہاتھوں سے دو ہانڈیاں پکایا کرتی تھیں ، میرے دادا مرحوم کا ۹۷ میں۸۹ سال کی عمر میں انتقال ہوا، تقریبا ساڑھے تین ماہ وہ نیم کوماکی حالت میں بستر مرگ پہ رہے، اس دوران امی نے اپنے سسر کی جو خدمت کی ہے وہ کوئی بیٹی ،بیٹا اپنے باپ کی نہیں کرسکتا،میں ندوے میں تھا، بڑے بھائی سعودیہ میں تھے،
ابو پرائیویٹ نوکری کرتے تھے، ان کے لیے لکھنؤ جانا ناگزیر ہوتا تھا، امی تھیں جو تنہا مہمان نوازی بھی کرتی تھیں ، ابا مرحوم کی تیمارداری بھی کرتی تھیں، کروٹ دلاتیں،دوا کھلاتیں، کھانا کھلاتیں، بدن کو صاف کرتیں، بیڈ سول ہونے سے بچانے کے لئے جسم صاف کرتیں پاؤڈر لگاتیں، استنجاء وغیرہ کے لیے ابو کے چچا زاد بھائی پورا تعاون کیا کرتے تھے ، مولانا رئیس الشاکری ندوی مرحوم کے بڑے بھائی اشتیاق احمد مرحوم اس سلسلہ میں بڑی خوبیوں کے مالک تھے،انھوں نے اس وقت بھرپور تعاون کیا، اللہ ہی انھیں اجر دے اور اب تو وہ دونوں ہی اجر لینے اپنے رب کے حضور پہنچ چکے ہیں ،
بہرحال یہ امی کا وہ کارنامہ تھا جسے نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے،عام طور پر گھروں میں نندوں اور بھاوجوں کے جھگڑے ہوتے ہیں، میں نے امی کو ہمیشہ اپنی پھوپھیوں کی خدمت کرتے پایا، ان کے آنے پر ایسا بچھا ہوا پایا جسکو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا عمر میں بڑی ہونے۷ کے باوجود ہمیشہ چھوٹی پھوپھی کا بھی احترام کیا کرتی تھیں۔
امی کے مزاج میں نرمی و محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، میرا احساس ہے کہ جتنی زیادہ محبت وہ کرتی تھیں بدلہ میں مجھ جیسے بدنصیب انھیں اتنی محبت نہ دے سکے، ان کے انتقال پر ہندو مسلم سب کی زبان پر بس یہی الفاظ تھے، بہت سیدھی تھیں، بڑی صبردار تھیں، بہت برداشت کرتی تھیں،بڑی محبت کرتی تھیں، ان کو ہنس کے ملنے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں تھا،بڑی ہمدرد تھیں، میں جانتا ہوں کہ جن سے پاس پڑوس میں ان کو ہمدردی ہوتی تھی ان کو گھر میں کوئی چیز ہوتی تو چھپ چھپا کر پہنچا دیتی تھیں،عام طور پر عورتیں میکے والوں کے لیے زیادہ مرتی ہیں،
انھیں بھی بہت پیار تھااپنے میکے والوں سے ، لیکن ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ ان رشتوں کو خوب نبھاتی تھیں جو ابو سے قائم تھے، ابو کے بھانجے بھانجیوں کو فون کرنا، خیریت لینا،بلانا ان کا اکرام کرنا ان کی دلجوئی کرنا ان کی خوبی تھی ، ابھی عید کے موقع پر بڑی پھوپھی زاد بہن آئیں، سب نے پوچھا اچانک آپ؟کہنے لگیں کہ ممانی نے عزیز کو بھیج کر بلوایا ہے، صلہ رحمی اور رشتے نبھانے کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے، امی رشتوں کا بڑا پاس و لحاط رکھتی تھیں محبت میں وہ گھلتی تھیں،
اگر کوئی بات بری لگے تو اس کو بھی پی جاتی تھیں، کسی بات سے شدید تکلیف محسوس کریں تو اسے بھی آنسوؤں میں بہا دیتی تھیں مگر شکایت زبا ن پر نہ لاتی تھیں، واقعی ان کی قوت برداشت مثالی تھی، وہ صبر کا پہاڑ اور محبت کا پیکر تھیں، بیماری کے دنو ں میں میرے بہنوئی بات کر رہے تھے تو انھو ں نے کہا کہ امی آپ ہم کو بہت چاہتی ہیں ہم بھی آپ سے بہت محبت کرتے ہیں، اس وقت انھوں نے بڑا بلیغ جملہ کہا جسکی گہرائی عام آدمی سمجھ ہی نہیں سکتا،
انھوں نے یہ نہیں کہاکہ مشکلات نے ہمیں مریض کردیا،الجھنوں نے کمزور کردیا،ذمہ داریوں نے کمر توڑدی،جب کہ عام طور پر لوگ ایسے موقع پر یہی جملے کہتے ہیں ،کہنے لگیں’’ہاں بھیا سب کی محبت نے ہمیں اس حال میں پہنچا دیا‘‘سب کی محبت کو سنبھالنا ، سب کی محبت کو مناسب مقام دینا اور سب کی محبت کا خیال رکھنا،
یہ بس امی جیسی خاتون ہی کر سکتی ہے، سب کے بس کی بات نہیں، وہ اتنی سیدھی اور اس قدر صبر وبرداشت کرنے والی خاتون تھیں کہ کبھی کبھی کسی موقع پر مجھے ان کی مظلومیت کا احساس ہونے لگتا تھا، یہی وجہ ہے کہ میں قلبی رجحان ہمیشہ امی کی طرف رکھتا تھا باوجود اس کے کہ میری تعلیم و تربیت سب ابو کی رہین منت ہے، وہ اپنے دل کی اکثر باتیں مجھ سے کیا کرتی تھیں، میں ایک دن کے لیے جاتا یا ایک ہفتہ کے لیے اکثر اوقات میرے ہی پاس رہتیں،
میں جب رات میں لیٹ جاتا تو آکر میرے پاس بیٹھ جاتیں، میں بھی بیٹھ جاتا اور کہتا امی لیٹیے لیکن کافی دیر کے بعد لیٹتیں،ابھی جب میں عید میں گیا تو صبح کے وقت دو تین گھنٹے کام کرنے بیٹھ جاتا،جب تک میں بیٹھا رہتا میرے پاس ہی بیٹھی رہتیں،علیگڑھ آنے کے لیے ہر وقت تیار رہتیں،یہاں آکر خاص طور پر میری اپیّ کے یہاں رہنے میں زیادہ سکون محسوس کرتیں ،
کیوں کہ بند جگہ سے ان کو الجھن ہوتی تھی ،یوں بھی اپیّ سے ان کو سب سے زیادہ مانوسیت اور تعلقِ خاطر تھا،مگر جب میں کہتا کہ آئیے تو کہتیں ابو کو ساتھ لے چلو، جتنے دن وہ رہیں گے ہم بھی رہیں گے اور ابّو کا یہ معاملہ کہ ذمہ داریاں انھیں آنے نہیں دیتیں ۔
امی ہر ایک کا بے پناہ خیال رکھتی تھیں ، ابھی جب مرض الموت میں مبتلا ہوئیں ، سانس کی ایسی تکلیف تھی کہ دیکھی نہیں جاتی تھی لیکن ہر وقت سب کا خیال رکھتیں ، میری بچی کو بخار تھا بار بار اس کی خیریت پوچھتیں،ہر وقت کہتیں فون کرکے معلوم کرو تمہارے ابو نے دوا کھائی، گھر پر کو ن ہے کون نہیں معلوم کرتی رہتیں، ایک روز شام کے وقت بھائی جان پھوپھی زاد بھائی کے یہاں جانے لگے،امی سمجھ گئیں یہ جائیں گے تو کھانا وہیں کھائیں گے، بھائی جان کھانے سے پہلے ایک دوا کھاتے تھے، کسی کو یاد نہ آیا،
ان کی اہلیہ موجود تھیں، میں تھا، بہن تھیں،مگر امی نے کہا دوا لیتے جاؤ کھالینا،یہ دل صرف ماں کے پاس ہوسکتا ہے جو اپنی تکلیف میں بھی اولاد کی تکلیف یاد رکھے۔
میر ی امی کو دولت سے کوئی پیار نہ تھا ،کبھی پیسے کی خواہش نہ ہوئی،بلکہ سچی بات یہ ہے کہ میں نے صرف ان ہی کو دیکھا ہے جس کے پاس خواہش نام کی چیز ہی نہیں تھی، کبھی میںکہتا امی یہ لے لیجئے وہ لے لیجئے ،کہتیں کیا کرنا ہے بھیا؟ مانگنا تو بہت دور کی بات کبھی میں اگر ان کو کوئی رقم دینے کی کوشش کرتا تو کہتیں کیا کرنا ہے بھیا، تم رکھو تمہارے پاس ویسے ہی اتنے خرچے ہیں، پورے سال میں صرف عید میں میرا معمولی سا ہدیہ قبول کرتی تھیں،
ان کے اندر حرص و ہوس ،خواہشات ، حسد جیسی بیماریاں میرے مشاہدے کے مطابق کبھی نہیں رہیں، وہ ٹوٹ کر محبت کرتی تھیں، محنت،خدمت،قناعت،اور صبر و برداشت ان کی نمایاں خصوصیات تھیں۔
غلطیاں کون نہیں کرتا؟کمیاں کس میں نہیں ہوتیں،آخر امی بھی ایک انسان تھیں ان میں کمیاں رہی ہوں گی، لیکن ان کی خوبیاں، نیکیاں اور اچھائیاں سب کمیوں پر بھاری تھیں،بلکہ میری نگاہ سے دیکھا جائے تو کمیاں بہت دور کی بات وہ تو محبت و شرافت ، مروت و ہمدردی اور خدمت و قناعت اور صبر و رضا کا پیکر تھیں، ان کے جیسی خواتین اب چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں یوں بھی رسول اللہ ؐ کا حکم ہے’’واحسنوا موتاکم‘‘ اپنے مردوں کی خوبیاں بیان کیا کرو۔
میری ضرورت کہیے یا کم نصیبی کہ میں ہمیشہ ان سے دور رہا، لیکن یہ خوش نصیبی تھی کہ اس مرتبہ عید میں گیا تو ۱۵ سولہ دن رہا،پھر ایک ماہ بعد دو دن کے لیے گیا ،امی نے کہا جلدی آنا، میں نے کہا امی اب کہ بار بہت اخراجات ہوگئے جلدی کیسے آئیں گے، کہنے لگیں،بلکہ ہمیشہ یہی کہتی تھیں کہ تھا تو خرچ ہوا اللہ اور دے گا، گویا ان کے یہاں مایوسی نام کی کوئی چیز نہیں تھی، میں کسی مشکل کا ذکر کرتا تو کہتیں بھیا اللہ سے دعا تو کرتے ہیں ، اللہ ہی مشکل حل کرے گا،
وہی سب کر سکتا ہے، بہر حال کسے معلوم تھا کہ آنے کے ہفتہ بھر بعد مجھے جانے کا حکم دے رہی ہیں، ۲۶ جون کو میں آیا اور اسی کے دو دن بعد انھیں بخار آیا،بیمار وہ عرصہ سے تھیں تقریبا بیس سال سے مسلسل دوا کھا رہی تھیں، علاج کرنے کی ہمت بھی ابو جیسی چاہیے، میری پیدائش سے پہلے ان کا علاج چل رہا تھا ،درمیان کبھی موقوف رہا ہو تو ہو ، گذشتہ بیس سال سے مسلسل زیرِعلاج تھیں ،بلڈ پریشر ،۔۔۔۔۔۔ جیسے عوارض تھے ،
اسی وجہ سے ان کا دل بہت کمزور تھا ، کسی کا زور سے بولنا بھی وہ برداشت نہ کر پاتی تھیں ،بہر حال اس مرتبہ جب وہ بیمار ہوئیں تو گھر میں کوئی یہ نہ سمجھ سکا کہ وہ آخری مرض موت می مبتلا ہوچکی ہیں، مستقل دواؤں کے ساتھ عارضی دوائیں کھانسی بخار کے لیے دی گئیں مگر کوئی افاقہ نہ ہوا، ۳ جولائی کو صبح ابو کا فون آیا تشویش کا اظہار کیا،۹ بجے میں نے احوال سن کر ابو کو مشورہ دیا کہ لکھنؤ میں ایڈمٹ کرایا جائے، بھائی جان لے کر گئے اور ایڈمٹ کردیا،
بھائی جان اسپتال پہنچنے تک یہی سمجھ رہے تھے کہ ہمیشہ کی طرح بس جکڑ گئیں ہیں اور ایک دن پہلے تک سبھی یہی سمجھ رہے تھے، ڈاکٹروں نےc.o.p.dایک طرح کا نمونیا تشخیص کیا، خیر میں رات میں ہی لکھنؤ پہنچ گیا، ایک آدھ روز میں افاقہ ہوا، ڈاکٹر نے خود کہا کہ مجھے حیرت کہ اتنی جلدی یہ امی کو recoverکیسے ہوگئیں، ۸ جولائی کو میں انھیں لے کر گھر آگیا،۹ کو جمعہ تھا ، رات ۱۲ بجے گھر پہنچیں تو سب سے زیادہ الجھن ناپاکی اور کپڑوں کے گندا ہونے اور کئی دن سے نماز نہ پڑھ پائے کی تھی،
میں نے سمجھایا بجھایا صبح کو دھوپ ہوئی تو گرم پانی سے آدھا جسم دھویا گیا، کپڑے بدلے گئے، اس وقت جیسے چہرہ کھل اٹھا، ابو نے محسوس کیا اور میں نے بھی، جمعہ تھا اس لیے ان ہی کے پاس بیٹھ کر ابو بھی اور میں بھی سورہ کہف پڑھنے لگا، انھوں نے اپنی پوتی کو بلایا اور اپنا پنچ سورہ اور منزل وغیرہ منگایا، تقریبا آدھا پون گھنٹہ پڑھتی رہیں، پھر بیٹھے بیٹھے نماز پڑھی،
لیکن جمعہ کے بعد سے طبیعت پھر بگڑنے لگی اور بالآخر سنیچر کو پھر اسپتال میں داخل کردی گئیں،دوران بیماری جب ذرا سا افاقہ ہوتا تو سورہ فاتحہ پڑھتیں، کلمہ کا زور زور سے ورد کرتیں، کسی کسی وقت سیدھی لیٹ کر کلمہ کا ورد کرنے لگتیں، درود ابراہیمی پڑھتیں،یہ عمل ۱۵ جولائی کو آئی سی یو میں جانے تک جاری رہا ، آئی سی یو میں جانے کے بعد بالکل خاموشی اختیار کرلی بلکہ اگلے روز سے بالکل ہی بولنا بند کردیا،
یہ بظاہر وہ علامات تھیں جو بڑے خیر اور انکے جنتی ہونے کی بشارت ہیں، الحمد للہ میں میرے بڑے بھائی اور بہن ۳ جولائی سے آخری سانس تک ان کی نظروںکے سامنے رہے، بلکہ پوتے پوتی نواسے نواسی سبھی تھوڑی دورپر گھر میں موجود رہتے تھے، یہ امی کی نیکی اور ان کی سعادت تھی کہ ہم سب ان کی خدمت میں حاضر تھے، قرآن مجید میں سورہ مدثر میں اللہ نے اپنے احسانات شمار کراتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایسی اولادیں نعمت ہیں
جو ہر وقت والدین کے پاس رہیں’’ و بنین شھودا ‘‘ ،اولاد کا ہونا ایک نعمت ہے، اور اولاد کا پاس ہونا، خدمت کے لیے موجود ہونا،نظروں کے نیچے ہونا دوسری بڑی نعمت ہے، آج کے دور میں ضروریات اور مادی سوچ نے اکثر لوگوں کو اس نعمت سے محروم کردیا ہے، لیکن شاید یہ امی کی نیکیوں کا بدلہ تھا کہ ہم سب ان کی نظروں کے نیچے موجود تھے۔
بہر حال بروز سنیچر ۱۷ جولائی ۲۰۲۱ء مطابق ۶ ذی الحجہ ۱۴۴۲ء ۷۳ سال کی عمر میں عصر کے وقت جب ہم سب مسجد میں تھے،تبھی ۵ بجکر ۲۵ منٹ پر انھوں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں،اللہ ان کی مغفرت فرمائے، اعلیٰ علیین میں جگہ نصیب فرمائے،وہ کیا گئیں کہ رشتوں کے سبق پھیکے لگنے لگے، محبت کے لفظ سے نفرت ہونے لگی، دنیا سونی سونی لگنے لگی، وہ معصوم سے بول سننے کو کان ترسنے لگے، جانا تو سب کو ہے بس امی پہلے چلی گئیں،اللہ انھیں غریق رحمت فرمائے،آسماںان کی لحد پر شبنم افشانی کرے، خدا ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے ؎
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ’’ ماں‘‘ رہنے دیا
اگلے دن صبح ۱۸ جولائی کو ۸بجے تدفین ہوئی،موسم رات سے ہی برسات کا بنا ہوا تھا،صبح فجر کے بعد سے ہی بارش شروع ہوگئی، وقت بہت گذر چکا تھا،اصولََا تدفین جلد سے جلد کرنا چاہیے مگر دیہات اور رات کے سبب صبح تدفین رکھی گئی تھی،اب بارش کے سبب مزید انتظار مشکل تھا،
بہت سے لوگ آنا چاہتے تھے لیکن نہیں آسکے، البتہ مسلسل بارش کے باوجود بھی اچھا خاصا مجمع اکھٹا ہوگیا جسکی اس موسم میں توقع نہ تھی ،یہ بھی اللہ کا اپنی کمزور اور نیک بندی پر فضل و کرم ہی تھا، بالآخر کنکپاتے ہونٹوں سے تکبیر کہی، نماز ادا کی اور دنیا کی سب سے بڑی نعمت اپنے سب سے بڑے سرمایے اور سب سے مقدس ہستی کو منوں مٹی کے نیچے دبا آئے، یہ بھی میرے لیے عجیب تجربہ تھا زندگی میں پہلی بار کسی کو قبر میں اتارنے کا اتفاق ہوا، وہ بھی ماں کو،
جی چاہتا تھا کہ پھرگود میں سر رکھ دوں چمٹ جاؤں، مگر آہ! حکم ربی کے آگے مجبور تھا، جب میرے بیٹے کا انتقال ہوا تھا تو اس کو غسل دینے اور قبر میں اتارنے کی ہمت نہ ہوئی تھی، مگر ماں کی یہ آخری خدمت مجھے یہ ہمت بھی دے گئی۔
میرے بہت سے احباب ، دوستوں متعلقین اور بزرگوں نے فون کیا ،تعزیتی پیغام بھیجے ،خطوط لکھے، دعا و صدقات کا اہتمام کیا، بعض ایسے لوگوں نے فون کرکے دعا کرنے، ایصال ثواب کرنے اور صدقہ کرنے کی اطلاع دی جنھیں میں جانتا تک نہ تھا، ایسے بزرگوں نے تعزیت کی جسکی مجھے توقع نہ تھی،
بعض انتہائی محترم و مکرم حضرات تدفین کے بعد کئی دنوں تک تعزیت کے تشریف لاتے رہے اللہ سب کو اپنے شایان شان بدلہ عطا فرمائے،سب کی عمروں میں برکت عطا فرمائے اور صحت و عافیت کے ساتھ تا دیر سلامت رکھے، تعزیتی کالز و پیغامات کے دوران میرے ایک کرم فرما ڈاکٹر عبید اقبال عاصم صاحب کا علی گڑھ سے فون آیا،وہ دار العلوم دیوبندکے فاضل ہیں،علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں امام تھے،دوران گفتگو میں نے بارش کے دوران تدفین کا تذکرہ کیا، کہنے لگے صاحب میں نے کہیں پڑھا بھی ہے لیکن مجھے یاد نہیں کہ کہاں پڑھا ہے،
البتہ سینہ بہ سینہ سنا ہے اور ہمارے دیوبند میں بہت مشہور ہے اور بہت اچھا سمجھا جاتا ہے کہ جنازہ کا بارش بھیگتے جانا مغفرت کی بشارت ہے،میں نے اپنے مزاج کے مطابق جواب دیا کہ ڈاکٹر صاحب بارش اگر عذاب اور نقصان کے لیے نہ ہو تو یقینا وہ باران رحمت کہلاتی ہے، اور اِس وقت کی بارش واقعی رحمت کی بارش ہے،
فصلوں کے لیے مفید ہے، لیکن آپ کی یہ بات تحقیق طلب ہے کہ یہ مغفرت کی بشارت ہے، خیر میں نے اپنے کئی دوستوں سے تحقیق کے لیے کہا، ایک دوست نے بتایا کہ یہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کا ملفوظ ہے، دوسرے دوست نے بتایا کہ یہ ساتویں صدی ہجری کے ایک شافعی بزرگ کا قول ہے، لیکن یہ عقدہ خود مجھ پر سورہ نوح کی تفسیر کے دوران کھلا کہ جس کا بھی قول ہو یہ خود قرآن مجید سے مستفاد ہے،
دراصل سورہ ہود کی آیت نمبر۵۲ میں یہی مضمون میں آیا ہے اور سورہ نوح میں یوں آیا ہے،’’ فقلت استغفروا ربکم انہ کان غفارا، یرسل السماء علیکم مدرارا ‘‘ (نوح؛۱۰تا۱۲)یعنی حضرت نوح نے اپنی قوم کو استغفار کی تلقین کی اور اس کے نتیجے میں ملنے والے انعامات کا ذکر کیا کہ استغفار کرو اللہ تم پر خوب بارشیں نازل فرمائے گا تمہارے مال و اولاد میں اضافہ فرمائے گا،
مفسرین نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ چونکہ گناہوں کے سبب بارش رک جاتی ہے، اور استغفار چاہنے اور مغفرت طلب کرنے والوں پر بارش برستی ہے یہی وجہ ہے کہ بارش آثارِ رحمت میں سے ہے، حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک مرتبہ صلوۃ استسقاء پڑھائی (بارش کے لیے خاص نماز )آپ نے ایک بار بھی بارش کے لیے دعا نہ کی صرف مغفرت کی دعا کی، کسی نے پوچھا امیر المومنین آپ نے بارش کی تو دعا کی نہیں ،تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں نے مغفرت مانگی، یہی اصل چیز ہے اگر خدا معاف کردے گا تو اسکی رحمت بھی نازل ہوگی،
یوں بھی بارش برکت و رحمت کی علامت ہے، شارحین حدیث نے اس کی صراحت کی ہے، مسلم کی ایک روایت کی بنا پر بعض علماء نے بارش میں اپنا سریا جسم کا بعض حصہ بھگونے کو مستحب لکھا ہے، صحیح مسلم میں حضرت انسؓ کی روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ساتھ تھے اسی دوران بارش ہونے لگی،آپ نکلے اور سر کھول دیا حتیٰ کہ اس پر بارش کا پانی پڑا، پوچھا گیا یا رسول اللہ ایسا کیوں کیا؟
فرمایا اس لیے کہ یہ تازہ تازہ اپنے رب کے پاس سے آئی ہے،ایسی اور بھی روایات ہیں ،اس کے ضمن میں شارحین نے تفصیل سے گفتگو کی ہے، رسول اللہ ﷺبارش سے برکت حاصل کرتے تھے، اپنے پاؤں یا جسم کے اور حصوں پر پانی ڈالتے تھے ، بعض نے لکھا ہے کہ آپ بارش کا کچھ صاف پانی لے کر پیتے تھے،بعض نے اس جملہ کا یہ مطلب لکھا ہے ’’کہ اپنے رب کے پاس سے تازہ تازہ آئی ہے یعنی اپنے رب کی رحمت کا بالکل تازہ مظہر ہے‘‘،
بہر حال قرآن کی ان تفصیلات کی روشنی میں مجھے یہ یقین کامل ہوگیا کہ وہ بارش خیر و برکت کی علامت تھی، وہ خدا کی رحمت تھی جو خدانے اپنی نیک بندی پر نازل کی، خدا کی رحمت تو مغفرت کے بہانے ڈھونڈھتی ہے،یوں بھی میری سیدھی سادی امی نیک سیرت خاتون تھیں، ان کی دنیا اتنی محدود تھی کہ کبائر کا امکان ہی نہ تھا، اور بالآخر مرض الموت میں اور انتقال کے بعد جو علامات ظاہر ہوئیں، وہ واقعی بشارت ہیں،
مجھے خدا کی رحمت سے امیدِ قوی ہے کہ خدائے رحمن و رحیم نے اپنی کمزور بندی کو مغفرت کا پروانہ دے دیا ہوگا، اپنے دامن رحمت میں جگہ دی ہوگی، ان کی روح علیین میں جنت کے مزے لے رہی ہوگی، سانس کی تکلیف نے برا حال کردیا تھا لیکن جیسے ہی سانس رکی تو ایسا لگا کہ چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی ،دیکھنے والے کہتے تھے کہ جیسے لگ رہا ہے اب مسکرائیں تب مسکرائیں، اللہ انھیں اپنے دامن رحمت میں جگہ دے، عفو و درگذر کا معاملہ فرمائے،
بال بال مغفرت فرمائے، مجھے ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جانے کی توفیق عطا فرمائے، جنت میں ان کے ساتھ انبیاء و صدیقین اور اولیاء و شہداء کی معیت میں جمع فرمائے،اللہ تعالیٰ ابّو کو خاص طور پر صبر عطا فرمائے،سکون و قرار نصیب فرمائے، صحت و عافیت و سلامتی نصیب فرمائے،طویل عمر عطا فرمائے،اولادوں کو قرآن کی یہی تعلیم ہے کہ وہ کثرت سے یہ دعا کیا کریں۔’’رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا ‘‘خدایا دونوں پر ویسے ہی رحم فرما جیسے بچپن میں دونوں مجھے پالتے پوستے تھے،خود مشقتیں جھیلتے تھے مگر مجھ پر ترس کھاتے تھے اور مجھے تکلیفوں سے بچاتے تھے ، اے اللہ میری مرحومہ والدہ کی قبر کو نور سے منور فرمادے اسے’’ روض من ریاض الجنۃ ‘‘ بنا دے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
_____________________
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتطار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا
اللھم اغفرلھا وارحمھا وعافھا واعف عنھا
وادخلھاالفردوس الأعلیٰ یا أرحم الراحمین۔آمین یا رب العلمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں