دار السلام عمر آباد میں استقبالیہ
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
وانم باڑی ( تامل ناڈو) میں فجر کے بعد علماء کا پروگرام طے تھا _ اس کے بعد اجتماعی ناشتہ ہوا _ پھر وہاں کا قدیم اسلامیہ کالج دیکھنے گئے _ یہ کالج ایک صدی سے زیادہ عرصے سے خدمت انجام دے رہا ہے _ ابتدائی ، ثانوی ، متوسط ، بوائز کالج ، ویمنس کالج اور دیگر اداروں سے دس ہزار طلبہ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں _ ذمے داروں کی خواہش پر وہاں اساتذہ سے خطاب کیا _
تحریکی خواتین سے خطاب کا پروگرام دوپہر تین بجے طے تھا _ درمیانی وقت کو استعمال کرنے کے لیے مناسب معلوم ہوا کہ جامعہ دار السلام کی زیارت کرلی جائے _ ذمے داروں کو میری آمد کی اطلاع ملی تو انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور اساتذہ اور منتہی درجات کے طلبہ کے سامنے میرا خطاب طے کردیا _
جامعہ دار السلام عمر آباد جنوبی ہند کا بہت قدیم ادارہ ہے _ میرے مربّی و مشفق مولانا سید جلال الدین عمری اسی ادارے سے فارغ ہیں _ ایک بار ان کے ساتھ جامعہ کی زیارت کی تھی _ اس کے بعد بھی کئی بار وہاں حاضری ہوئی ہے _ وہاں کے متعدد اساتذہ سے قریبی روابط ہیں _ اس کے ترجمان ماہ نامہ 'راہِ اعتدال' میں وقتاً فوقتاً میرے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں _
یوں تو جامعہ کے ذمے داران اہلِ حدیث مسلک کے ہیں ، لیکن ان میں ذرا بھی عصبیت نہیں _ وہ تمام مسالکِ فقہ کا اہتمام کرتے اور بڑا توسّع رکھتے ہیں _ وہاں کے استاد مولانا عبد اللہ جولم شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند کے موقّر رکن ہیں _
مولانا ارشاد احمد عمری اور جناب طفیل احمد امیر مقامی جماعت اسلامی ہند وانم باڑی کے ساتھ 11 بجے ہم جامعہ پہنچے تو وہاں ناظمِ جامعہ جناب کاکا سعید احمد اور ان کے معاون جناب کاکا انیس احمد کو منتظر پایا _ ان کے اشارے پر ذرا دیر میں جامعہ کی مرکزی عمارت کے بڑے ہال میں تمام اساتذہ اور سینیر طلبہ جمع ہوگئے _
تلاوت کے بعد مولانا محمد رفیع کلّوری معاون مدیر راہ اعتدال نے میرا تعارف کرایا _ مجھے بہت شرمندگی ہوئی کہ انھوں نے میرے سامنے ہی میری تعریف و تحسین میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے _ میں نے کہا کہ کسی مہمان کی آمد پر اس کی خاطر داری میں کھانے پینے کی اچھی اچھی چیزیں پیش کی جاتی ہیں _ اب خاطر داری کی یہ شکل بھی اختیار کی جانے لگی ہے کہ اچھے اچھے توصیفی جملوں سے اس کی تواضع کی جائے _
اپنے خطاب میں میں نے کہا کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کو عالمی اور ملکی دونوں سطحوں پر متعدد چیلنجز درپیش ہیں _ ان میں سب سے اہم فکری میدان کا چیلنج ہے _ اسلامی معتقدات ، أساسیات ، تہذیب و معاشرت ، خاندان سبِ معرضِ خطر میں ہے _ ضرورت ہے کہ جو بے جا اعتراضات کیے جا رہے ہیں ان کا جواب دیا جائے ، جو غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں ان کا ازالہ کیا جائے اور اسلام کی صحیح تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے _ ساتھ ہی اس کی ضرورت ہے کہ اِس زمانے میں انسانیت کو جو مسائل درپیش ہیں ، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا جائے _ میں نے کہا کہ مسلکی عصبیت کے دور میں جامعہ دار السلام نے جس توسّع اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ تحسین اور لائقِ ستائش ہے _ میں نے کہا کہ جامعہ دار السلام کے فارغین پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اہم دینی ، علمی ، سماجی اور رفاہی خدمات انجام دے رہیں _ وہ اصلاحِ معاشرہ اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں نمایاں کام کرسکتے ہیں _
مولانا رفیع کلّوری نے اس پروگرام کو 'استقبالیہ' کا نام دیا _ انھوں نے کہا : ” جب کوئی بڑی شخصیت اس علاقے میں آتی ہے تو جامعہ کی طرف سے اسے استقبالیہ دیا ہے _ یہ پروگرام بھی اس کی ایک کڑی ہے _ “ میں کیا اور میری شخصیت کیا ، لیکن ذمے دارانِ جامعہ نے اس پروگرام کے ذریعے میری عزّت افزائی کرکے اپنے بڑکپن کا ثبوت دیا ہے _ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کرے اور جامعہ کو دن دونی رات چوگنی ترقی دے _
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں