نوجوان علماء اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کیسے کریں؟
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
مجلس العلماء تحریک اسلامی ہند ، حلقہ کرناٹک کے تحت نوجوان علماء کی دو روزہ تربیتی کارگاہ میں شرکت میرے لیے ایک خوش گوار موقع تھا _ ان کے درمیان رہ کر ، متعیّن موضوعات پر ان کے سامنے اظہارِ خیال کرکے اور ان کے تاثرات اور عزائم سن کر بہت اچھا لگا اور ان سے بہت امیدیں وابستہ ہوئیں _
جماعت اسلامی ہند جن میدانوں میں سرگرمِ عمل ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مختلف مکاتبِ فکر کے علمائے کرام سے قریبی روابط پیدا کیے جائیں اور انہیں اصلاحِ معاشرہ کے لیے اجتماعی جدّوجہد پر آمادہ کیا جائے _ اس کے لیے ملک کی تمام ریاستوں میں مختلف ناموں سے علماء کی جمعیتیں قائم ہیں _ کرناٹک کی مجلس العلماء ان میں سے ایک ہے _ مولانا وحید الدین خاں عمری ، سکریٹری شعبۂ اسلامی معاشرہ و ناظم جامعۃ الطیبات بنگلور نے یہ اطلاع دیتے ہوئے کہ وہ ریاست کے نوجوان علماء (جن کی عمر 30 برس سے کم ہے ) کا ایک پروگرام کر رہے ہیں ، خواہش کی کہ میں اس میں شرکت کروں ، بلکہ دو دن ان کے ساتھ گزاروں _ ان کی خواہش کی تعمیل کرتے ہوئے میں نے اس اجتماع میں شرکت کی _
افتتاحی اجلاس کا آغاز مولانا عبید اللہ عمری مدنی کی تذکیر بالقرآن سے ہوا _ پھر مولانا وحید الدین خاں نے مجلس العلماء کے اہداف و مقاصد اور اجتماع کی غرض و غایت بیان کی _ اس کے بعد میں نے ' فارغینِ مدارس کے لیے مستقبل کا لائحۂ عمل' کے عنوان پر خطاب کیا _ میری گفتگو درج ذیل نکات پر مشتمل تھی :
1_ دینی علوم میں اختصاص کے ساتھ معاون دنیاوی علوم بھی حاصل کریں :
علماء کا تعارف دینی علوم کے حوالے سے ہے _ ان میں انہیں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے _ اس کے ساتھ ہی وہ معاون علوم میں بھی دست رس حاصل کرنے کی سعی کریں _ ملک میں بہت سی یونی ورسٹیوں نے اپنے دروازے فارغینِ مدارس کے لیے کھول رکھے ہیں ، ان میں اپنی دل چسپی کے کورسز میں داخلہ لیں _
بہت سے ادارے افتاء ، قضا ، تقابلِ ادیان اور دیگر تخصصات کے کورسز چلاتے ہیں ، ان سے استفادہ کریں _ بہت سے ادارے انگریزی اور فارن لینگویجز سکھاتے ہیں _ ان سے فائدہ اٹھائیں _
2_ اپنی معاش کو بہتر بنانے کی کوشش کریں :
ہمارے روایتی طبقے میں مال و دولت کو ناپسندیدہ چیز سمجھا جاتا ہے اور فقر کی فضیلت بیان کی جاتی ہے _ حالاں کہ یہ درست رویّہ نہیں ہے _ مال کو قرآن مجید میں ' الّتِی جَعَلَ اللّہ لَکُم قِیَاماً ' ( قیامِ زندگی کا ذریعہ) کہا گیا ہے _ (النساء : 5) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے : نعم المال الصالح للعبد الصالح (الأدب المفرد للبخاری : 299) " وہ مال کتنا اچھا ہے جو اللہ کے نیک بندے کے پاس ہو _" علماء کو چاہیے کہ وہ اپنی معاش کو بہتر بنانے کے لیے کوشش کریں _ اس کے لیے وہ اپنے اندر مختلف صلاحیتیں (Skills) پیدا کرسکتے ہیں _ موجودہ دور میں ترجمہ کی فنّی مہارت سے کافی مالی کشادگی حاصل کی جاسکتی ہے _ بعض روایات میں ہے کہ تجارت میں اللہ تعالیٰ نے روزی کا نوّے فی صد (90%) حصہ رکھا ہے _ علماء تجارت کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا سکتے ہیں _
3_ اپنا وقار بلند کریں :
مختلف اسباب سے سماج میں طبقۂ علماء کو جو قدر و منزلت حاصل ہونی چاہیے اس سے وہ بہرہ ور نہیں ہیں _ وہ کچھ کوشش کرکے اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکتے ہیں _ اس کے لیے وہ صرف ایک کام کرلیں _ اپنی ذات کو نافع بنائیں _ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں اور اسے عزّت دیتے ہیں جس سے انہیں کسی طرح کا فائدہ حاصل ہو _ قرآن مجید نے یہ اصول بیان کیا ہے :
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذۡهَبُ جُفَآءً ۚ وَاَمَّا مَا يَنۡفَعُ النَّاسَ فَيَمۡكُثُ فِى الۡاَرۡضِؕ (الرعد :17)
" جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے ۔"
4_ مسلکی اختلافات سے دامن کش ہوجائیں :
ایک زمانے میں مسلکی اختلافات نے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کر رکھا تھا اور افسوس کہ اس کا سبب علماء تھے _ مسلک کے نام پر خوب جنگ و جدال کا بازار گرم رہا _ مسجدیں الگ کرلی گئیں ، دوسرے مسلک والے کو اپنی مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا اور دوسرے مسلک والے امام کے پیچھے نماز کو فاسد قرار دیا گیا _ حالاں کہ مسالک کا اختلاف حق و باطل کا اختلاف نہیں ، بلکہ زیادہ سے زیادہ افضل و غیر افضل کا اختلاف ہوسکتا ہے _ یہ بنیادی نہیں ، بلکہ فروعی اختلاف ہے _ اس لیے علماء کو چاہیے کہ اب مسالک کے درمیان اختلافات کو بالکل نظر انداز کردیں _
5_ اصلاح معاشرہ کا مشن اختیار کریں :
امت مسلمہ کا مشن امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، شہادتِ حق اور اقامتِ دین ہے _ دوسرے الفاظ میں اسے کسی درجے میں اصلاحِ معاشرہ کا کام بھی کہا جاسکتا ہے _ یوں تو یہ پوری امت کی ذمے داری ہے ، لیکن علماء اسے بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں _ ان کے پاس دین کا براہِ راست علم ہے اور عوام بھی ان پر اعتماد کرتے اور ان کی باتیں سنتے ہیں _ اس لیے ضروری ہے کہ علماء دین کی تبلیغ و اشاعت کی اجتماعی جدّوجہد کریں _
اس تربیتی کارگاہ میں پوری ریاست کرناٹک سے 75 سے زائد نوجوان علماء شریک ہوئے ہیں _ ان کا تعلق مختلف دینی مدارس سے ہے _ اجتماع میں دینی و عصری موضوعات پر تقاریر اور ڈسکشنس رکھے گئے ہیں _ مناسب ہوگا کہ ایسے اجتماعات ملک کی تمام ریاستوں میں منعقد کرنے کی کوشش کی جائے _ اس سے علماء کو تحریک سے قریب کیا جاسکے گا اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا _
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں