میراث مسلسل توجہ اور پیار مانگتی ہے
وسعت اللہ خان
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
جب بھی ماسٹر عبدالطیف اقبال کی شہرہ آفاق نظم ‘خطاب بہ جوانانِ اسلام’ کا ایک ایک شعر زینہ بہ زینہ پڑھتے پڑھتے اس شعر پر آتے تو ان کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں اور ہم بچوں پر بھی افسردگی چھا جاتی۔ ماسٹر لطیف کچھ دیر بعد سنبھلتے ہوئے رندھی آواز میں کہتے ‘بچو آج اتنا ہی، کل یہیں سے شروع کریں گے۔ مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی، جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل۔۔۔ ‘
صدی بھر پہلے لکھی جانے والی یہ نظم یقیناً سننے اور سنانے والے کو اور جذباتی کر دیتی ہوگی کیونکہ پوری مسلمان دنیا مغرب کے نوآبادیاتی شکنجے میں تھی۔ لیکن آج یہ نظم محض طاق میں دھرے دیے جیسی لگتی ہے۔ تعجب ہے میونخ اور ہائیڈل برگ سے فلسفہ کشید کرنے والے اقبال کو بالکل خوشی نہیں ہوئی کہ مسلمانوں کا علمی خزانہ یورپ میں کم ازکم محفوظ اور ہر علم جو کی دسترس میں تو ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے یونانی علوم کو عباسی بغداد میں مسلمانوں نے گلے لگایا تھا۔ اگر بارہ سو برس پہلے یہ خزانہ پاپائیت کی تاریکی سے منور یورپ کے نہاں خانوں سے نہ نکالا جاتا تو آج ارسطو، افلاطون اور سقراط کو یورپ میں بھی کتنے جانتے؟
ایسی اقوام کو تو سلام کرنا بنتا ہے جو کتابیں یا تہذیبی شہہ پارے جلانے یا دریا برد کرنے کے بجائے انہیں لوٹ لیں اور پھر اپنے ہاں محفوظ کرلیں۔ جو علمی خزانہ آج برٹش میوزیم، برٹش لائبریری، انڈیا آفس لائبریری اور یورپی دارالحکومتوں میں ہے۔
اگر مغرب اسے لوٹ کے نہ لے جاتا تو شاید آدھی نادر کتابوں میں پکوڑے بندھ چکے ہوتے، آدھی فٹ پاتھ پر ہوتیں۔ اور معدودے چند سرکاری لائبریریوں میں بھی ہوتیں تو دیمک اور مکڑیوں کے پہرے میں۔ کم ازکم اب یہ تو ہے کہ کوئی بھی علم کا پیاسا یورپ کی کسی بھی لائبریری یا میوزیم میں محفوظ اپنے اجدادی ورثے کی زیارت کر سکتا ہے، اپنے علمی شجرے کو چھو سکتا ہے۔
کاش بامیان کے دو بدھا بھی انگریز ہی لے جاتے، کابل اور بغداد کے عجائب گھر، موصل کے نینوائی کھنڈرات کے پہرے دار سینکڑوں ٹن وزنی ہزاروں برس پرانے سنگی مجسمے اور ٹمبکٹو کے ہزار برس پرانے مسلمان کتب خانے اور مکہ اور مدینہ میں جدید ہوٹلوں تلے کچلے جانے والے مقدس آثار بھی لے جاتے۔ کم ازکم آئندہ نسلیں انہیں دیکھ تو پاتیں۔
کاش موصل کی آٹھ سو برس پرانی مسجدِ نوری جھکے ہوئے مینار سمیت برلن، پیرس یا لندن منتقل ہو جاتی اور کوئی حضرت یونس علیہ سلام کا مرقد اور امام موسیٰ کاظم کا روضہ اور پالیرمو کا رومن اکھاڑہ بھی ڈائنامائیٹ بندھنے سے پہلے گٹھڑی میں باندھ کے لے جاتا۔
ہلاکو نے تو محض چند شہر اور کتب خانے جلائے، پچھلے دس بیس برس میں تو تاریخ ہی اڑا دی گئی۔ مگر صرف طالبان، داعش یا بوکو حرام کو کوسنے سے کیا ہوگا؟
کیا بڑے میاں کے مرنے کے تیسرے ہی دن زندگی بھر ورق ورق جمع کردہ ان کا کتب خانہ فٹ پاتھی کباڑیوں کو چند ہزار رپلی میں فروخت کردینے والی پڑھی لکھی اولاد کسی ہلاکو سے کم ہے؟ کیا میوزیم میں اصلی مجسموں کو جعلی بدھا اور دو نمبر گندھارا تہذیب سے بدلنے والے ثقافتی ڈاکو کسی بوکو حرام سے پیچھے ہیں؟
کاش جان مارشل اور مورٹیمر وھیلر ہڑپا اور موہنجو دڑو بھی لندن بھجوا دیتے۔ کم ازکم ان کے آثار پر فصلیں تو نہ لہلہلاتیں، سٹوپا کی چوٹی تک لونڈے شرط باندھ کے موٹر سائیکل کی ون ویلنگ تو نہ کرتے۔ شکر ہے نوے فیصد موہن جو دڑو اور ہڑپا ابھی زیرِ زمین ہیں۔
جو قوم ہزار روپے کا چکن تکہ پانچ سو روپے کی کتاب سے زیادہ سستا سمجھے، جہاں کتابوں کی دکانیں گیراجوں میں بدل رہی ہوں، جہاں بوریوں میں بند سرکاری دستاویزات کو زوار زیدی جیسا کوئی تنہا پاگل سیکریٹریٹ کی چھت سے خود پیسے دے کر اتروا کے جناح پیپرز کی شکل دے اور پروجیکٹ ختم ہوتے ہی اس کا سامان گھر سے نکال کے فٹ پاتھ پر رکھ دیا جائے۔ ایسے سماج کو جہالت ہی راس آتی ہے۔
میراث مسلسل توجہ اور پیار مانگتی ہے۔ تہذیبی نامردوں کے ساتھ اس کا گزارہ تادیر ممکن نہیں؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں