آخری صحابیؓ۔
صحابہؓ میں سب سے آخر میں جس شخص نے وصال کیا ان کا نام حضرت ابوطفیل ؓ ایک سو دس ہجری میں حضور ﷺ کے وصال ایک سو سال تک زندہ رہے ۔ حج کا موسم تھا، ایک ہجوم میں آ گئے اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر کے کہا، لوگو! آؤ اس وقت روئے زمین پر میرے علاوہ کوئی نہیں جس نے حضور ﷺ کا دیدار کیا ہو۔ پھر لوگوں کا کیا پیار کیا ہو گا۔ تم نے حضور ﷺ کو دیکھا ہے تو حضور ﷺ کا چہرہ کیسا تھا، حضور ﷺ کی آنکھیں کیسی تھیں، زلفیں کیسی تھیں، ہامین کی کندل کیسی تھی؟
ابوطفیل ؓ نے تین لفظوں میں حضور ﷺ کا حلیہ بیان کیا ۔ علماء نے لکھا ہے جو شخص حضور ﷺ کا حلیہ بیان کریں لوگوں کے دل میں اسکے لیے جگہ بن جاتی ہے ۔ایک تو بہت سفید رنگ کے تھے، حُسن نمکین تھا، ہر معاملے میں متوازن تھا ۔ قد ایسا کہ نہ پست کہا جائے نہ بہت لمبا کہا جائے، حضور ﷺ درمیانی قد و قامت کے مالک تھے ۔
لیکن ایک شان آپ ﷺ کو اللہ تعالٰی نے دی تھی کہ لمبے لمبے قد والے صحابی بھی تھے ۔ حضور کا قد لمبا نہیں تھا درمیانہ تھا۔ جب حضور ﷺ آتے تو دس ہزار کا مجمع بھی ہوتا تو حضور ﷺ کے کندھے سروں سے اونچے دیکھائی دیتے ۔ یہ اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب کو شان دی تھی ۔ حضور ﷺ کا حسن نمکین تھا ۔احسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں حضور ﷺ کے جمال کو دیکھتا تو آنکھوں پر انگلیاں رکھ کر انگلیوں کی اوٹ سے دیکھتا ۔ حضور ﷺ کے جلوں کی چمک سے میری آنکھوں کی بینائی نہ جاتی رہے ۔
حُسنِ یوسفؑ پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردان عرب۔
ہمارے پیارے نبی، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی محبّت ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے، جس کے بغیر ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا۔ سورۃ التوبہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ’’اے نبی ﷺ فرما دیجئے ! اگر تمہارے آباء و اجداد اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال، جو تم کماتے ہو اور وہ تجارت، جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور وہ گھر، جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اُس کے رسول اور اللہ کے رستے میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں، تو اللہ کے عذاب کا انتظار کرو اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے، ’’تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ مَیں اُسے اُس کے والدین، اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔‘‘
بلاشبہ، آپؐ کی ذات ہی سب سے بڑھ کر محبّت کیے جانے کے قابل ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اداؤں کو قرآنِ پاک کا حصّہ بنا دیا۔ آپ ﷺ کے چہرے کا آسمان کی طرف اُٹھنا، آپ ﷺ کا کلام، آپؐ کے شہر، جنگیں اور فتوحات، قیام الیل، دعوت و تبلیغ ، معراج، آپ ﷺ کے صحابہؓ، آپ ﷺ کی ازواجؓ، اہلِ بیتؓ، آپؐ کی ہجرت، اخلاق غرض پوری زندگی قرآن نے بیان کر دی۔ کہیں آپؐ کی رضا میں اللہ کی رضا بتائی گئی۔ اگر آپؐ چادر لپیٹ لیں، تو اللہ پاک ’’یا ایّھا المزّمّل،‘‘ اور ’’یا ایھا المدّثر‘‘ کہہ کر مخاطب کرے، کفّار کے طعنوں پر’’ اِنا اعطیناک الکوثر‘‘ کی خوش خبری سُنائے۔
کہیں شاہد، کہیں مبشر، تو کہیں نذیر پکارا گیا۔ سراجِ منیر، رؤف الرّحیم جیسے القابات سے نوازا گیا۔ اللہ کو تو یہ بھی پسند نہیں کہ کوئی اُس کے محبوبؐ کے سامنے بلند آواز سے بات کرے۔ اُنھیں روزِ محشر شفاعت کرنے والا بنایا گیا، ساقیٔ کوثر اور مقامِ محمود سے نوازا گیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں