قدرت کے کارخانے میں ایسے حشرات اور کیڑے مکوڑے موجود ہیں جن کا کاٹا انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے اور اس کا کرب مدتوں یاد رہتا ہے
آسٹریلیا میں پایا جانے والا بظاہر عام سا پودا "جمپی جمپی” اگر بدن سے چھوجائے تو ایک ہی وقت میں بجلی کے جھٹکے، تیزاب اور گرم پانی سے جلنے جیسی تکلیف ہوتی ہے اور اکثر اوقات اپنے چھونے والے کو خودکشی کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
یہ بات ہے 1866 کی جب Quensland میں روڈ سروئر کی ڈیوٹی پر تعینات میکسملین کا گھوڑا اس پودے کے ساتھ جا لگا۔ گھوڑے کا پودے کے ساتھ لگنا تھا کہ اس پر درد کی شدت سے پاگل پن جیسے دورے پڑنے لگے اور گھوڑا 2 گھنٹوں میں ہی مر گیا۔ یہ بات میکسمیلن نے اپنے افسر کو رپورٹ کی ۔وہاں کے مقامی لوگوں سے پوچھ تاج کی گئی تو یہ ظاہر ہوا کہ ایسا کئی بار انکے گھوڑوں اور مال مویشیوں کے ساتھ بھئ ہوا ہے، کئی گھوڑے ایسے بھی تھے کہ انہوں نے پہاڑ کی چوٹیوں پر چھڑ کر خودکشی کر لی ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کی لئے ٹریننگ کے دوران ایک فوجی جمپی جمپی پودے سے جا لگا، کچھ منٹوں میں وہ درد سے کراہنے لگا اور اسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں ڈاکٹروں کے انتھک محنت کے باوجود بھی اس کا درد کم نہ ہوا،ٹریننگ کے دوران ایک اور فوجی افسر بھی اسی پودے کے ساتھ
لگ گیا اور درد کی شدت سے چھٹکارا پانے کے لئے خود کو گولی مار دی۔ درد کی شدت کئی مہینوں اور بعض اوقات سالوں تک ہوتی ہے۔
اس پودے کا حیاتیاتی نام ” ڈینڈرو سنائیڈ موریو ڈیس” ہے جو آسٹریلیا کے جنوبی ویلز میں عام پایا جاتا ہے۔ اس کے پتے دل کی شکل کے اور پھل خوبصورت بنفشی رنگ کے ہوتے ہیں۔ بظاہر بے ضرر لگنے والے اس پودے کے پتوں پر بہت باریک بال نما ابھار ہوتے ہیں جو سوئیوں کی طرح سخت ہوتے ہیں۔
یہ سوئیاں چمڑے کے ساتھ لگتے ہی اپنے اندر موجود نیوروٹوکسن خارج کرتی ہے جس سے درد جلن اور بجلی کے جھٹکوں جیسی تکلیفات ہونے لگتی ہے۔یہ پودا اتنا خطرناک ہے کہ اگر بغیر ماسک پہنے اس کے نزدیک کچھ دیر کے لیے کوئی کھڑا ہو جائے تو اس پودے سے خارج ہونے والے نیورو ٹوکسن ناک سے خون بہنے کے سبب بنتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں