ہفتہ واری تبصرہ
از: آفتاب اظہر صدیقی. گذشتہ ہفتے میں مرکزی سرکار کی طرف سے جاری کیے گئے اگنی پتھ منصوبے کی اسٹوڈنٹس نے جم کر مخالفت کی، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی طرف سے ”اگنی پتھ یوجنا“ کا اعلان آتے ہی فوج کی تیاری کر رہے لاکھوں طلبہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، دیکھتے ہی دیکھتے ان کا غصہ احتجاج میں بدل گیا اور سب کی آنکھوں کے سامنے یہ احتجاج فساد میں تبدیل ہوگیا، گودی میڈیا کے لوگ اپنے چینلوں پر کیپشن چلا رہے تھے کہ جمعہ آرہا ہے ہوشیار رہیں، ”پتھر باز ہوشیاربلڈوزر ہے تیار“ لیکن ان ہی گودی میڈیا چینل والوں نے دیکھا کہ جمعہ آیا تو تمام مسلمانوں نے سکون و اطمینان کے ساتھ نماز جمعہ ادا کی؛ لیکن وہیں دوسری طرف اگنی پتھ یوجنا کی مخالفت کرنے والوں نے متشدد ہوکر احتجاج کیا،
ٹرینوں میں آگ لگائی، بسوں کو نذر آتش کیا، کروڑوں کی سرکاری پراپرٹی کا نقصان کیا،اس کے باوجود ان لوگوں کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، نہ ان کے گھروں پر بلڈوزر چلا، نہ ان کے پوسٹر شائع ہوئے، نہ انہیں پتھرباز کہا گیا، بلکہ ورانسی کے سی پی نے کہا کہ اگنی پتھ یوجنا کے خلاف احتجاج کرنے والے اپنے ہی بچے ہیں، سوال یہ ہے کہ کچھ دن پہلے نوپور شرما اور نوین جندل کی گستاخی کے خلاف احتجاج کرنے والے کس کے بچے تھے؟ جن کو پتھر باز بتاکر گرفتار کیا گیا وہ کس کے بچے تھے؟ جن کے پوسٹر شائع کیے گئے وہ کس کے بچے تھے؟ اور جن کے گھروں پر بلڈوزر چلایا گیا وہ کس کے بچے تھے؟
گودی میڈیا کا دوغلا چہرا دیکھنا ہو تو ”آج تک نیوز چینل“ کے وہ دو ٹویٹس دیکھ لیجیے، جن میں سے ایک میں پر امن احتجاج کرنے والے مسلم لڑکوں کو شر پسند لکھا گیا ہے اور دوسرے میں ٹرین جلانے اور سرکاری جائداد کو نذر آتش کرنے والوں کو ”یوا“ لکھا گیا ہے۔ اشرف حسین نامی ایک سماجی کارکن نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے ”آج تک“ کے ان دونوں ٹویٹس کو منشن کیا ہے۔
ہفتہ دس دن کے اندر ہمیں دو طرح کا احتجاج دیکھنے کو ملا اور سرکار، پرشاسن اور گودی میڈیا کی طرف سے ان دونوں احتجاجوں پردو طرح کا رد عمل بھی۔ پہلا احتجاج مسلمانوں کی طرف سے ہوا جس میں انہوں نے اکثر جگہوں پر پُرامن طریقے سے سڑکوں پر نکل کر اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے گستاخوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، بدلے میں انہیں پتھر باز کہہ کر گرفتار کیا گیا، ان پر سنگین الزامات لگاکر مقدمات درج کیے گئے، انہیں پولیس حراست میں بری طرح پیٹا گیا، ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ ان کے گھروں پر بلڈوزر چلایا گیا، آفرین فاطمہ جس کے والد ماحول کو پر امن بنائے رکھنے کی اپیل کر رہے تھے، ان کو جمعہ کے دن ہوئے احتجاج میں نظر آئے پرتشدد ماحول کا ماسٹر مائنڈ بتاکر ان کی اہلیہ کے گھر کو بلڈوزر سے مسمار کردیا گیا، اس کے علاوہ اترپردیش کے کئی اور اضلاع میں بھی بلڈوزر سے بے قصوروں کے گھر ڈھائے گئے؛
لیکن وہیں جب دوسرا احتجاج شروع ہوا، تو اگنی پتھ کی مخالفت کرنے والے مظاہریننے ٹرینیں جلائیں، اسٹیشنوں میں توڑ پھوڑ کی، بسوں میں آگ لگائی، سرکار کے خلاف گالی گلوج کے ساتھ نعرے بازی کی؛ لیکن سرکار یا انتظامیہ کی طرف سے نہ کسی کو ماسٹر مائنڈ بتایا گیا، نہ کسی بھاجپا نیتا نے پولیس کی طرف سے مار پٹائی کی ویڈیو بناکر ریٹرن گفٹ کے طور پر وائرل کی اور نہ کسی احتجاج کرنے والے کے گھر پر بلڈوزر چلا، سیکولر ملک میں سسٹم کا اس طرح کا متعصبانہ رویہ اسی کی آنکھ سے اوجھل رہ سکتا ہے جس کی آنکھوں میں کچھ چیزیں نظر آنے اور کچھ چیزیں نظر نہ آنے کی بیماری ہو، اس بیماری کو آپ موتیابندکے بجائے میڈیابند بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہم ہر گز اس کے حق میں نہیں ہیں کہ کوئی بھی احتجاج متشدد ہو، بلکہ اس دیش میں سبھی کو اپنے حق کی آواز اٹھانے کا حق ہے؛ لیکن یہ امن پسند لوگوں کا ملک ہے، اپنے حق کی آواز اٹھائیے؛ لیکن ہوش کے ساتھ، امن کے ساتھ، کسی کو نقصان پہنچائے بغیر، ساتھ ہی ہم یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ ہم اگنی پتھ یوجنا کے خلاف احتجاج کر رہے نوجوانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کا مطالبہ ہر گز نہیں کر رہے ہیں؛ بلکہ ہم اس ملک کے سسٹم پر سوال اٹھارہے ہیں کہ الگ الگ مذہب کے لوگوں کے ساتھ الگ الگ معاملہ کیوں؟
اگنی پتھ یوجنا سرکار کی طرف سے چار سال کے لیے فوج میں بھرتی لینے کا ایک منصوبہ ہے جس کے خلاف احتجاج دیکھنے کو مل رہا ہے، احتجاج کرنے والوں کے مطالبات بھی آپ کے سامنے ہیں اور سرکار کی طرف سے دی جانے والی دلیلیں بھی، سرکار کی طرف سے جواب تیار کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسٹوڈنٹس اس یوجنا کو سمجھ نہیں پارہے ہیں، جی ہاں! یہی تو دقت اور پرابلم ہے اس دیش کی جنتا کی کہ یہ سرکار کی اعلی اسکیموں کو سمجھ نہیں پاتی، خاص کر سرکار جن لوگوں کے لیے جو یوجنا اور منصوبہ بناتی ہے وہی لوگ اس یوجنا کو نہیں سمجھ پاتے،
جب سرکار نے اچانک لاک ڈاؤن کردیا اور پورے دیش میں یکایک ہڑکمپ مچ گیا، اپنے گھروں کو لوٹ رہے مزدوروں کی حالت بد سے بدتر ہوگئی، اور اس اچانک لاک ڈاؤن نے نہ جانے کتنوں کی جان لے لی تو اس وقت بھی شاید بہت سے لوگوں کو سرکار کے اچانک لاک ڈاؤن کا فیصلہ سمجھ میں نہیں آیا تھا، بھاجپا سرکار کسانوں کے لیے کسان بل لے کر آئی، اس بل کو کسان ہی نہیں سمجھ پائے اور دھرنے پر بیٹھ گئے، ایک سال بعد خود سرکار کو سمجھ میں آگیا کہ ہم یہ بل کسان بھائیوں کو نہیں سمجھا سکتے تو سرکار کو مجبوراً وہ بل واپس لینے پڑے، اس سے پہلے سرکار کاروباریوں کے لیے جی ایس ٹی بل لائی تو کاروباریوں کو بھی وہ بل سمجھ میں نہیں آیا اور انہوں نے اس کی مخالفت کی، سرکار مسلم خواتین کے لیے ٹرپل طلاق کا بل لائی تو دیش بھر میں کروڑوں خواتین نے احتجاج کرکے اور دستخطی مہم چلاکر ”تین طلاق بل“ کی مخالفت کی یعنی انہیں طلاق بل سمجھ میں نہیں آیا، سرکار نے کشمیر سے 370/ ختم کیا اور کہا کہ اس میں کشمیریوں کے لیے بھلائی ہے؛ لیکن کشمیریوں کو سرکارکا یہ فیصلہ بھی سمجھ میں نہیں آیا اور انہوں نے کشمیر بھر میں احتجاج کرکے ۰۷۳ ہٹائے جانے کی مخالفت کی، سرکار نے سی اے اے کا بل پاس کیا جس کے خلاف ملک بھر میں غیر معینہ دھرنے ہوئے یعنی ملک کے شہریوں کو یہ بل بھی سمجھ میں نہیں آیا،
پرائم منسٹر مودی نے جب ۸/ نومبر ۶۱۰۲ء کو اچانک نوٹ بندی کا اعلان کردیا تھا جس کے سبب پورے دیش میں ایمرجنسی سے بھی برے دن دیکھنے پڑے تھے، کتنے ہی غریبوں کی جانیں گئیں اورلوگ اپنے ہی پیسے کو حاصل کرنے کے لیے کس پریشانی کے دور سے گزرے یہ سب نے دیکھا اسؒؒؒ ؒ وقت بھی کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ عوام کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ سرکار ایسے بل، ایسے قانون، ایسے فیصلے اور ایسے حکم نامے جاری ہی کیوں کرتی ہے جو عوام کی سمجھ سے بالاتر ہوں؛ سرکار کو چاہیے کہ عام فہم بل پاس کرے، سب کی سمجھ میں آنے والے فیصلے جاری کرے جیسے کہ کروڑوں بے روزگار یواؤں کے روزگار کا حکم جاری کرے، مہنگائی کو کم کرنے کا فرمان جاری کرے، گیس سلنڈر گیارہ سو سے چار سو روپے کردے، پیٹرول پچاس روپے فی لیٹر کا حکم جاری کردے، جی ایس ٹی کم سے کم کردے،
گودی میڈیا کو ایڈ دینا بند کردے اور ہندو مسلم کی سیاست کرنے والوں کے خلاف کوئی سخت سے سخت قانون پاس کردے۔ مجھے امید ہے کہ اگر سرکار ایسی یوجنائیں بنائے گی تو دیش کے کسی کونے سے کسی طرح کی کوئی مخالفت دیکھنے کو نہیں ملے گی اور یہ یوجنائیں بہت آسانی سے سب کی سمجھ میں آجائیں گی۔ ہندوستان زندہ باد۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں