تحریر: جاوید اختر بھارتی
تائید و حمایت تو بہت سے معاملات میں دیکھا جاتا ہے اور اسی طرح مخالفت بھی دیکھا جاتا ہے مگر کوئی شخص کسی معاملے میں تائید کررہا ہے تو اس کے پاس وجہ ہوگی اور اس وجہ کو تلاش کرنے میں زیادہ وقت برباد کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہیں زیادہ دماغ پر زور دینے کی کیونکہ جس کو جو پسند ہے اس کی وہ تعریف و توصیف، تائید و حمایت کرتا ہے مگر مخالفت کرنے کی صورت میں وجہ تلاش کرنا بہت مشکل ہے لیکن وجہ کا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ ثبوت کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے، دلائل و شواہد کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے ورنہ گریبان پکڑا جاسکتا ہے اور الٹے خود کٹہرے میں کھڑا بھی ہونا پڑسکتا ہے کیونکہ اس میں الزام تراشی کا معاملہ بھی آسکتا ہے آپسی جھگڑا ہو چاہے سیاسی و سماجی جھگڑا،، جھگڑے کی دو نوعیت ہوتی ہے اور اسی نوعیت کو اختلاف کہتے ہیں/
اب اگر اختلاف برائے تعمیر ہے یا اختلاف برائے اصلاح ہے تب تو ٹھیک ہے کیونکہ یہ دونوں صفتیں ہیں تو خلوص بھی پایا جائیگا اور اگر یہ دونوں صفتیں نہیں ہیں تو پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آپ کا اختلاف سیاسی و نظریاتی نہیں ہے بلکہ ذاتی اختلاف ہے اور ذاتی اختلاف میں بغض و عناد کی بو آتی ہے اس میں انسان نفرت کی بنیاد پر جھوٹے الزامات لگاتا ہے اور مخالفت کرتا ہے آج کے سیاسی ماحول میں نظر دوڑانے پر یہی احساس ہوتا ہے کہ بالخصوص مسلمانوں میں ذات برادری کے نام پر جو اختلافات ہیں اب وہ ذاتی اختلاف کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں اور ایک دوسرے پر حق ماری کا الزام لگاتے ہوئے شدید ترین مخالفت کرتے ہیں مگر متبادل کی تلاش سے کوسوں دور ہیں کوئی شخص اپنا مکان منہدم کرادے اور منہدم کرانے سے پہلے یہ سوچے کہ مکان نیا ہوجائے، عالیشان عمارت بن جائے لیکن اس کے لئے وہ انتظام نہ کرے تو کیا مکان صرف گرا دینے سے عالیشان عمارت تیار ہوسکتی ہے اور بنگلہ بن سکتا ہے؟
نہیں ہرگز نہیں یہ تو وہی حال ہوا کہ کشی چلانے والے سے دشمنی ہے اور ایک ہی کشتی ہے تو ہم دریا کے کنارے کھڑے ہوکر کہیں کہ میں اس کشی پر سوار نہیں ہوسکتا اور تیرنے کا ڈھنگ بھی نہیں ہے پھر بھی یہ کہہ کر دریا میں چھلانگ لگا دینا کہ مجھے اس پار گھاٹ جانا ہے تو آپ کو دریا میں ڈوبنا ہی ڈوبنا ہے،، جبکہ زندہ بھی رہنا ہے، کشتی میں سوار ہوکر دریا کے اس پار یعنی دوسرے کنارے پر بھی جانا ہے تو آپ کو کشتی کے مالک سے صلح کرنی ہوگی اور دشمنی کو صلح میں بدلنی ہوگی نہیں تو پھر آپ دریا کے کنارے کھڑے ہوکر لاکھ کہتے رہیں کہ کشتی میں سوراخ ہوجائے،
کشتی کا مالک ہلاک ہوجائے یاد رکھیں کچھ نہیں ہونے والا ہے اور نہیں تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کشتی کا مالک سنتے سنتے عاجز آکر کہے کہ یار کشتی میں سوراخ کرنے کے لئے بھی کشتی میں بیٹھنا پڑے گا تبھی تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکوگے،، اب کشتی میں سوار ہونا آپ کی نیت پر ہے کہ دوسرے کنارے پر پہنچنے کے لئے سوار ہوئے ہیں یا سوراخ کرنے کے لئے،، اگر نیت درست ہے تو ٹھیک ہے ورنہ خمیازہ بھی آپ ہی کو بھگتنا پڑے گا اس لئے کہ جو کشتی چلاتا ہے وہ تیرنا بھی جانتا ہے-
بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب تلنگانہ کے رہنے والے ہیں اور ممبر پارلیمنٹ بھی ہیں مسلمانوں کے بہت سے مسائل پر آواز بھی اٹھاتے ہیں وہ اپنی پارٹی کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں بہار میں بھی اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا اور اب اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں ان کی تقریریں جزباتی ہوتی ہیں اور کچھ انداز و کچھ باتیں ایسی رہتی ہیں کہ جس سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہے جس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ مجلس تلنگانہ میں سبھی سیٹوں پر الیکشن کیوں نہیں لڑتی اور دوسرے صوبوں میں زیادہ سیٹوں پر الیکشن کیوں لڑتی ہے یہ سوال جائز ہے مگر اس کا جواب ہمیں ان پر الزام لگاکر تو نہیں مل سکتا، گالی دیکر تو نہیں مل سکتا، نفرت و حسد رکھ کر تو نہیں مل سکتا بلکہ اطمینان بخش جواب چاہیے تو ملاقات کرنی ہوگی،
ان سے بات کرنی ہوگی اور اس کے علاوہ کچھ مشورہ دینا ہے یا پارٹی میں کچھ بدلاؤ کرانا ہے تو بی ٹیم کہہ کر تو بدلاؤ نہیں کرایا جاسکتا بلکہ اس میں شمولیت اختیار کرنا ہوگا پارٹی کو مضبوط کرنا ہوگا اس کے بعد آپ کی تجاویز پر غور ہوسکتا ہے -
دوسرا پہلو بھی قابل غور ہے کہ مسلمانوں میں بھی بیک ورڈ اور فارورڈ کی بات آتی ہے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہندو مذہب میں بھی بیک ورڈ اور فارورڈ ہیں تو ان کے اندر سیاسی بیداری ہے، شعور ہے اور جب تک شعور نہیں تھا تو ان کی کوئی حقیقت نہیں تھی مگر کانشی رام نے بیداری مہم چلائی اور آج نتیجہ سامنے ہے مگر مسلم بیک ورڈ صرف مسلم فارورڈ سے اختلاف کا اعلان کرتا ہے اور خود اپنے سماج کو متحد اور بیدار کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتا اور نہیں تو فیس بک، واٹس ایپ پر اپنے ہی میں گالی گلوج کرتا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلکی شدت پسندی بھی مسلم بیک ورڈ برادری کے اندر ہی ہے جس کی وجہ سے آئے دن رشتہ داریاں تک متاثر ہوتی رہتی ہیں اور خود قدم قدم پر اپنے ہی لوگوں کی ٹانگیں کھینچنے کی
بیماری بھی اسی طبقے کے لوگوں کے اندر ہے یہی وجہ ہے کہ بہت بڑی تعداد ہوتے ہوئے بھی کوئی سیاسی شناخت نہیں ہے- بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب کی مخالفت میں تیزی لانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے آج جو صورتحال ہے یا تو مجلس اتحاد المسلمین کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے یا کہ اس کے مقابلے میں دوسری مضبوط پارٹی کے قیام کی ضرورت ہے کیونکہ صرف تلخ کلامی اور زبردست مخالفت مسلے کا حل نہیں ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مسلم نوجوان طبقہ میں تیزی کے ساتھ اسدالدین اویسی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی باتیں بڑی جذباتی اور انداز بڑے جوشیلے ہوتے ہیں- میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری یہ تحریر سب کو پسند نہیں آئے گی لیکن میں جو دیکھتا ہوں اسی کو قلمبند کرنا مناسب سمجھتا ہوں-
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں