شوکت علی دربھنگوی موبائیل نمبر 9045169068آئندہ سال منعقد ہونے والے یوپی الیکشن کیلیے تمام سیاسی پارٹیاں اپنی مکمل توانائی کے ساتھ انتخابی میدان میں کود چکی ہے، ہر پارٹی اپنے اپنے حساب سے عوام کو دامن فریب میں لانے کی کوشش کررہی ہے، وعدوں اور خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی قسمیں کھائی جارہی ہیں، تمام پارٹیاں اپنے اسٹیج سے پسماندہ قوموں کے فلاح و بہبود کی باتیں کررہی ہیں، کوئی دلت کی بات کررہا ہے، تو کوئی جاٹ سماج کی بات کررہا ہے، کوئی راج بھر کو گلے لگانے کی سعی کررہا ہے تو کوئی چندر شیکھر راون کو اپنا نے کیلیے جدوجہد میں مصروف ہے،
لیکن وہ قوم جو یوپی میں ٢٠ فیصد ہے ان کو ہمیشہ کی طرح حاشیہ پر رکھ کر راج بھون تک پہونچ نے کی کوشش کی جارہی ہے، ماحول کی سازگاری اور چناؤ میں جیت کے فارمولے کو اس طرح بُنا جارہا ہے جیسے ان کے ووٹ کی کوئی حیثیت اور ضرورت ہی نہیں اور سچ بھی یہی ہے کہ مسلمان اپنی بے حسی اور کم فہمی سے ووٹ کی وقعت کھوچکا ہے، مسلمانوں کی نا تجربہ کاری اور غیر دانشمندی نے ووٹ کی طاقت گنوا چکا ہے۔
جس قوم کو رب ذوالجلال نے اس زمین کا خلیفہ بنایا تھا، جن کو قیادت و امامت کے فرض منصبی سے سرفراز کیا تھا، اور جن کو عدل و انصاف کی فضا قائم کرنے کیلیے پیدا کیا گیا تھا آج وہ قوم سیاسی بصیرت سے محروم ہے، جس قوم کے آباواجداد حاکم رہے آج پوری دنیا میں وہ مظلوم و مقہور ہے، حکومت کرنا تو درکنار ایوانِ بالا میں اپنا حقیقی اور سلیم الطبع نمائندہ بھیج نے پر قادر نہیں ہے، خود کی لیڈر شپ بنانے اور حاکم بن نے کے بجائے سیاست کے اس دوراہے پر کھڑا ہے جس کے چہار جانب فرقہ پرستی اور نفرت کی کھائی ہے، مسلمان اپنی قیادت مضبوط کرنے کے بجائے غیروں کے رحم و کرم اور ان کو تخت و تاج پہنا نے کیلیے کوشاں ہیں۔
حالانکہ ہمارے سامنے مولانا ابوالمحاسن سجاد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سیاسی کارنامہ ہے، ہمارے پاس مولانا منت اللہ رحمانی کا سیاسی طریقہ موجود ہے، ہماری قوم کو مولانا علی میاں ندوی نے برسوں قبل متنبہ کیا تھا کہ
"اگر قوم کو پنج وقتہ نمازی نہیں بلکہ سو فیصد تہجد گزار بنادیا جائے لیکن اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے اور ملک کے احوال سے ان کو واقف نہ کیا جائے تو ممکن ہے اس ملک میں آئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نمازوں پر بھی پابندی عائد ہو جائے"
کیا آج ہمارے ساتھ یہی رویہ نہیں اپنایا جارہا، مدارس کو دہشت گرد کا اڈہ بتاکر بند کرنے کی بات نہیں کی جارہی، کاشی اور متھرا کی عبادت گاہوں پر دیوی اور دیوتا کی جگہ کا دعویٰ نہیں کیا جارہا، ماب لنچنگ اور بھڑکاؤ بھاشن کے ذریعے مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا نہیں کیا جارہا، موجودہ حکومت مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا ایجنڈہ نہیں چلا رہی۔
در حقیقت ہم نے دین کو مخصوص خانے میں قید کررکھا ہے، نماز روزہ زکوۃ حج ہی میں دین کو سمیٹے ہوئے ہیں، سیاست میں رہنے والے شخص اور اس پر بات کرنے والے کو دین سے عاری اور خالی سمجھ تے ہیں، سیاست کو شجرہ ممنوعہ اور خدائی غضب والی شئے تصور کرتے ہیں۔
اگر ہم نے اب بھی قائدانہ طور پر سیاست میں قدم نہیں جمایا، ماضی کی غلطیوں کا ازالہ نہیں کیا، اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے رہے تو اپنی زندگی اور آنے والی نسلوں کے حصوں میں مزید مظفرنگر، گجرات، اور بھاگلپور جیسے دنگے چھوڑ جائیں گے، اخلاق، پہلو خان اور تبریز کے ساتھ ہونے والے حادثے ہمارے دروازے پر بھی دستک دے سکتے ہیں، اگر اب بھی ماضی کے گرد کو نہیں کھرچے تو ایک دن نفرت کے بپھرے ہوئے سیلاب کی زد پر پھینک دیے جائیں گے اور ہم سے ایمان و یقین کی روحیں چھین لی جائیں گی۔
وقت ہے اپنے احتساب کا، خود کو جھنجھوڑ کر ٹٹولنے کا اور سیاسی میدان میں قدم جمانے کا۔
سوچیں! آخر کب تک ہم استعمال ہوتے رہیں گے، کب تک تقویم ماہ و سال کے ورق کی طرح ہر الیکشن کو الٹتے رہیں گے، کب تک غیروں کے دامن تلے دبے رہیں گے، فرقہ پرستوں اور نفرت کے پجاریوں کے خواب کو کب تک پورا کرتے رہیں گے، اپنے وجود کو کب تک غیروں پر چھوڑے رہیں گے، غیروں کے پرفریب و پر فسوں ارادوں کو کب تک کامیاب کرتے رہیں گے، کب تک ان کی درشتیوں اور سختیوں کا نشانہ بنتے رہیں گے، ہم کب تک ان کے قدموں تلے سسک سسک کر زندگی کی بھیک مانگتے رہیں گے، کب تک مسلمان اس کون و فساد کے درمیان پستا رہیگا۔
آج ہم نے سیاست کے اس شعور کو گم کردیا ماضی میں جس نے انسانیت کو فروغ بخشا تھا، عدل و انصاف کا ترازو قائم کیا تھا، اور امن کا پرچم لہرایا تھا
کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جو سماج سیاسی شعور سے نابلد ہو اور غیروں کے تابع ہوکر زندگی گزارے اس سماج کو کوئی حق نہیں کہ وہ صحت مند معاشرہ کا خواب دیکھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں