تحریر۔حاجی ضیاء الدین ۔ ملک میں، لسانی،، کلچرل، موحالیات وغیرہ کو ایک خاص یوم کے طور پر منا یا جا تا ہے جس میں تقاریب وغیرہ کا انعقاد کر کے پروگرام کو خاص بنا یا جا تا ہے ۹ نومبر کے روزملک بھر میں عالمی یوم ارود کے طور پر منایا جا تا ہے جس میں اردو زبان کی شیرینی، افادیت وفروغ کا ذکر ہو تا ہے ملک بھر میں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ارودزبان کے فروغ کا خوب بخان کیا جا تا ہے تو وہیں سیاسی پلیٹ فارم سے لے کر عوامی مقامات پر ادو زبان کے فروغ کو لے کر بلند بانگ دعوے بھی کئے جاتے ہیں
مضمون نگار اردو روزنامہ انقلاب کے جونپور سے نمائندہ ہیں |
ارود زبان کے فروغ کے نام پر مشاعرے سمیت ادبی نشستوں کا انعقاد بھی خوب ہو تا ہے اور اکثر نشستوں میں علامہ اقبال ؒ کا ذکر بھی خوب ہو تا ہے لیکن علامہ اقبال ؒ کی یوم پیدائش سے منسوب عالمی یوم اردو کے موقع پر ضلع میں مدارس، مکاتب، اقلیتی تعلیمی اداروں، سیاسی، سماجی شخصیات کی جانب سے پروگرام کا انعقاد نہ کروانا اردو زبان کے تئیں ہم سب کی بیداری کا ثبوت پیش کر تاہے جب کہ ان میں سے بعض اداروں کی جانب سے اردو کے علاوہ دیگر یوم کے موقع پر بڑے پیمانے پر تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے جس میں ایک سے بڑھ کر ایک شخصیات شرکت کر تی ہیں
اور عوام میں یوم فلاں کو خصوصیت کا خوب بخان ہوتا ہے لیکن افسوس کی اردو کے فروغ کی باتیں کر نے والے ہی عالمی یوم اردو کے موقع پر اردو کو بھول گئے ہیں زمینی طور پر اردو زبان کے لئے ہم کس قدر بیدار ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ ضلع کے بیشتر تھانوں، تحصیل مراکز م ودیگر سرکاری دفاتر میں سے اکثر مقامات پر ارود بابو تعینات ہیں لیکن اردو میں تحریر دینے والوں کی تعداد نہ کے برابر ہے ذرائع کے مطابق جن کی تعیناتی اردو بابو کے طور پر ہو ئی ہے وہ لوگ دفاتر میں دیگر کام نبٹا تے ہیں۔
اسی طرح ذرائع کی باتوں پر یقین کریں تو ضلع اقلیتی بہبودادفتر میں اردو میں درخواست دینے والوں کا فقدان ہے دفتر سے منسلک مدارس و دیگر اداروں کے اکثر افراد ہندی یا انگلش میں تحریر وغیرہ دیتے ہیں تو وہیں ضلع میں ہونے والے مذہبی م دینی تقاریب میں جاری ہو نے والی پریس ریلیز اردو اخبار کے صحافیوں کے پاس ہندی زبان میں ٹائپ کر کے بھیجی جا تی ہے اردو زبان کی بد نصیبی کا یہ عالم ہے کہ اہل اردو کی دکانوں یا دیگر اداروں پر سائن بوڑ شاذ و نادر ہی ارود زبان میں دکھائی دیتے ہیں یہاں تک کہ اب تو مساجد کے بورڈ سے بھی اردوزبان کے غائب ہو نے کا دور شروع ہو چکا ہے۔حالانکہ اردو فروغ کے نام پر علاقہ میں مشاعروں کا انعقاد عام بات ہے جہاں رات بھر شعرا اور سامعین مل کر اردو اور ارود زبان کے فروغ کی باتیں کر تے ہیں
لیکن بعض لوگوں کے مطابق مشاعروں میں اکثر شعرا ارود زبان سے نابلد ہو تے ہیں اور ہندی رسم الخط میں اشعار لکھ کر لاتے ہیں۔اردو زبان کا ذکر ملک کی سیاست کے بغیر ہمیشہ ادھورارہا ہے اب تک تمام سیکولر سر کاروں نے اردو فروغ کے نام پر خوب جم کر بخان کیا ہے جس میں اردو اساتذہ کی تعیناتی، اردوبابو کی تعیناتی کازکر کئے بغیر مسلم حلقوں میں سیکولر سیاسی پارٹیوں کو چین نہیں ملتا ہے اس ضمن میں ایک شخص نے نام نہ شائع کر نے کی شرط پر بتا یا کہ یقینا اردو زبان کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو ا ہے لیکن ملائم سنگھ حکومت میں ایمانداری سے کا م نہیں لیا گیا اردو کو دوسری زبان دینے والے قانون کو اسمبلی سے پا س نہ کروائے جانے سے اردو کو اس کا حق حاصل نہ ہو پایا اور ادو داں آج سرکاری مراعات حاصل کر نے میں ناکام ثابت ہو ئے ہیں جہاں تک پر وگرام نہ کرائے جانے کی بات ہے تو مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے پروگرام کروانے میں خرچ لگتا ہے
اس لئے پروگرام کا خواب دیکھا نہیں جا سکتا۔نمائندہ انقلاب نے اس ضمن میں ضلع اقلیتی بہبود کملیش کمار موریہ سے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے بتا یا کہ ارود زبان میں درخواست دینے والوں کا فقدان ہے مہینہ دو مہینہ میں بڑی مشکل سے اردو ومیں درخواست ہمارے دفتر پہنچتی ہے جس کا ترجمہ ہم کسی طرح سے کروالیتے ہیں ہمارے دفتر میں اردو بابو کی تعیناتی نہیں ہے اکثر لوگ اپنی تحریر ہندی یا انگلش میں لکھ کر لاتے ہیں اس لئے کبھی ضرور ت ہی نہیں پڑی دفتر میں اردو بابو کی تعیناتی کے بابت سوال کے جواب میں کہا اب تک اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں پڑی ہے۔
ایسے میں یہ بات آئنہ کی مانند صاف ہو جاتی ہے کہ اردو فروغ کے نام پر کسی سے رونا رونے کے بجائے خود ہی عملی طور پر اردو فروغ کے لئے قدم بڑھا ناہو گا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں