تازہ ترین

جمعہ، 12 مارچ، 2021

واقعہ معراج النبی ﷺ

 

واقعہ معراج النبی ﷺ

نبی کاایسافعل جوعقل انسانی کو عاجزکردےوہ معجزہ کہلاتاہے لیکن یہ عقیدہ اورایمان رہے کہ معجزہ ایسی چیز نہیں جوپیغمبرکی ذاتی کوشش سے رونما ہوبلکہ کسی نبی کے ہاتھوں جومعجزہ رونماہوتاہے وہ اللہ کی حکمت اورحکم کےتابع ہوتاہے مثلاہمارامشاہدہ ہےکہ درخت چلتےنہیں ،پہاڑہلتےنہیں ، پتھربولتےنہیں ،چانددوٹکڑےہوتانہیں ،مردےاٹھتےنہیں ،مادرزاد اندھے بیناہوتےنہیں اس کی وجہ صاف ظاہرہےکہ یہ نظام قدرت ہے اوراس کو چلانیوالا قادرمطلق ہے اگرکسی نبی کےاشارہ یاحکم پر درخت چلنےلگیں ،پہاڑہلنےلگیں، پتھربول پڑیں، چانددوحصوں میں تقسیم ہوجائے،مردےاٹھ کھڑےہوں ،مادرزاداندھوں کو بینائی مل جائے تویہ تمام خلاف عقل ،خلاف شعور اورخلاف عادت باتیں معجزہ کے زمرےمیں آئیں گی۔اللہ رب العزت اپنے انبیاء ؑ کومعجزات سے نوازتے ہیں تاکہ ان کی قوم ان کے دعوی رسالت ونبوت کےثبوت میں کوئی نشانی طلب کرےتوسچانبی وہ ہے جو ان کی عقل اورسمجھ کواپنے معجزےکی بدولت عاجزکردےواقعہ معراج نبی کریم ﷺ کاایسامعجزہ ہے جوحضرت آدم ؑ سےلےکر حضرت عیسی ؑ تک کسی پیغمبر کونصیب نہیں ہواہماراایمان ہےکہ ایسی عظیم الشان جسمانی معراج کااعزاز کسی اورپیغمبر کونصیب نہیں ہوا معراج مصطفی ﷺ کاخاص پہلویہ ہےکہ نوری مخلوق کاسردار بھی ساتھ چھوڑگیا عرش عظیم پرمعراج کاایک مقام ایسابھی آیاکہ بس خداتھا اوراس کا نبی تھا ’’مازاغ البصروماطغی‘‘ کہ دیکھتاہی رہا اورآنکھ بھی نہ جھپکی ۔

معراج جسمانی کی ایک یہ دلیل بھی ہےکہ حضرت سلیمان ؑ نے بلقیس کودعوت نامہ بھیجا کہ تم آجائو دعوت پرلبیک کہتےہوئے بلقیس (ملکہ سباء)چل پڑیں ان کی روانگی کے وقت حضرت سلیمان ؑ نے اپنے درباریوں سے فرمایا کہ تم میں کوئی شخص بلقیس کے یہاں پہونچنےسے پہلے اس کاتخت یہاں لاسکتاہے؟ایک جن (عفریت )بولا میں آپ کی مجلس برخواست ہونےسے پہلے اسے لاسکتاہوں ،حضرت سلیمان ؑ نے فرمایا مجھےاورجلدی چاہیے توایک شخص نے کہا میں آنکھ جھپکنےمیں لادیتاہوں وہ آصف بن برخیاتھےحالانکہ حضرت سلیمان ؑ اوربلقیس کےدرمیان بڑی طویل مسافت تھی چنانچہ ایک منٹ میں وہ تخت بلقیس وہاں آموجودہوا اگر سلیمان ؑ کےایک امتی کیلئے ایک منٹ میں تخت آسکتاہے توحضور ﷺ کوایک رات کےایک مختصر وقت میں اللہ تعالی معراج کرادیں تویہ کو نسی تعجب کی بات ہے ۔واقعہ معراج تعجب انگیزبھی ہےاورظہورقدرت خداوندی کی نشانی بھی ہے یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ واقعہ جسمانی ہو،خواب نہ ہو کیو ںکہ خواب کیسابھی ہونہ اس میں اللہ کےاعتبارسےتعجب انگیزی ہے نہ اس کی عظیم قدرت کاظہورہےنیز اللہ تعالی نے معراج کامقصد بیان فرمایا’’لنریہ من آیاتنا‘‘اس سفر کامقصد عالم بالا کی اشیاء کودکھانا ہےجن کےدیکھنے سےاللہ رب العزت کی عظیم قدرت کاظہورہوتاہے مثلا عرش وکرسی ،لوح وقلم ،سدرۃ المنتہی نیز جنت وغیرہ اورعالم بالاجوگناہوں سے پاک اورعجائبات قدرت کامحل ہے ،وہاں لےجانےمیں خاتم الانبیاء کےاعزاز واکرام کاظہورہے اس پرشبہ واشکال کیاجاتاہےکہ اس سفرمیں سردی وگرمی سے حفاظت کیسےہوسکتی ہے اس کاجواب آج کل کےدورمیں بہت آسان ہے جب بےبس انسان ائرکنڈیشن کےذریعے گرمی وسردی کاانتظام کرسکتاہے توقادرمطلق وخالق کائنات کیلئےایساانتظام کیوں ناممکن ہے جس کے آگے ہرچیز صف بستہ سرجھکائے کھڑی ہے ادھرحکم ہوا ادھر چیز وجود میں آگئی ،کائنات کاایک ایک ذرہ اللہ کے فرمان کاتابع ہے محققین یورپ نے تصریح کی ہےکہ جس ذات نے قوانین طبعیہ بنائے ہیں اس کوان میں مداخلت وتبدیلی کاحق ہے ۔

معراج النبیﷺ تاریخ انسانی کاایساحیرت انگیز ،انوکھا اورنادرالوقوع واقعہ ہے جس کی تفصیلات پر عقل ناتواں آج بھی حیران اورششدرہے اسےکچھ سجھائی نہیں دیتا کہ یہ سب کچھ کیوں،کیسےہوگیا ،مادی فلسفہ کی خوگراور دنیاوی عقل یہ سمجھنے سےقاصر ہےکہ پیکرانسانی ان حدودکوعبورکرکےلامکان کی رفعتوں تک بھی پروازکرسکتاہے اوروہ کچھ دیکھ لیتاہے جسے دیکھنے کی انسانی نظر میں تاب نہیںاسلئے حدودوقیود کےپابند لوگ اس بے مثال عروج وارتقاء پربہت حیران ہوتےہیں اوراسےمن وعن اورمستنداندازسے مذکورہ تفصیلات کیساتھ بھی ماننےکیلئے تیارنہیں ہوتے اورایسے ایسے شبہات واردکرتےہیں کہ دلائل سےغیر مسلح ذہن اورعام آدمی ان سے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہتا،محدثین ،مفسرین اورمفکرین نے ہرہرمسئلہ کےہرہر پہلو پرعلم وحکت کے موتی بکھیرےہیں اورکمال عرق ریزی سے امورومسائل کی گتھیاں سلجھانےکی سعی کی ہے ارباب علم ودانش نے اپنے محدودپیرائےمیں معجزہ کے بارےمیں بھی علمی ،فکری اوراعتقادی سطح پرحرف حق کی تلاش کاسفرجاری رکھاہے اورتحقیق وجستجوکےمحاذپردادشجاعت دی ہے ،جہاں عقل عاجز آجاتی ہے وہاں سے معجزہ کی سرحدشروع ہوتی ہے معجزہ رب کائنات کی قدرت اورجلالت کااظہار ہوتاہے یہ وہ خارق عادت واقعات ہوتےہیں جو اللہ کے برگزیدہ نبیوں اوررسولوں سے صادرہوتےہیں ان کابظاہر کوئی سبب نظرنہیں آتا اورنہ ان کی کوئی علت دکھائی دیتی ہے یہ عقل کے دائرئہ ادراک اورحیطہ شعورمیں نہیں آتے لیکن جب انسان اپنےسرکی آنکھوں سے ان کاظہور ہوتے دیکھتاہے توسرتسلیم خم کرنے کےسوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا اوروہ کہہ اٹھتاہےکہ یہ معجزہ اللہ کے نبی سے صادرہوا ہے اسلئے یہ حق ہے وہ لوگ جومعجزات وکرامات کے ردوقبول کامعیار اپنی سوچ ،عقل تجربہ اورمطالعہ کوقراردیتےہیں نہ صرف بہت بڑے اعتقادی مغالطےکاشکار ہوجاتےہیں بلکہ علم کےتکبرمیں بھی مبتلاہوجاتےہیں اگرلکڑی آگ کے الائومیں گرکرجلانہ کرے تو عقل کبھی بھی ذہن انسانی کی یہ رہنمائی نہ کرےکہ آگ جلانیوالی شئےہے اسلئے کہ جوبات مشاہدہ اورتجربہ کیخلاف ہو عقل اسے ہرگزہرگز تسلیم نہیں کرتی اللہ کے برگزیدہ نبی سیدناحضرت ابراہیم ؑ بےخطرآتش نمرود میں کودپڑیں اورآگ گلزاربن جائے ،حضرت عیسی ؑ قم باذن اللہ کہیں توقبرسے مردہ اٹھ کھڑاہو،حضرت یعقوب ؑ اپنے بیٹے حضرت یوسف ؑ کی قمیض اپنی آنکھوں سے لگائیں توآپ ؑ کی بینائی لوٹ آئے،حضرت صالح ؑ پہاڑپر اپنی چھڑی مبارک ماریں تو اس کے اندرسے اونٹنی برآمدہوجائے ،حضرت سلیمان ؑ کاایک درباری پلک جھپکنے سےپہلے اورجسم کوغائب کئے بغیر ہزاروں میل دورسےملکہ سبا کاتخت لاکرحاضر کردےیاپھرانگشت مصطفی ﷺ اٹھے اورچاند کے دوٹکڑے ہوجائے ،ڈوبتےسورج کی سمت دست اقدس اٹھائیں تووہ غروب ہونیکےبعد واپس لوٹ آئےاورآقائے دوجہاں ﷺ کے جسم اطہر کےلمس سے کجھورکامراہوادرخت پھر سے زندہ ہوجائے توعقل اپنے دام شعورکوتارتار نہیں کرےگی تواورکیاکرےگی ورائے عقل سرزد ہونیوالے انہی واقعات کومعجزہ کہتےہیں عقل ان معجزات کوسمجھنےسے معذورہے ۔

بلاشبہ اللہ تعالی نے ہر دورمیں اپنے برگزیدہ نبیوں اوررسولوں کو آیات ومعجزات سے نوازاکیوں کہ اللہ رب العزت کواپنے ان مقرب نبیوں اوررسولوں کی عظمت کااظہار مقصودتھا کہ لوگ انہیں احترام اورتقدس کی نگاہ سے دیکھیں ۔ساری کائنات انسانی ہردورمیں معجزات انبیاء علیہم السلام کےسامنے بےبسی اورعاجزی کی تصویربنی رہی اللہ کےنبیوں اوررسولوں کواگرچہ ابتلاءوآزمائش کےان گنت مراحل سے گذرناپڑا،اعلان حق پرباطل اپنے تمام تر مادی وسائل کیساتھ حرکت میں آتا اورروشنی کی راہ میں دیواربننےکی کوشش کرتارہا ،ذہنوں میں فتنے پرورش پاتے رہے ،سازشیں تیارہوتی رہیں ،اکثروبیشتر ان مقربان خداکو مرحلہ ہجرت سے بھی گذرناپڑا تاہم ا ن کے منصب رسالت ونبوت کے گرد جلال وجمال کاہالہ پوری آب وتاب کیساتھ روشن رہا اورکفراپنی تمامتر مخالفتوں اورچیرہ دستیوں کے باوجود ان پیکران وفاکوجھٹلانے میں کامیاب نہ ہوسکا کفارومشرکین پیغمبر انہ جلال اورمعجزات کے ظہور کے سامنے بےبس نظرآتےہی عقل وخردہردورمیں متعجب وحیران ہوئی ،کبھی تسلیم کرنے کیلئےآگے بڑھی اورکبھی انکارپراترآئی ،کبھی زبانیں تعصب کے زہرسے آلودہ ہوکر سحرسحر کاراگ الاپنےلگیں اورکبھی غروروتکبر اورگھمنڈ قبول حق کی راہ میںآن کھڑاہوا ،دل اقرار اورزبانیں انکارکرتی رہیںچونکہ معجزہ ایک ابدی حقیقت ہے اسلئے قبول حق سے انکار کے باوجود اسے دل سے جھٹلایانہیں جاسکتا،معجزہ معراج کےظہورسے ایوان کفروشرک کالرز اٹھنا ایک فطری امرتھا چنانچہ ہر طرف شورمچ گیا فتنہ وشر کے طوفان اٹھ کھڑےہوئے اسلام اورپیغمبراسلام ﷺ کی کردارکشی کااس سے ’’زریں موقعہ‘‘کفارومشرکین کےہاتھ کہاں سے آتا دعوی معراج کوبنیادبناکر مخالفین اسلام نے ایک منظم سازش کامنصوبہ بنایا یہ لوگ ہروقت اس تلاش میں رہتےتھے کہ کسی طرح حضورﷺ کےکسی دعوےکومعاذاللہ جھوٹاثابت کرسکیں سوابوجہل اوربدبختوں نے معراج کے واقعہ کواپنے لئے بہت بڑی دلیل سمجھتے ہوئےوادئی مکہ میں شوربرپاکردیا ہرطرف اپنے نمائندے بھیجے شہرمکہ کی گلی کوچوں میں ایک غلغلہ پیداہوگیا کہ حضورﷺ نےیہ کیا دعوی کردیا ابوجہل بھاگابھاگا صدیق اکبر ؓ کےپاس گیا کہ آج میں پوچھتا ہوں کہ تواس نبی کےدعوےکی صداقت پرایمان لاتاہے اب بتاتوکیاکہتاہےکہ آج تیرےدوست نے ایک ایسادعوی کیاہے کہ توبھی اسےکبھی تسلیم کرنےپر تیارنہ ہوگا جب صدیق اکبرؓ نے ابوجہل کی زبانی دعوی معراج سنا تو مسکرا کرارشادفرمایا کہ میں تومحض حضورﷺ کی زبان اقدس سے سن کر خالق کائنات کومان چکاہوں یہ سب باتیں تواس سےبہت کم درجہ کی ہے حضرت صدیق اکبرؓ نےحضور کی بارگاہ سے تصدیق کئے بغیر سفرمعراج کی تصدیق کردی اس صبح آپ ’’صدیق اکبر ‘‘کےلقب سےسرفراز ہوئے یعنی سب سے بڑا تصدیق کرنیوالا ۔

سفرمعراج کی قدم قدم پر اغیارکے حوالےسے تصدیق بھی ہورہی تھی اورتوثیق بھی لیکن جن دلوں پرکفرکے تالے پڑےتھے انہیں سورج کی روشنی کیانظرآتی وہ معجزات حضور ﷺ پرجادوکالیبل لگاکر اپنے کفرکوتسکین دےلیتے آج صدیاں گذرجانےکےبعد جب سائنسی ارتقاء اپنی معراج کو چھورہاہے کائنات کی بیکراں وسعتیں حضورﷺ کےنقوش کف پاکی تصدیق کررہی ہیں سب سے بڑاشبہ نفس معراج کے بارےمیں اکثرلوگوں کواس امرمیں ہواکہ نبی اکرم ﷺ کامعراج جسمانی تھا یاروحانی دوسرےلفظوں میں کیاحضورﷺ جسم اطہر کیساتھ عالم آب گل سے عالم افلاک میں تشریف لےگئے تھےیامحض خواب کی حالت میں روحانی طورپر معراج ہوئی ؟ یہ شبہ اسلئے ہواکہ لوگوں نے قرآن وحدیث میں درج کردہ واقعہ معراج کی تفصیلات پراعتماد کرنےکی بجائے اپنی محدود اورناقص عقل وفہم کی کسوٹی پر اسےپرکھنےکی کوشش کی اورچوںکہ ان کے وضع کردہ عقل وفہم کے پیمانوں پراس کی تفصیلات پوری طرح نہ اترتی تھیں اسلئے ان کاذہن معراج جسمانی کوتسلیم کرنےسے انکارکرنےلگااورانہوں نے اس واقعہ کوروحانی اورمقامی معراج سے تعبیرکرکے اس حقیقت سے صرف نظرکرلیا کہ معجزہ تووہ خرق عادت واقعہ ہوتاہے جس کی عقلی توجیہ سرےسے ناممکن ہو اورواقعہ معراج وہ عظیم ترین معجزہ ہےکہ عقل جس کاادراک کرنےسے یکسرقاصرہے ۔

جسمانی معراج کی سب سے بڑی دلیل یہ ہےکہ اگر یہ حالت خواب کی واردات ہوتی تومشرکین مکہ اسے ماننےسےکبھی پس وپیش نہ کرتےان کاتوانکارہی اس بناپرتھاکہ حضورﷺ کااپنے جسم اطہر کیساتھ مسجدحرام سےمسجد اقصی اورافلاک پرجاناان کی عقل وفہم سے بالاترتھا خوابی کیفیات پرانہیں کیااعتراض ہوسکتاتھا ایک یہودی عالم سے جب ابوسفیان کی گفتگوہوئی اورجب ان سےکہاگیاکہ حضورکےحالات بیان کریں توان کابیان ہےکہ میں نےایڑی چوٹی کازورلگایا کہ کسی طرح ان کی نظروں میں حضورکادرجہ گرجائےاوروہ حضورکوماننےسےانکارکردے لیکن محتاط بھی رہاکہ کسی جھوٹ پرپکڑانہ جائوں ابوسفیان نےکہاکہ اےقیصرروم! میں تمہیں اس نبی کی ایک ایسی بات بتاتاہوںجسےسن کر نعوذباللہ ا سکےجھوٹےہونےکایقین آجائیگایہ کہہ کرواقعہ معراج بیان کیا ،جب وہ اس مقام پرپہونچاکہ اس نبی نے کہاکہ میں براق پرسوارہوکربیت المقدس پہونچاتوقیصرروم کےدربارمیں موجود دنیائےعیسائیت کےسب سے بڑےپادری نے کہاکہ ہاں اس رات کامجھے علم ہے ابوسفیان کہتےہیں کہ جب میںنے یہ سناتومیرےقدموں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ یہ توایسی حقیقت ہےکہ عالم عیسائیت کابڑاپادری بھی اپنی مخالفت کے باوجوداسے تسلیم کرنےپرمجبورہے ۔

درحقیقت معراج کاپیغام اورتحفہ جن پرعمل کرنےسے یہ دنیا جنت نشاں بن سکتی ہے آج ہم نے اس پیغام کوبھلادیاہے اورشب معراج کے ذکرسے اپنی محفل کوآبادکردیا حالاں کہ شب معراج توہمیشہ ہمیش کیلئے وہی ایک رات تھی جس میں نبی کریم ﷺ تشریف لےگئےتھے قیامت تک دوسری معراج نہیں ہوسکتی ہے وہ تاریخ آسکتی ہے لیکن وہ نورانی رات پھرکبھی نہیں آئےگی ہم نے بھی اپنی جہالت وغفلت سے کیسی کیسی اصطلاحیں وضع کررکھی ہیں اللہ ہم سب کو شب معراج میں دئیے گئے پیغام کی اہمیت ومعنویت کوسمجھنےاوراس پر عمل کرنےکی توفیق عطافرمائے۔

محمدطفیل ندوی 

جنرل سکریٹری ! امام الہندفائونڈیشن ممبئی 










کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad