جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس ؛ مولانا سید ارشد مدنی مسلسل ساتویں مرتبہ صدر منتخب ، تعلیمی وظائف کا بجٹ پچاس لاکھ سے بڑھاکر ایک کروڑ کردیا گیا ، مسلمان تعلیم کو ہتھیار بنالیں : مولانا سید ارشد مدنی
نئی دہلی : 9؍ مارچ 2021ء (پریس ریلیز)
ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر آج مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند کے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال میں جمعیۃ علماء ہند کے مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند منعقد ہوا ۔ اجلاس میں ملک کے موجودہ حالات اور قانون و انتظام کی بدتر صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز پر خاص کر تعلیم اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر تفصیل سے غور و خوض ہوا ۔ اس اجلاس میں ممبران نے تمام مسائل پر کھل کر تبادلۂ خیال کیا ۔ ایجنڈے کے مطابق میٹنگ میں جمعیۃ علماء ہند کی آئندہ ٹرم کی صدارت کے لئے ریاستی جمعیتوں کی مجلس عاملہ کی سفارشات کا جائزہ لیا گیا ، تمام ریاستی یونٹوں نے متفقہ طور پر صرف حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہٗ کے نام کی سفارش کی ۔ لہٰذا مجلس عاملہ نے جمعیۃ علماء ہند کے آئندہ ٹرم کی صدارت کے لئے مولانا سید ارشد مدنی کے نام کا اعلان کردیا ۔ ضابطے کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کی ہر دو سال میں ممبر سازی ہوتی ہے ۔ لاک ڈاؤن میں جمعیۃ علماء ہند کی بے لوث خدمات ، دہلی فساد سے متاثرین اور ملزمین کی قانونی اور سماجی مدد ، تبلیغی جماعت پر منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی قانونی جدوجہد وغیرہ کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں جمعیۃ کی طرف نئے لوگوں کا رجحان بڑھا ہے ، جس کی وجہ سے جمعیۃ کی ممبر شپ حاصل کرنے کے لئے لوگ بہت زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں اور ہر صوبے میں جمعیۃ دفاتر سے نئے لوگوں کی ایک معتدبہ تعداد مستقل رابطے میں ہے ۔ واضح رہے کہ پچھلے ٹرم میں جمعیۃ کے ممبران کی تعداد تقریباً ایک کروڑ پندرہ لاکھ تھی جبکہ اس سال اس تعداد میں اضافے کے قوی امکانات ہیں ۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے آج سے 31؍ جولائی تک اس ٹرم کی ممبر سازی کا اعلان کیا ہے ۔ تعلیم کے فروغ پر جمعیۃ علماء ہند کی توجہ روز اول ہی سے رہی ہے ، مکاتب و مدارس کا قیام کے ساتھ ساتھ عصری و ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے والے غریب اور ضرورتمند طلبہ کے لئے تعلیمی وظائف دینے کا مسلسل کام جاری ہے اور اس کے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ اس تسلسل کو باقی رکھتے ہوئے اس سال پچاس لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپئے کی رقم تعلیمی وظائف کے لئے مختص کی گئی تھی ، جس کے لئے پورے ملک سے تقریبا 600 طلبہ منتخب کئے گئے ہیں ، جن میں سے اب تک تقریباً 500 طلبہ کو وظیفہ جاری کردیا گیا ہے ، تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔
مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید ارشد مدنی نے وظائف کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہماری اس ادنیٰ سی کوشش سے بہت سے ایسے ذہین اور محنتی بچوں کا مستقبل کسی حد تک سنور سکتا ہے جنہیں اپنی مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی محاذ آرائی اب شروع ہوئی ہے اس کا مقابلہ کسی ہتھیار یا ٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا اس سے مقابلہ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیار سے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کو شکست سے دوچار کرکے کامیابی اور کامرانی کی وہ منزلیں سر کرلیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طور پر محدود اور مشکل سے مشکل تر بنادی گئی ہے ، مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا ، سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں ، مولانا مدنی نے سوال کیا کہ یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیدا ہوئی اور اس کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں ؟ اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے خود جان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی ، کیونکہ اگر انہیں تعلیم سے رغبت نہ ہوتی تو وہ مدارس کیوں قائم کرتے ۔ افسوسناک سچائی یہ ہے کہ آزادی کے بعد اقتدار میں آنے والی تمام سرکاروں نے مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی کا شکار بنائے رکھا انہوں نے شاید یہ بات محسوس کرلی تھی کہ اگر مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے تو اپنی صلاحیتوں اور لیاقت سے وہ تمام اہم اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجائیں گے ، چنانچہ تمام طرح کے حیلوں اور رکاوٹوں کے ذریعہ مسلمانوں کو تعلیم کے قومی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی کوششیں ہوتی رہیں ، جس کے نتیجہ میں مسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہوگئے ، مولانا مدنی نے کہا کہ ہم ایک بار پھر اپنی یہ بات دہرانا چاہیں گے کہ مسلمان پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں ، اور کار زار حیات میں کامیابی کیلئے ہماری نوجوان نسل تعلیم کو اپنا اصل ہتھیار بنالے ۔ ہمیں ایسے اسکولوں اورکالجوں کی اشد ضرورت ہے جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اعلیٰ دنیاوی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیاز کے بغیر حاصل کرسکیں ۔ انہوں نے قوم کے بااثر افراد سے یہ اپیل بھی کی کہ جن کو اللہ نے دولت دی ہے وہ ایسے اسکول قائم کریں ، جہاں بچے اپنی مذہبی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کرسکیں ، ہر شہر میں چند مسلمان مل کر کالج قائم کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے اس جانب ہندوستانی مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں ، آج مسلمانوں کو دوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں تو دلچسپی ہے لیکن تعلیم کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے ، یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور وہ ہر محاذ پر کامیابی سے کام کررہی ہے ، چنانچہ ایک طرف جہاں یہ مکاتیب و مدارس قائم کررہی ہے وہیں اب اس نے ایسی تعلیم پر بھی زور دینا شروع کردیا ہے جو روزگار فراہم کرتا ہے ، روزگار فراہم کرنے والی تعلیم سے مراد تکنیکی اور مسابقتی تعلیم ہے تاکہ جو بچے اس طرح کی تعلیم حاصل کرکے باہر نکلیں انہیں فوراً روزگار اور ملازمت مل سکے ، اور وہ خود کو احساس کمتری سے بھی محفوظ رکھ سکیں ۔ تعلیم کے تعلق سے جمعیۃ علماء ہند آزادی کے بعد سے ہی انتہائی حساس رہی ہے چنانچہ اس کے اکابرین نے 1954ء میں ایک دینی تعلیمی بورڈ قائم کیا تھا جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانا اور ملک کے طول و عرض میں مکاتب و مدارس قائم کرنا تھا چنانچہ یہ جو ہم پورے ملک میں مکاتب و مدارس کا بچھا ہوا جال دیکھ رہے ہیں یہ انہیں کوششوں کا نتیجہ ہے لیکن اب اس سلسلے میں ہمیں نئے سرے سے مہم شروع کرنی ہوگی ، اسی لئے اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اپنے پلیٹ فارم سے مسلمانوں میں تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے ملک گیر سطح پر ایک مؤثر مہم شروع کرے گی اور جہاں کہیں بھی ضرورت محسوس ہوئی تعلیمی ادارے بھی قائم کرے گی اور قوم کے تمام ذمہ داران کو اس طرف راغب کرانے کی ہر ممکن کوشش بھی اس لئے کہ آج کے حالات میں ہمیں اچھے مدرسوں کی بھی ضرورت ہے اور اچھے اعلیٰ دنیاوی تعلیمی اداروں کی بھی جن میں قوم کے ان غریب مگر ذہین بچوں کو بھی تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوسکیں ۔ جن کے والدین تعلیم کا خرچ اٹھا پانے سے قاصر ہیں انہوں نے آگے کہا کہ قوموں کی زندگی میں گھر بیٹھے انقلاب نہیں آتے بلکہ اس کے لئے عملی طور پر کوشش کی جاتی ہے اور قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔
اخیر میں مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات اقلیتوں خاص طور پر مسلم اقلیت اور دلتوں کے لئے انتہائی خطرناک ہوچکے ہیں ، ایک طرف جہاں آئین اور قانون کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے وہیں عدل و انصاف کی روشن روایت کو ختم کردینے کی خطرناک روش اختیار کی جارہی ہے ۔ ہندوستان صدیوں سے اپنی مذہبی غیر جانب داری اور رواداری کے لئے مشہور ہے ، سیکولرزم اور رواداری نہ صرف ہندوستان کی شناخت ہے بلکہ یہی اس کے آئین کی روح بھی ہے ۔ کثیر المذاہب ملک میں کسی ایک خاص مذہب اور خاص سوچ کی حکمرانی نہیں چل سکتی ۔ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کسی خاص نظریے کی بنیاد پر چلے گا یا قومیت کی بنیاد پر یا سیکولرزم کے اصولوں پر ؟ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ملک سب کا ہے ، ہندوستان ہمیشہ سے گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار رہا ہے ، اسی راہ پر چل کر ہی ملک کی ترقی ممکن ہے ۔ انہوں نے اخیر میں تمام مسلمانوں سے خاص طور پر یہ اپیل کی کہ وہ جہاں بھی ہوں محبت ، امن و اتحاد کے پیغامبر بن جائیں ، نفرت سے نفرت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا یاد رکھیں نفرت کو صرف محبت سے ہی شکست دی جاسکتی ہے ، ورکنگ کمیٹی نے ریاستی ، ضلعی اور مقامی یونٹوں کو متوجہ کیا کہ وہ جمعیۃ علماء ہند کے تعمیری پروگرام خصوصاً اصلاح معاشرہ کے پروگرام کو بطور تحریک چلائیں جس سے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا سد باب ہوسکے ۔
شرکاء اجلاس میں صدر محترم مدظلہٗ کے علاوہ مفتی سید معصوم ثاقب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند ، مولانا حبیب الرحمن قاسمی ، مولانا سید اسجد مدنی ، مولانا سید اشہد رشیدی ، مولانا مشتاق عنفر ، مفتی غیاث الدین ، مولانا عبداللہ ناصر ، حاجی حسن احمد قادری ، حاجی سلامت اللہ ، وغیرہ اور مدعوئیین خصوصی بھی شریک ہوئے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں