تازہ ترین

جمعرات، 11 مارچ، 2021

سبق ملاہے یہ معراجِ مصطفےؐ سے مجھے!

 

سبق ملاہے یہ معراجِ مصطفےؐ سے مجھے!


✒️سرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد 
برائے رابطہ: 8099695186

        احادیث وآثار کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام نے دنوں اورمہینوں کی فضیلت اور اسکی عظمت برقرار رکھی ہے،بعض مہینوں کو شریعت کے  کچھ اہم احکام ومسائل اوراسلامی تاریخ کے لحاظ سے بعض پر فوقیت حاصل ہے،تاہم ہر مہینے میں کوئی نہ کوئی اہم واقعہ ضرور رونما ہواہے،جسکا اسلامی تاریخ سے ایک گہرا تعلق ہے،قرآن کریم میں ایک جگہ یہ ارشاد ہے کہ"بے شک مہینوں کی گنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ہیں"(سورہ توبہ)اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اسلام میں مہینوں کی تعداد کتنی ہے؟اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ مہینوں کی تعداد بارہ ہے تو اب یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ اسلامی تاریخ کا ہرمہینے سے ایک خاص قسم کا تعلق اور گہرا ربط ہے اوربعض مہینوں کو بعض پرفوقیت حاصل ہے،اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں ایام وشہور(دن اورمہینے)کو جو اہمیت حاصل ہے یاحاصل رہی ہے،اسکاتعلق رسم ورواج سے زیادہ اور مذہب سے کم ہے،اسلام چونکہ رسم ورواج کومٹانے اوراسکوختم کرنے کےلئے آیاہے اسی لئے شریعت اسلامیہ نے دن اور مہینوں کو ایک مذہبی حیثیت بھی دی ہے،جسکاذکر قرآن وحدیث میں واضح طورپر ملتاہے،ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے اور یہ جاننا ہمارےلئے ضروری ہوجاتاہے کہ کس ماہ میں کونسا اسلامی واقعہ پیش آیا؟ مثال کے طور پر رسول اکرم ﷺ کی ولادت کب ہوئی؟آپؐ نے ہجرت کاسفر کب کیا؟ایسے ہی آپؐ نے نکاح کب فرمایا؟وحی کا آغاز کب ہوا؟واقعہ معراج کب پیش آیا؟نماز کی فرضیت کب ہوئی؟شب برات، نزول قرآن،روزے کی فرضیت،غزوات،فتح مکہ، حجة الوداع،ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی پیدائش، نکاح،رخصتی،جہاد،قربانی،حج،شہادت سیدنا حسینؓ وغیرہ یہ وہ واقعات ہیں جو معروف ومشہور ہیں،ایسے تمام واقعات کی تاریخی حیثیت کا جاننا ہرمسلمان کےلئے ضروری ہے،اسلام میں چار مہینوں کو عظیم اور محترم سمجھا جاتاہے،محرم الحرام،رجب المرجب،ذی قعدہ اورذی الحجہ یہ چاروں عظمت اور حرمت والے مہینے ہیں،زمانہ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کو محترم سمجھاجاتاتھا اور ان میں جنگ وقتال کو حرام جانتے تھے،بعثت اسلام کے بعد ان چاروں مہینوں کی عظمت وحرمت اور فضیلت مزیدبڑھ گئی،اسی وجہ سے ایک جگہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایاگیا کہ"ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو"
        ماہ رجب بھی انھیں چار مہینوں میں سے ہے،اس مہینے میں بھی کئی اہم واقعات رونما ہوئے، سب سے اہم واقعہ جو شہرۂ آفاق ہے وہ ہے واقعہ معراج، آئیے جانتے ہیں کہ یہ واقعہ کب اور کیوں پیش آیا؟اسکی حکمتیں کیاہیں؟اور اس واقعہ سے ہمیں کیا پیغام ملتاہے؟ اس سلسلے میں حضرت تھانویؒ  نشرالطیب میں لکھتے ہیں  کہ "پہلی بات تو یہ ہے کہ جمہور اہل سنت والجماعت کا مذہب یہ ہے کہ واقعہ معراج،بیداری میں جسد کے ساتھ ہوئی اوردلیل اسکی اجماع ہے"اور مولانا یوسف لدھیانویؒ نشرالطیب کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ علامہ سہیلی الروض الانف شرح سیرت ابن ہشام میں لکھتے ہیں کہ"مہلب نے شرح بخاری میں اہل علم کی ایک جماعت کا قول نقل کیاہے کہ معراج دومرتبہ ہوئی،ایک مرتبہ خواب میں اوردوسری مرتبہ بیداری میں جسد کے ساتھ" اس سے معلوم ہوا کہ جن حضرات نے یہ فرمایاکہ معراج خواب میں ہوئی تھی،انھوں نے پہلے واقعہ کے بارے میں کہا ہے،ورنہ دوسرا واقعہ جوقرآن کریم اوراحادیث متواترہ میں مذکورہے وہ بلاشبہ بیداری کاواقعہ ہے"(آپ کے مسائل اور انکا حل جلد1ص 91) علماء نے لکھا ہے کہ واقعہ معراج رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں بہت بڑا واقعہ ہے اور آپﷺ کی نبوت کا ایک ممتاز ودرخشاں باب ہے، سرکاردوعالم ﷺ کی عمر مبارک جب تقریباً 51 یا 52سال کی تھی تب یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا، صاحب معارف القرآن نے اپنی تفسیر میں امام قرطبی کا قول نقل کیا ہے کہ معراج کی تاریخ کے بارے میں روایات مختلف ہیں،موسی بن عقبہ کی روایت میں ہےکہ یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے چھ ماہ قبل پیش آیا،اور حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ الکبریٰ کی وفات،نمازوں کی فرضیت کے نزول سے پہلے ہوچکی تھی،امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کا واقعہ بعثت نبویؐ کے سات سال بعد ہواہے،ابن اسحاق کہتے ہیں کہ واقعہ معراج اس وقت پیش آیا جبکہ اسلام عام قبائل عرب میں پھیل چکاتھا،ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ  واقعہ معراج ہجرت مدینہ سے کئی سال پہلے کاہے، حربی کہتے ہیں کہ واقعہ اسراء ومعراج ربیع الثانی کی 27ویں شب میں ہجرت سے ایک سال پہلے رونما ہواہے،ابن قاسم ذہبی کہتےہیں کہ بعثت سے اٹھارہ ماہ بعد یہ واقعہ پیش آیا، حضرات محدثین نے روایات مختلفہ ذکر کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کن چیز نہیں لکھی اور عام طور پر مشہور یہ ہے کہ ماہ رجب کی 27ویں شب، شب معراج ہے"(معارف القرآن جلد 5)

        واقعہ معراج کیوں پیش آیا؟ ہوا یہ کہ انسانی تصور سے بالاتر،مظالم کے پہاڑ آپؐ پر توڑے گئے،شعب ابی طالب  میں تین سال قیدو بند اورسوشل بائیکاٹ کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد آپؐ کا طائف کا ایک سفر ہوا،اس سفر میں آپؐ کے اوپر کفارو مشرکین کی جانب سے وہ مصائب ڈھائے گئے،جسکا بیان کرنا دشوار ہے،زمین پر بسنے والا ایک مغرور اور متکبر انسان نبیِ آخرالزماں ﷺ سے کہتا ہے کہ میرے سامنے سے ہٹ جاؤ،تم اس قابل نہیں ہو کہ تم سے گفتگو کی جائے،صرف اس پر بھی بس نہیں بلکہ پاگلوں اور بچوں کے ذریعے سے شہر بدر کرنے کےلئے گالیاں  دی گئیں اورسخت ترین پتھراؤ کیا گیا،چونکہ آپؐ تکالیف ومصیبت کے تمام گذرگاہوں سے پار ہوچکے تھے،اسی لئے آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ"اللہ کے راستے میں جتنی تکلیف مجھے پہونچائی گئی،اتنی کسی نبی کو نہیں پہونچائی گئی"اسلئے اب آپؐ کی ذات بابرکات نہایت مناسب تھی کہ احکم الحاکمین سے رازونیاز کی باتیں ہوجائیں، کیونکہ لوہے سے جب اعلی قسم کا زیور بنانا مقصود ہوتا ہے تو گرمی کی تمام بھٹیوں سے اسے گذار دیا جاتاہے اور ہتھوڑیوں سے اس پر وار کئے جاتے ہیں،تب کہیں جاکر وہ اعلی زیور میں تبدیل ہوکر عزت و شرف کا مقام حاصل کرتاہے،بالکل اسی طرح جب طائف کے سفر سے مصائب وآلام کی انتہاء ہوگئی اوردنیا کے حقیر انسان نے خاتم النبیین ﷺ سے گفتگو کرنے سے انکار کیا تو اب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بلایا تاکہ آپؐ کو تمام رفعتوں،عظمتوں اوربرکتوں سے نوازدے اور دنیا والوں کو بتادے کہ جس سے تم کلام کرنا نہیں چاہتے،خالق کائنات خود انھیں بلاکر ہم کلام ہونا چاہتاہے"(علمی تقریریں)
        طائف کے اندوہناک اوردلخراش سفر سے واپس ہونے کے بعد ایک رات آپؐ حطیم کعبہ میں آرام فرمارہے تھے  کہ جبرئیل امین اور میکائیل علیہم السلام آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہمارے ساتھ چلئے،پھر آپؐ کو براق پر سوار کیا گیا،جسکی تیزرفتاری کا عالم یہ تھاکہ جس جگہ اسکی نظر پڑتی تھی،وہیں قدم پڑتا تھا،اسی سرعت رفتاری کے ساتھ،پہلے آپؐ کو ملک شام میں مسجداقصی تک لےگئے،یہاں اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائے سابقین کو آنحضرتؐ کے اکرام کےلئے (بطور معجزہ)جمع فرمایا تھا،جبرئیلؑ نے یہاں پہونچ کر اذان دی،انبیاء ورسل کی صفیں تیار تھیں،لیکن سب اس بات کا انتظار کررہے تھے کہ نماز کون پڑھائے؟ پھر جبرئیل امین نے آپؐ دست مبارک پکڑکر آگے کردیا،آپ ﷺ نے تمام انبیاء ومرسلین اورملائکہ کو نماز پڑھائی،یہاں تک عالم دنیا کی سیر تھی،جوبراق پر ہوئی،اسکے بہ ترتیب آپؐ کو آسمان کی سیر کرائی گئی،پہلے آسمان پر حضرت آدمؑ سے ملاقات ہوئی اوردوسرے پر حضرت عیسیٰؑ ویحییؑ سے،تیسرے پر یوسفؑ سے،چوتھے پر ادریسؑ سے،پانچویں پر ہارونؑ سے چھٹے پر موسیٰؑ سے اورساتویں آسمان پر حضرتِ ابراہیمؑ سے ملاقات کی،اسکے بعد آپ سدرۃ المنتہیٰ کی طرف تشریف لےگئے"(صحیح بخاری مع فتح الباری)
       واقعہ معراج کی چند حکمتیں اور اسکا پیغام یہ ہے۔
(1)قرآن و حدیث سے عرش کے بعد مخلوق کا وجود ثابت نہیں،اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ کائنات کی آخری حد عرش ہے،عرش پر کائنات ختم ہوجاتی ہے،حضور اکرمؐ کو معراج کے سفر میں عرش تک سیر کرائی گئی،اس سے ختم نبوت کی طرف اشارہ ملتا ہے،کیونکہ آپؐ بھی دنیائے رسالت کی آخری حدہیں،آپ کے بعد اب کوئی نبی ورسول نئی شریعت لیکر آنے والانہیں،نبوت ورسالت آپ پر ختم ہوچکی ہے،
(2)کوئ قوم اور امت اپنے نبی کے علوم ومرتبے تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی،حضورﷺ نے معراج کے موقع پر زمین اور اس سے اوپر خلاء میں موجود ریت کے ذرات کے برابر،ستاروں،سیاروں اوراس سے بھی اوپر آسمانوں اور عالم آخرت تک کا سفر چند ساعتوں میں طے فرمایا،سفر معراج کے ذریعے"دور سائنس کے لوگوں اورٹیکنالوجی میں عروج حاصل کرتی دنیا کو یہ باور کرانا بھی مقصود ہے کہ تم سب حضرت محمدﷺ کے امتی ہو،تم چاند،مریخ اور اس سے بھی آگے کے جتنے چاہے سفر کرلو،لیکن امتی ہونے کے ناطے کبھی تم اس رفعت وبلندی کو دور سے بھی نہیں دیکھ سکتے جو حضرت محمد ﷺ ڈیڑھ ہزار سال قبل طے کرچکے ہیں،ذرا ہوش کے ناخن لو،حضرت محمدﷺ کا یہ معجزہ آج پھر ترو تازہ ہورہاہے اورتمہیں حق کی طرف بلارہاہے،آؤ اس حق کو سینے سے لگالو۔
(3)مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر میں یہ راز پوشیدہ ہے کہ حضرت محمدؐ اور آپ کی امت دونوں قبلوں کے انوار وبرکات سے بہرہ ور ہوں گے اور دونوں قبلے اس امت کے قبضے میں آئیں گے،نیز حضرات انبیاء بنی اسرائیل کے کمالات بھی آپؐ میں جمع کردیئے جائیں گے،
(4) اللہ تعالیٰ کے راستے میں تکلیف برداشت کرنے کا صلہ،عزت ورفعت اورترقی ہے،واقعہ معراج سے پہلے تک آپؐ نے اسلام کی خاطر ہرطرح کی تکلیف اورمصیبت برداشت کی،شعب ابی طالب میں نظربندی کے واقعہ سے  تو یہ تکلیف اورصدمہ اپنی انتہاء کو پہونچ چکاتھا،معراج کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس تکلیف ومحنت کابدلہ عنایت فرمایا اوراتنی بلندیوں تک پہونچایا کہ سردار ملائکہ حضرت جبریلؑ بھی پیچھے رہ گئے،
(5)حضرت آدمؑ سے معراج میں ملاقات ہونے میں اس طرف اشارہ ہے کہ انکی طرح آپؐ کو بھی ہجرت کی مشقت اٹھانی پڑے گی،جس طرح آدمؑ کو ابیلس کی وجہ سے جنت سے دنیا کی طرف ہجرت کرنی پڑی تھی،
(6)دوسرے آسمان میں حضرت عیسیٰؑ سے ملاقات ہوئی اس میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح انکے خلاف یہودیوں نے مکروہ حیلے اورجعل سازیاں کیں،آپ کے ساتھ بھی یہودی دوغلے پن اورحیلے سازی سے باز نہیں آئیں گے،لیکن جس طرح حضرت عیسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے انکے شر سے محفوظ رکھا،حضور اکرمؐ کی بھی اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائیں گے،
(7)تیسرے آسمان میں آپؐ کی ملاقات حضرت یوسفؑ سے ہوئی،اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح یوسفؑ کو انکے بھائیوں کی طرف سے سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا،لیکن آخرمیں اللہ تعالیٰ نے یوسفؑ کو عزت اورغلبہ عطاکیا،اسی طرح سرکارِ دوعالمﷺ بھی اپنے قریشی بھائیوں کی طرف سے تکلیفیں اٹھائیں گے اورغلبہ پائیں گے،
(8)چوتھے آسمان میں حضرت ادریسؑ سے ملاقات ہونے میں اس طرف اشارہ ہے کہ آپ شاہانِ عالم کو دعوت کے خطوط روانہ فرمائیں گے،اورجس طرح ادریس علیہِ السلام کو بلند مقام حاصل ہوا،آپؐ کو بھی رفعت اوربلند مرتبہ حاصل ہوگا،اوربادشاہوں کے دلوں میں آپ کارعب بیٹھ جائےگا۔
(9)پانچویں آسمان پر حضرت ہارونؑ سے ملاقات ہوئی اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ جسطرح سامری اور بچھڑے کی پوجاکرکے،مرتد ہونے والے ارتداد کے جرم میں قتل ہوئے اسی طرح جنگ بدر میں 70قریشی سردار قتل ہوئے اور70 قید ہوئے اورعرنیین ارتداد کے جرم میں قتل ہوئے۔
(10)حضرت موسیٰؑ کی ملاقات ہونے میں یہ اشارہ ہے کہ جسطرح انکو جہاد کا حکم ہوا اورجہاد کی برکت سے آپ کے نائبین نے ملک شام فتح کیا اسی طرح حضور اکرمؐ کوبھی جہاد کا حکم عنایت کیاجائے گا اور پھرآپ کے صحابہ بھی ملک شام فتح کریں گے۔
(11)ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیمؑ کی ملاقات میں اس طرف اشارہ ہے کہ آپ ﷺ کو حج بیت اللہ نصیب ہوگا۔
(12)ساتویں آسمان سے سدرۃ المنتہیٰ تک کے سفر سے فتح مکہ 8ھجری کی طرف اورسدرة المنتہیٰ سے مقام صریف الاقلام تک کی سیر سے غزوہ تبوک 9ھجری کی طرف اورصریف الاقلام سے مقام قرب ودنو تک سیر سے اشارہ ہے آپؐ کی وفات 10ہجری کی طرف، کیونکہ مقام قرب ودنو میں حضور پاک ﷺ کو دیدار خداوندی نصیب ہوا،اللہ جل شانہ سے ہمکلام ہونے کا شرف حاصل ہوا اوروفات کے ذریعے بھی انسان اپنے خالق حقیقی سے جاملتاہے،
(13)معراج کے سفر سے جب آپ کی واپسی ہوئی تو نہیں معمولی وقت گذرا تھا،بسترگرم تھا،دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی،یعنی اتنا طویل سفر اتنے مختصر ترین وقت میں طے ہوگیا اس میں یہ اشارہ اور راز ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے استقبال کےلئے آسمان،زمین اور کائنات کے سارے نظام کو روک لیاتھا جسطرح ملک کا صدر اور وزیراعظم وغیرہ کسی شہر کے دورے پرجائیں تو وہاں کے سارے نظام اور ٹریفک کو روک دیاجاتاہے۔
اس طرح معراج کے سفرمیں 9بار آپؐ  اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوئے اور تحفے تحائف کے بعد یہ عظیم الشان سفر اپنے اختتام کو پہونچا۔جو آج بھی زندہ جاوید ہے اور دعوت فکر وعمل دے رہاہے، شاعر مشرق علامہ اقبال نے شاید یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ 
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفےٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

(مضمون  نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad