تحریر محمد ہاشم اعظمی مصباحی نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی 9839171719
آج ہمارے معاشرے میں شادیوں کے موقع پر جو غیر شرعی رسمیں اور برائیاں پائی جارہی ہیں ان سے سوائے نقصان کے کچھ ہاتھ نہیں آتا لیکن افسوس صد افسوس کہ مغربی تہذیب و تمدن پر عمل کرنے میں کامیابی تصور کرنے والے مسلمان آج ان خرافات کو بجا لانے میں فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ یہ بات مسلم ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس کی تعلیمات و ہدایات ہماری کامیابی کی ضمانت ہیں۔ اس مذہب نے ہر موڑ پر ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ چاہے وہ شادی بیاہ کا معاملہ ہو یا دیگر دینی و دنیوی معاملات ہوں کوئی گوشہ بھی تشنہ نہیں ہے یوں ہی ہمارے مذہب میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہٴ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ فکری نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بھی نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔ بلکہ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی نہ صرف یہ کہ اجازت عطا کی گئی ہے بلکہ سنت رسول قرار دیا اور نکاح کونسل انسانی کی بقا وتحفظ کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے.قرآن و حدیث میں باقاعدہ اہلِ ایمان کو نکاح کے حکم ساتھ اِس کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے۔ چنانچہ ارشادِ خُداوندیہے : وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ (پ۱۸ ، النور : ۳۲) تَ رْجَمَۂ کنز الایمان : اور نکاح کردو اپنوں میں اُنکا جو بے نکاح ہوں ۔یونہی ہمارے پیارے آقا ، مکی مدنی مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰ ی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی بارہا اپنے فرامین کے ذریعے نکاح و شادی کی ترغیب و اہمیَّت کو بیان فرمایا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا : مَنْ اَحَبَّ فِطْرَتِیْ فَلْیَسْتَنَّ بِسُنَّتِیْ وَمِنْ سُنَّتِی النِّکَاحُ یعنی جو شخص میری فِطرت (یعنی اسلام) سے محبت کرتا ہے اُسے میری سنّت اختیار کرنی چاہئے اور نکاح بھی میری سنّت ہے (مصنف عبدالرزاق ، کتاب النکاح ، باب وجوب النکاح وفضله ، ۶ / ۱۳۵ ، حديث : ۱۰۴۱۸ ) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ لَمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ یعنی نکاح میری سنّت ہے تو جس نے میری سنّت پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں ( ابن ماجہ کتاب النکاح ، باب ماجاء فی فضل النکاح ، ۲ / ۴۰۶ ، حديث : ۱۸۴۶) اور ارشاد فرمایا : مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ یعنی جو میری سنّت سے رُوگردانی کرے وہ مجھ سے نہیں۔( بخاری ، کتاب النکاح ، باب الترغيب فی النکاح ، ۳ / ۴۲۱ ، حديث : ۵۰۶۳)
لیکن افسوس اس بات کا ہے اسی اسلام کو ماننے والے شادی بیاہ کے مبارک موقع پر منکرات و خرافات عادی ہوتے جا رہے ہیں اس کا سب سے بڑا دینی نقصان یہ ہے کہ ان بری رسموں سے بے حیائی، بداخلاقی اور بے پردگی عام ہورہی ہے، نکاح ایک مقدس تقریب ہے اور سنتِ رسول ہے اسے ہر قسم کی خلافِ شرع باتوں سے پاک ہونا چاہیے؛ لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ شادی خانوں میں نہ صرف بینڈ باجے کا اہتمام ہوتا ہے؛ بلکہ ڈی جےاور نیم برہنہ خواتین کا رقص بھی ہونے لگا ہے، مزید برآں دلہن کا نیم برہنہ لباس، نامحرم مردوں کا عورتوں کو مختلف زاؤیوں سے فوکس کر کر کے کمرے میں بند کر کے فلمیں بنانا اور باپ ، بھائی کی غیرت کے کان پر جوں تک نہ رینگنا، اور تو اور بعض دیندار گھرانوں میں بھی اس موقع پر حیا کا جنازہ اٹھتا نظر آتا ھے کہ دل خوف سے کانپ جاتا ھے. مووی میکر‘ فوٹو گرافر ایسے بن ٹھن کر شادی کے پروگرام میں آتے ہیں جیسے شادی ھی ان کی ھونہ جانے آپ کی عزت کیسے گوارہ کر جاتی ھے کہ ایک غیر مرد آپ کی نئی نویلی دلہن کو آپ سے پہلے دیکھے اور مختلف سٹائلوں سے اس کا فوٹو سیشن کرے ؟ اب تو ایسے رنج و غم کا وقت ھے کہ کس کس چیز کو رویا جائے؟؟ دلہا میاں خود مووی میکر‘ فوٹو گرافر کو گائیڈ لائن دے رہا ھوتا ھے یہ میری بہن ھے‘ میری کزن‘ میری خالہ اور یہ دلہن کی بہن‘ اماں‘ خالہ وغیرہ وغیرہ ہیں اور ساتھ ھی اسے سختی سے کہتا ھے کہ سب لیڈیز کی تصویر ٹھیک سے بنانا،، لمحہ فکریہ تو یہ ھے کہ جو بندہ جتنا غریب ھے وہ اُتنا ھی زیادہ پیسہ ان گناہ کی رسموں پر خرچ کرتا ھے خواہ اُدھار ھی کیوں نہ لینا پڑے،،پوچھو تو یہ لوگ کہتے ہیں ہماری برادری میں ایسا کرنا رواج ھے‘ خاندان میں ناک کٹ جائے گی‘ لوگ کہیں گے فلاں کی شادی پر ناچ گانا‘ فحش عورتوں کا ڈانس‘ آتش بازی‘ فائرنگ نہیں ھوئی شادی میں جانے کا مزہ نہیں آیا،یاد رکھو!جن لوگوں کو دکھانے کیلئے آپ یہ سب بے جا رسمیں ادا کرتے ہیں اُن کو آپ کے بیٹے‘ بیٹی کی طلاق سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اُن لوگوں کو کوئی پروا نہیں کہ آپ نے پیسہ اُدھار لیا ھے یا دن دیہاڑے ڈاکہ مارا ھے‘ یہی لوگ آپ کی اُولاد کے طلاق کے موقع پر کہتے ہیں اتنی فحاشی تو پھیلائی تھی ان لوگوں نے شادی کے موقع پر توانجام تو برا ھی ھونا تھا،،میرے بھائیو ! دنیا نہیں جینے دیتی دنیا کو نہیں دیکھو اپنی جیب کو دیکھو اسلام کی حدود کو دیکھو‘اسلام نے تو شادی کو انتہائی آسان بنایا ھے۔ان مٹی کے پتلوں (انسانوں) کو ناجائز خوش کرنے کیلئے گنہگار مت بنو‘اللہ تعالیٰ کو خوش کرو گے تو آپ کی شادی کامیاب ہو گی انشاءاللہ،،،، بہت سے لوگ شادیوں کے موقع پر گھروں‘ پلاٹوں‘ سڑکوں پر ٹینٹ لگا لیتے ہیں اور عورتوں کا ناچ دیکھتے ہیں نکاح کا ان ناچنے والی عورتوں سے کیا تعلق ھے؟ بہت سی شادیوں میں دیکھا جاتا ھے کہ گھروں کے بزرگ بھی ان فحش محفلوں میں شامل ھوتے ہیں اور ان فحش عورتوں سے فحش حرکات سرعام کرتے ہیں، اور بہت سی جگہوں پر دیکھنے میں آیا ھے کہ ’’دلہا میاں‘‘ خود ان فحش عورتوں کے ساتھ رقص کے ساتھ ساتھ فحش حرکات کرنا بھی ضروری سمجھتا ھے۔ آپ خود فیصلہ کرو یہ شادی کے موقع پر آپ اللہ کے عذاب کو دعوت دے رھے ھو کہ نہیں؟ ایسی شادی میں برکت کیسے آ سکتی ھے؟فحش عورت کے ناچ میں جو گناہ اور خرابیاں ہیں ان کو سب جانتے ہیں!! اب ڈھولک کی بات کرو تو عورتیں ڈھولک ساری ساری رات ایسے بجاتی ہیں جیسے پتہ نہیں یہ ڈھولک نہیں ان کے ’’بے رحم شوہر کا سر‘‘ ھے ڈھولک کی خوب دھلائی کرکے اپنا سارا غصہ ڈھولک پر نکال دیتی ہیں،،، ڈھولک کی آواز سے آس پاس کے لوگوں کی نیند میں خلل آتا ھے کہ نہیں؟ ڈھولک سے دل کو راحت نہیں ملتی تو بڑے بڑے سپیکر لیکر اُس پر ساری ساری رات اور سارا سارا دن گانے لگائے جاتے ہیں کہ پورے شہر کو پتہ چل جائے یہاں شادی کی تقریب ھو رھی ھے‘ جب سارا شہر آپ کی ان حرکتوں سے تنگ ھو گا تو کیا آپ کو یہ لوگ دعا دیں گے کہ اے اللہ ان کی شادی میں برکت ڈال دے؟بہت سے بیمار ایسے بھی ہیں جو بیچارے اپنی ھی کھانسی کی آواز برداشت نہیں کر سکتے‘ تو کیا وہ آپ کے گھر لگے’’دیواروں جتنے سپیکروں‘‘ سے نکلتی ھوئی گانوں کی آوازیں برداشت کر پائیں گے؟ تو خود اندازہ کرو کہ وہ بیمار انسان آپ کو کتنی بددعائیں دے گا؟ ایسی شادی میں برکت کیسے آئے گی؟ تحریر کا مقصد صرف یہ ھے کہ شادی کو آسان بناؤ اور طلاق و خلع کے رواج کو اپنے سماج سے ختم کرو۔ فضول رسم و رواج کے جھنجٹ کی وجہ سے بہت سے غریب گھروں کے نوجوان لڑکے‘ لڑکیاں بھی غیر شادی شدہ بیٹھے ہیں بزرگوں سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے ان فضول رسم و رواج کو اپنی زندگی ھی میں ختم کر جائیں‘ نہیں تو قبروں میں عذاب کا باعث بنے گا ایمانی زوال کے اس دور میں ہمیں قر آن و سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجو ع کرنا ھے اور اپنے مردوں اور عورتوں میں حیا کے وہ بیج بونے کی کوشش کرنا ھے جو معاشرے کو واپس پا کیزگی کے اس معیار کے قریب لے آئیں ،جو اھلیبیت و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے دور کا خاصہ تھا،گھر کے اندر مرد نگران ھے،، اس کی بنیادی ذمہ داری ھے کہ وہ اپنی اور گھر والوں کے لیے صحیح تعلیم کا بندوبست کرے،حقیقت یہ ھے کہ تقدسِ نسواں کا محافظ دراصل مرد ھی ھے۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری سے آگاہ ھوجائیں تو معاشرے سے ان برائیوں کا خاتمہ ھوجائے جو عورتوں کی بے مہاری کی وجہ سے پیدا ھوتی ھےلیکن ھوتا ایسا ھے ، جو مرد غیرت کا پیکر بنا ھوتا ھے ، اس کی غیرت بھی ایسے موقعوں پر پتہ نہیں کہاں غائب ھو جاتی ھے اکثر نے بس یہی بات رٹی ہوتی ھے، کون سی شادی روز روز ھو گی بہت سے لوگوں کو میری بات سے اختلاف ھو گا ، لیکن جو سچ تھا ، جو آج کل ھو رہا ھے اس کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری تھااللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں ان فالتو رسم ورواج سے بچنے کی اور سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرماۓ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں