تازہ ترین

بدھ، 29 جولائی، 2020

عیدالاضحیٰ قربانی و تقوی کا پیغام

پیر عادل مجید ندوی دارالعلوم ندوةالعلماء لكهنو
عیدالاضحیٰ کا معنی '' عید معنی خوشی اور الاضحی معنیٰ قربانی  ۔ یعنی وہ خوشی جو انسان کو اپنا قیمتی سرمایہ  اللہ کی راہ میں قربان کر کے حاصل ہوتی ہے، اس خوشی کا نام عید قربان ہے یہ عید مسلمانوں کا وہ مقدس دن ہے جو 10 ذی الحجہ کو منایا جاتا ہے، جس میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے،دین اسلام میں عید الاضحی امت مسلمہ کے لئے ایک عظیم الشان حیثیت رکھتا ہے،یہ سیدنا ابراہیم کی سنت اور عظیم یادگار ہے، یہ قربانی جہاں فی نفسہ ایک عظیم عبادت ہے، وہیں اس قربانی کے اندر امت مسلمہ کی تقوی اور للاہیت کے حصول کا سامان بھی فراہم کرتا ہے جس میں امت مسلمہ کے مؤسس ومورثِ اعلیٰ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ نے اپنی دانست میں اللہ تعالی کا حکم و اشارہ پاکر اپنے لخت جگر سیدنا حضرت اسماعیل کو ان کی رضامندی سے قربانی کے لئے اللہ تعالی کے حضور میں پیش کر کے اور ان کے گلے میں چھری چلا کر اپنی سچی وفاداری اور کامل تسلیم و رضا کا ثبوت دیا تھا، اور اللہ تعالی نے عشق و محبت کے اس امتحان میں ان کو کامیاب قرار دے کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زندہ سلامت رکھا اور ان کی جگہ ایک دنبہ کی قربانی قبول فرما کرحضرت ابراہیم کے سر پر امامت کا تاج رکھ دیا اور ان کی اس قربانی کو قیامت تک کے لیے رسم عاشقی قرار دے دیا پس اس دن کو اس عظیم تاریخی واقعہ کی حیثیت سے مذہبی تقریب کا دن قرار دیا گیا ہے،

کیونکہ امت مسلمہ شریعت ابراہیمی کی وارث اور اسوہ خلیل اللہ کی نمائندہ ہے اسی بنا پر اس دن کو یوم العید یعنی خوشی کا دن کہتے ہیں۔قربانی کے دن تین ہیں 10-11-12ذی الحجہ۔ان دنوں میں سب سے زیادہ محبوب عمل جانوروں کو اللہ کے حضور میں قربان کرنا ہے ،ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عید الاضحی کے دن ابن آدم  کا کوئی عمل اللہ کے حضور قربانی کرکے خون بہانے سے بہتر نہیں ،اللہ کے نام پر خون بہانا یہ ان دنوں کا محبوب عمل ہے، اگر کوئی چاہے کہ بجائے قربانی کے اس رقم سے غریبوں کی مدد کریں، محتاجوں کی اعانت کریں۔ تو یہ قربانی کا بدلہ ہرگز نہیں ہو سکتا قربانی ایک مخصوص  وقت کا مخصوص عمل ہے جو  بعینہ شریعت میں مقصود ہے ۔

اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس جانور کو تم قربانی کر کے بھول جاتے ہو اللہ تعالی قیامت کے دن اسی جانور کو اس کے سینگوں ، بالوں ، اور کھروں کے ساتھ زندہ کر کے کھڑے کریں گے ، کہ میرے بندے! یہ تیری قربانی ہے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ خون تو زمین پر بعد میں گرتا ہے۔ اس سے پہلے تمہاری تقوی تمہارے جذبات اللہ تک پہنچ جاتے ہیں۔اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ہر گز نہ تو اللہ تعالی کو ان کی قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اس سے تمہاری طرف سے تقوی پہنچتا ہے۔سورہ حج 

تو معلوم ہوا کہ قربانی کی اصل روح تقوی اور اخلاص کی آبیاری کرنا ہے، مگر افسوس آج کے ماحول میں قربانی سنت ابراہیمی کے بجاۓ دکھلاوے کی قربانی بن چکی ہے, لوگ ذاتی نمود و نمائش کے لئے قربانی میں غلو کرنے لگےہیں ،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں اخلاص و تقوی سے اپنا دامنِ امن خالی کرکے ریاکاری کو اپنا شعار بنا چکے ہیں، وہ یہ بھول چکے ہوتے ہیں کہ قربانی کی قبولیت کا انحصار ریاکاری پر نہیں بلکہ خالصیت پر ہوتا ہے، اور جہاں اخلاص نہ ہو وہاں قبولیت بھی نہیں ہوتی۔جبکہ اسوہ ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کا اصل مقصد جانور ذبح کرنا،نفسانی خواہشات کی تکمیل اور دکھلاوہ نہیں بلکہ طلب رضائے الہی ہے۔ قربانی کے ذریعے انسان کے دل میں اللہ تعالی کی عظمت،انبیاۓکرام سے محبت اور خلوص و ایثار کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔

اگر اسی جزبہ اخلاص و للہیت سے   قربانی کی جائے تو یقیناً وہ بارگاہ الہی میں شرفِ قبولیت کی سند پاتی ہے،اور اگر ریاکاری سے کام لیکر نمود و نمائش اور اپنی دولت کا رعب ڈالنے کے لیے قربانی کی جائے تو ایسی قربانی روز محشر میں ثواب و جزا سے محروم کر دیتی ہے کیونکہ اللہ تعالی کو قربانی کے جانور کا خون یا گوشت نہیں بلکہ قربانی دینے والے انسان کی نیت مطلوب ہوتی ہے ،جس کے ذریعے اللہ تعالی کی رضا اور اس کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔لہذا قربانی کا جانور خریدتے وقت سے لے کر اسے اللہ کی راہ میں ذبح کرتے وقت تک یہ خیال ذہن نشین رہنا چاہیے  کہ اس قربانی کا مقصد صرف رضائے الہی کا حصول ہے کیونکہ یہ جانور اللہ کی رضا کے لئے ذبح کیا جاتا ہے،اس کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالی کے ہاں قربانی قبول ہو جاتی ہےاللہ رب العزت ہم سب کو ابراہیم کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائیں، اور دین ابراہیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad