تازہ ترین

اتوار، 24 مئی، 2020

عید الفطرانعام خداوندی کا حسین تحفہ


پیر عادل مجید ندوی
متعلم تخصص فی الحدیث
دارالعلوم ندوةالعلماء لكهنو

عید، اہل ایمان کے لیے ماہ صیام کی عبادت و ریاضت کا انعام اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعزاز و اکرام کا دن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ کے نزدیک اِس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔ اس دن  کو یوم الجوائز بھی کہتے ہیں’’ عید کا لفظ ”عود“ سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ”لَوٹنا“ کے ہیں، یعنی عید ہر سال لوٹتی ہے، اس کے لَوٹ کے آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ اور ”فطر“ کے معنیٰ ”روزہ توڑنے یا ختم کرنے“ کے ہیں۔ چوں کہ عید الفطر کے روز، روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو عباداتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، تو اِسی مناسبت سے اسے ”عید الفطر“ قرار دیا گیا۔

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بہ طورِ تہوار مناتے اور اُن میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے اُن سے دریافت فرمایا’’ یہ دو دن، جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا’’ ہم عہدِ جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اِسی طرح منایا کرتے تھے۔‘‘ یہ سُن کر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن مقرّر فرما دیے ہیں،ایک  عیدالاضحٰی اور دوسرا  عیدالفطر ہے ‘( ابوداود 1136)
نبی کریمﷺ نے عیدین کے موقعے پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشیاں منانے کی اجازت دینے کے ساتھ،ساتھ دوسروں کو بھی ان خوشیوں میں شامل کرنے کی ترغیب دی ہے ۔اوران مواقع پر عبادات کی بھی تاکید فرمائی کہ بندۂ مومن کسی بھی حال میں اپنے ربّ کو نہیں بھولتا۔احادیثِ مبارکہؐ میں یومِ عید کی بہت فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’ جب عیدالفطر کا دن ہوتا ہے، تو الله تعالیٰ اپنے بندوں کی وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے یعنی ان فرشتوں سے جنہوں نے بنی آدم پر طعن کیا -  تو حق تعالیٰ شانہ فرماتا ہے ۔ اے فرشتو !  اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے اپنا کام پورا کر لیا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں اے ہمارے معبود اس کا بدلہ یہ ہے کہ اس کی مزدوری اور اُجرت پوری پوری عطا کردی جائے‘‘تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اے فرشتو! مجھے قسم ہے اپنی عزت کی،اپنی بزرگی ،سخاوت ،اپنی بلند قدری کی اور اپنی بلند مرتبہ کی،میں انکی دعا قبول کروں گا،پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں’’ اپنے گھروں کو جاؤ،میں نے تم کو بخش دیا ہے اور تمہاری برائیوں کو میں نے نیکیوں سے بدل ڈالا ہے اور تمہارے نامہ اعمال میں ہر برائی کے بدلے نیکی لکھی گئی، نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا   لوگ عید گاہ سے اس حال میں واپس آتے ہیں ، کہ انکی بخشش ہوجاتی ہے (مشکواۃ 1981)
 وہ افراد نہایت خوش قسمت ہیں کہ جنھوں نے ماہِ صیام پایا اور اپنے اوقات کو عبادات سے منور رکھا۔اور پورے ماہ تقویٰ کے ساتھ بارگاہِ ربّ العزّت میں مغفرت کے لیے دامن پھیلائے رکھا۔یہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کے لیے ہے اور اب اُنھیں مزدوری ملنے کا وقت ہے۔۔ 
’’ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا، بلکہ عید تو اُن کی ہے جو اللہ کی وعید سے بچ گئے۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے خود کو عود کی خوشبو سے معطر کیا بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اُس پر قائم رہے۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دسترخوان آراستہ کیے، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی۔ عید اُن کی نہیں، جو دنیاوی زیب و زینت اور آرایش و زیبایش کے ساتھ گھر سے نکلے، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے تقویٰ، پرہیزگاری اورخوفِ خدا اختیار کیا۔ 
۔حضرت وہب ابن منبہ فرماتے ہیں کہ’’ جب یومِ عید آتی ہے، تو شیطان چِلَّا چِلَّا کر روتا ہے،اُس کی ناکامی اور رونا دیکھ کر تمام شیاطین اُس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ’’ تجھے کس چیز نے غم ناک اور اُداس کردیا؟‘‘شیطان کہتا ہے کہ’’ہائےافسوس!اللہ تعالیٰ نے آج کے دن اُمّتِ محمّدیہﷺکی بخشش فرمادی ہے،لہٰذا تم اُنہیں پھر سے لذّتوں اور خواہشاتِ نفسانی میں مشغول کردو اور اس کی مغفرت پر پانی پھیردو‘‘ (مکاشفة القلوب۔ ص : 307)
 حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’جو شخص عیدین کی راتوں میں ثواب کی نیت سے اللہ کی عبادت کرے گا، تو اس کا دل نہیں مرے گا جس دن دل مردہ ہو جائیں گے۔‘‘( ابنِ ماجہ رقم : 1782)
اسی طرح حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’جو شخص پانچ راتیں عبادت کرے، اُس کے لیے جنّت واجب ہوجاتی ہے۔وہ راتیں یہ ہیں، ذوالحجہ کی10,ویں 9,ویں 8ویں رات،شبِ برات،اور عید الفطر کی رات۔‘‘(الترغیب والترہیب 182:1  )
لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ اس رات بے مقصد گھومنے پِھرنے اور گناہ کے کاموں میں گزارنے کی بجائے نوافل، نمازِ تہجّد، تلاوتِ قرآن اور دیگر عبادات میں مشغول رہیں تاکہ اس کی برکات حاصل کر سکیں۔
عید کے اس پُرمسرّت موقعے پر ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ پاس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔ اگر ایسا ہے، تو یقین جانیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی، بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔
یومِ عید ایک مذہبی تہوار ہے، اس لیے اِس روز ہونے والی تمام سرگرمیوں کو اسی تناظر میں ترتیب دیا جانا چاہیے۔تاہم،یہ بھی ذہن میں رہے کہ اسلام نے خوشی کے اظہار سے منع نہیں کیا اور نہ ہی اسلام کے نزدیک تقویٰ وپرہیزگاری کا مطلب خشک مزاجی اور رُوکھا پن ہے۔البتہ، اسلام نے تہواروں اور تفریحات کو کچھ حدود وقیود کا پابند ضرور بنایا ہے تاکہ بے لگام خواہشات اور نفس پرستی کی راہ روکی جا سکے۔عید کا آغاز، دو رکعت نماز سے ہوتا ہے، جو اس بات کا اظہار ہے کہ کوئی بھی مسلمان اپنی مذہبی اور تہذیبی روایات میں اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے لاپروا نہیں ہوسکتا۔ 
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور پورے عالم کے مسلمانوں کو عید کی صحیح معنوں میں خوشیاں عطا فرمائے اور عید کا جو انعام اور تحفہ ہے یعنی گناہوں کی بخشش اور اللہ کی رضا مندی یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے
آو مل کر مانگیں دعائیں ہم عید کے دن
باقی رہے نہ کوئی بھی غم عید کے دن
ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اُترے
اور چمکتا رہے ہر آنگن عید کے دن
                                                          آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad