متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن امیر: عالمی اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ
اللہ تعالیٰ اس رات اپنے بے شمار گناہ گار بندوں کی بخشش فرماتے ہیں ، یہ رات ماہ شعبان کے نصف میں آتی ہے۔ احادیث مبارکہ میں ماہ شعبان کے متعدد فضائل مذکور ہیں، یہ رمضان المبارک کی تیاری کا مہینہ ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس ماہ کی عبادات کے بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کثرت سے روزے رکھتے تھے ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کو اس ماہ کی فضیلت کو حاصل کرنے کی ترغیب نہایت دلنشین انداز میں دی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے بارے میں فرمایا :یہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ایک مہینہ ہے جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں بلکہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں روزوں کا اہتمام اس لیے فرماتے کہ اللہ تعالیٰ سال بھر میں فوت ہونے والوں کے نام اسی ماہ میں لکھوا دیتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میری خواہش ہے کہ میری موت کافیصلہ اس حال میں ہو کہ میں روزہ سے ہوں۔
اس ماہ میں ایک رات جو کہ شب برات کے نام سے معروف ہے، فارسی زبان کے اس لفظ کا معنی ہوتا ہے نجات پانے والی رات۔ اس رات بے شمار گناہ گار لوگوں کی اللہ پاک بخشش فرماتے ہیں اس لیے اس کا یہ نام پڑ گیا ورنہ اسے لیلۃ من نصف شعبان کہا جاتا ہے ،یعنی پندرہویں شعبان کی رات۔ یہ شعبان کی 14 تاریخ کے سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے اور15 تاریخ کی صبح صادق تک رہتی ہے۔ اس رات کے بارے میں بھی اعتدال کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے بعض لوگ تو سرے سے اس کی فضیلت کا انکار کرتے ہیں اور بعض لوگ اس رات میں اپنی طرف سے بعض منگھڑت باتیں شامل کر کے اسے دین کا نام دیتے ہیں۔ افراط و تفریط سے ہٹ کر اگر اعتدال کو ملحوظ رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فضائل و مناقب مذکور ہیں لیکن بدعات و اختراعات سے پاک ہیں۔ اس رات کی فضیلت کے بارے تقریباً دس صحابہ کرام سے روایت منقول ہیں جن میں مشترکہ طور پر یہ بات پائی جاتی ہے کہ اس رات کے فضائل موجود ہیں۔ اس لیے نہ تو سرے سے انکار کرنا اور نہ ہی حد سے بڑھ کر رسومات و خرافات مثلاً حلوے مانڈے ضرور پکانا ،آتش بازی کرنا ،مرد وں اور عورتوں کا مخلوط اجتماع کرنا ،عورتوں کا قبرستان جانا، مَردوں کا قبرستان جانے کو بہت ضروری خیال کرنا، ساری رات جاگنے کو ضروری تصور کرنا ، انفرادی عبادات کو اجتماعی شکل میں تبدیل کرنا جیسے صلوٰۃ التسبیح وغیرہ وغیرہ کو اس میں زبر دستی شامل نہ کیے جائیں بلکہ اعتدال کے ساتھ جتنے فضائل احادیث میں مذکور ہیں ان کو اسی درجے میں تسلیم کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو اس رات میں قیام کرو اوراس دن روزہ رکھو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت سے آسمان دنیا پراعلان فرماتے ہیں : کیا کوئی ہے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی ہے رزق کو تلاش کرنے والا کہ میں اسے رزق عطا کروں ؟ کیا کوئی مصیبت کا مار اہے کہ میں اس کی مصیبت دور کروں؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ حتی کہ صبح صادق کا وقت ہوجاتا ہے۔
اس رات عشاء اور فجر کی نمازیں وقت پر باجماعت ادا کریں۔اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق نفل نمازیں خاص کر نماز تہجد اد ا کریں،انفرادی طور پر صلوٰۃ التسبیح پڑھیں،قرآن پاک کی تلاوت کریں، کثرت سے اللہ کا ذکرکریں، اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگیں، دنیا و آخرت کی بھلائیاں مانگیں ،خاص کر اپنے گناہوں کی مغفرت چاہیں،زندگی میں کبھی اس رات قبرستان جائیں، اپنے اور میت کے لئے دعائے مغفرت کریں۔ایک حدیث پاک میں دوسرے دن روزہ رکھنے کا ذکر موجود ہےاس لیے روزہ رکھنا بہتر ہے۔ اس رات کی فضیلت میں مذکور روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات کو تمام مخلوق کی مغفرت کا اعلان فرماتے ہیں سوائے چند بد نصیب لوگوں کے۔ وہ بدنصیب اشخاص یہ ہیں:
نمبر1:مشرک : یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات خاصہ میں کسی مخلوق کو شریک کرنے والا ، صفات خاصہ سے مراد وہ صفات ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں مثلاً: بغیر اسباب کے محتاج ہونے کے زندگی اور موت دینا ، رزق دینا ، اولاد دینا ، عزت و ذلت دینا ، بگڑی بنانا ، مشکلات کو حل فرمانا وغیرہ۔
نمبر 2: قاتل : یعنی کسی کو ناحق قتل کرنے والا۔ اس کی وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ اگر کوئی شخص غلبہ اسلام کے لیے شرپسند دشمنان اسلام کو قتل کرتا ہے یا حکومتی طور پر اس کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ فسادیوں کو قتل کرے ، سولی پر چڑھائے ، کسی کو قصاصاً قتل کرے ، یا کسی ایسے انسان کو قتل کرے جس کاقتل کرنا شریعت میں جائز قرار دیا گیا ہو تو ایسے اشخاص اس وعید میں شامل نہیں ہیں۔ کیونکہ ایسے امور میں وہ شرعاً قاتل شمار نہیں ہوتے۔
نمبر3:زانی: یعنی وہ شخص جو اسلام کے مقرر کردہ جائز طریقے سے ہٹ کر جنسی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے ، وہ زانی کہلاتا ہے۔ زنا کا اصل مفہوم یہ ہے مرد و عورت بغیر نکاح کے آپس میں جنسی ملاپ کریں ، فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ زنا اور لواطت دونوں کے لیے وعید ہے یعنی کوئی مردکسی عورت کے ساتھ ، یا کوئی مرد کسی اور مرد کے ساتھ ، یا کوئی عورت کسی اور عورت کے ساتھ جنسی ملاپ کرتے ہیں تو یہ سب عرف میں زانی شمار ہوتے ہیں۔
نمبر4: شرابی: یعنی وہ شخص جو شراب پیتا ہے ، یاد رکھیں کہ شراب پینا حرام ہے ، خواہ اس سے کسی کو نشہ چڑھے یا نہ چڑھے ، کم مقدار میں پیے یا زیادہ ، خوشی کے موقع پر پیے یا پریشانیوں کو کم کرنے کا بہانہ بنا کر ، ہر حال میں شراب ناجائز اور حرام ہے ،متعدد احادیث میں شرابی آدمی کے بارے سخت وعیدیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شرابی شخص اللہ اس کے رسول اور تمام مومنین کی نگاہ میں برا ہے ، ایسے شخص کے بارے اندیشہ ہے کہ اس کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہو گا۔
فائدہ: شراب کی طرح دیگر نشہ آور چیزیں مثلا ً: بھنگ ،چرس ، افیون وغیرہ بھی ناجائز اور حرام ہیں۔
نمبر5: متکبر: یعنی وہ شخص جو حق بات کو ضد و عناد کی وجہ سے قبول نہ کرے اور غلط نظریات پر جما رہے ، اپنے سے کم حیثیت لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے۔ غرور ، گھمنڈ ، تعلی اور انانیت کی وجہ سے اس کی گردن اکڑی رہتی ہو۔ دوسروں کو کمتر اور خود کو برتر سمجھنے والا شخص متکبر کہلاتا ہے۔ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ بعض لوگ کسی صاحب حیثیث شخص کو بڑا مکان ، اچھا لباس ، عمدہ سواری ، مہنگی اشیائ استعمال کرتے ہوئے دیکھ لیں تو فوراً فتوے بازی شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں شخص متکبر ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر کبر ہوگا۔ اس شخص نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو ، اس کی جوتی اچھی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا(:اس میں کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ ) بے شک اللہ تعالیٰ خود بھی خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند بھی فرماتے ہیں ،(اس لیے ان باتوں کا تکبر سے کوئی تعلق نہیں) ہاںتکبر یہ ہے کہ انسان حق بات کا انکار کرے اور مخلوق خدا کو اپنے سے کمتر سمجھے۔ معلوم ہوا کہ متکبر وہ ہوتا ہے جو اسلامی تعلیمات کو اپنانے کے لیے تیار نہ ہو اور شرعی احکامات پر عمل کرنے کو اپنی خود ساختہ حیثیت کے خلاف سمجھ کر چھوڑ دیتا ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تکبر کی وجہ سے شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہو ا س کی بھی شب برات میں بخشش نہیں ہوتی۔
نمبر6: والدین کا نافرمان : اس بابرکت رات میں جب گناہ گاروں کی بخشش ہو رہی ہوتی ہے تو دیگر چند بدنصیبوں کی طرح والدین کا نافرمان بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جاتا ہے۔ والدین کی نافرمانی کو ایک حدیث پاک میں شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے۔ کبیرہ گناہوں کی فہرست میں والدین کی نافرمانی سر فہرست ہے ، ایک حدیث پاک میں ہے کہ والدین یا تو انسان کے لیے جنت کا باعث ہیں یا پھر جہنم کا۔ اگر ان سے حسن سلوک کرے گا ، ان کی خدمت کرے گا اور ان کی ضروریات کو ادب و احترام سے پورا کرے گا تو جنت ورنہ جہنم۔ اس لیے یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس رات جب اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کے بادل برس رہے ہوتے ہیں تو والدین کا نافرمان پھر بھی محروم رہ جاتا ہے۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے والدین کیا ہماری جنت کا باعث بن رہے ہیں یا ہم خود ان کی ناقدری کر کے اپنے لیے جہنم کا باعث بنا رہے ہیں ؟؟
نمبر7: کینہ پرور۔۔بغض رکھنے والا: یعنی وہ انسان جو اپنے دل میں اپنے کسی دوسرے مسلمان کا برا سوچے ، دل میں محبت کی بجائے نفرت پالے ، اس کے لیے پیار کے جذبات کے بجائے دشمنی رکھے ، اسے راحت دینے کے بجائے تکلیف دینے کے منصوبے بنائے ، عزت دینے کے بجائے رسوا کرنے کی جستجو میں لگا رہے ، اسے خوشیاں دینے کے بجائے پریشانیوں میں مبتلا رکھے وہ شخص کینہ پرور کہلاتا ہے۔ شب برات میں ایسا شخص بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنے مسلمان بھائیوں کو پریشان کرنا ، تکلیف دینا ، اس سے دشمنی رکھنا ، اس کا برا سوچنا اللہ کے ہاں اتنا بڑا جرم ہے کہ دریائے رحمت کے جوش کے وقت بھی ایسا انسان محروم رہ جاتا ہے۔
نمبر8:قاطع الرحم: یعنی وہ انسان جو رشتوں کو جوڑنے کے بجائے توڑتا ہے ، صلہ رحمی کرنے پر متعدد احادیث موجود ہیں جن کا تذکرہ ہم نے صلہ رحمی کے عنوان سے مختصر طور پر ذکر کر دیا ہے۔دنیاوی معاملات کی وجہ سے بول چال ختم کرنے والا ، رشتہ ناطے ختم کرنے والا ، خوشیوں اور غمیوں میں آپس میں الگ ہونے والا ، قریبی رشتہ داروں ، بہن بھائیوں ، عزیز و اقارب سے اپنے تعلقات ختم کرنے والا قاطع الرحم کہلاتا ہے۔ یہ بھی اس مقدس رات میں اللہ کی بے پناہ رحمت سے کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتا۔
یاد رکھیں اللہ کی رحمت بے انتہاء ہے لیکن اس رحمت کو لینے لیے ہمارا دل بھی سیدھا ہونا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے دل کو اس قابل ہی نہ بنائیں کہ جو اس کی رحمت کو قبول کرے تو اس میں غلطی ہماری ہے اللہ کی رحمت میں کمی نہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ کوئی شخص یہ اعلان کرے کہ آج میں اللہ کے نام پر خیرات کرتا ہوں۔ فقیر لوگ جمع ہو جائیں اور اپنے اپنے برتن اٹھائے ہوئے ہوں تو ہر اس فقیر کو خیرات نصیب ہو گی جس کا برتن صحیح سلامت ہو اور سیدھا ہو۔ اگر کوئی فقیر اور حاجت مند کا برتن ہی پاس نہ ہو ، یا سیدھا نہ ہو یا اس میں بہت بڑا سوراخ ہو تو وہ محروم ہی رہے گا۔ اس میں قصور اللہ کے نام پر خیرات کرنے والے سخی کا نہیں بلکہ اس فقیر کا ہے جو اپنے پاس کشکول بھی نہ رکھتا ہو یااس کا کشکول ٹوٹا ہوا ہو۔ اللہ ہمیں اپنی رحمت سے محروم نہ فرمائے۔ ہمیں بھی اپنی غلطیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ورنہ اس رات باقی سب بخشے جائیں گے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ غلطیوں کو دور کرنے کی بھی توفیق عطاء فرمائے اور اپنی رحمت سے ہمیں اس رات کو اعتدال کے ساتھ گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں