از >مفتی محمد خالد سیف اللہ قاسمی بجنوری
اس وباء کے پھیلنے کے خطرے اور حکومت کے سختی سے منع کرنے کی وجہ سے ہم اپنے گھروں میں عبادت کر رہےہیں اور عذر کی بناء پر ہماری شریعت بھی ہمیں اس کی اجازت دیتی ہے، لیکن چونکہ یہ ماہ شعبان چل رہا ہے اور یہ اپنے نصف ہونے کو چلا ہے،اور اس کے نصف کی رات کو شب براءت کہاں جاتا ہے، جو ہماری زندگیوں میں پہلی مرتبہ اس حالت میں آنے والی ہے کہ ہم اپنے گھروں میں ہوں گے، تو ہمیں چاہیے کہ ہم گھروں پر رہ کر ہی جس طرح سے روزانہ عبادت کر رہے ہیں اسی طرح اس آنے والی شب براءت میں بھی زیادہ سے زیادہ عبادت کریں ۔ چونکہ اس رات کی فضیلت و اہمیت بہت زیادہ ہے۔ تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس رات(شب براءت ) کے تعلق سے کچھ بیان کر دیا جائے، ملاحظہ فرمائیں۔
ماہِ شعبان کی پندرہویں شب ”شبِ برأت“ کہلاتی ہے، براء ت کے معنی ”رستگاری وچھٹکارا“ کے ہیں، شیخ عبدالقادر جیلانی رح فرماتے ہیں: شب برأت کو شب برأت اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں دو قسم کی براء ت ہوتی ہے: (۱) ایک براء ت تو بدبختوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ (۲) دوسری براء ت خدا کے دوستوں کو ذلت و خواری سے ہوتی ہے۔ (غنیة الطالبین، ص۴۵۶)نیز فرمایا کہ جس طرح مسلمانوں کے لیے اس روئے زمین پر عید کے دو دن (عیدالفطر وعیدالاضحی) ہیں، اسی طرح فرشتوں کے لیے آسمان پر دو راتیں (شبِ براء ت وشبِ قدر) عید کی راتیں ہیں۔ مسلمانوں کی عید دن میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ رات میں سوتے ہیں اور فرشتوں کی عید رات میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ سوتے نہیں۔ (غنیة الطالبین، ص۴۵۷)احادیث شریفہ میں شبِ براء ت کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے، جن میں سے چار حدیثیں پیش کی جاتی ہیں:
(۱) *بے شمار لوگوں کی مغفرت*:
عَنْ عَائِشَةَ قالت فَقَدتُّ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَیْلَةً فَخَرَجْتُ فَاِذَا ہُوَ بِالبَقِیْعِ فَقَالَ أَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْکِ؟ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ظَنَنْتُ اَنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وتَعَالٰی یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ․ (ترمذی شریف ۱/۱۵۶، ابن ماجہ ،ص۹۹)
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی، تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع (مدینہ طیبہ کا قبرستان) میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایا: کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ بے انصافی کرے گا؟ (یعنی تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جائے گا؟) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہٴ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (بنوکلب عرب کا ایک قبیلہ تھا، عرب کے تمام قبائل سے زیادہ اس کے پاس بکریاں ہوتی تھیں۔ (مرقاة شرح مشکوٰة ۳/۳۳۹)
(۲) *صبح تک اللہ تعالیٰ کی ندا:*
عَنْ عَلِیِّ بنِ اَبِیْ طالبٍ قال قال رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِذَا کانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوا لَیْلَہَا وصُوْمُوْا نَہَارَہَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْزِلُ فِیْہَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فیَقُولُ اَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاَغْفِرَ لَہ اَلاَ مِنْ مُسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقَہ اَلاَ مُبْتَلاً فَاُعَافِیْہِ کَذَا اَلاَ کَذَا حتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ․ (ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان ۳/۳۷۸، حدیث ۳۸۲۲)ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کیا کرو اور اس کے دن (پندرہویں تاریخ) کا روزہ رکھا کرو؛ اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک قریب کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں؟، کیا ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا کروں؟ کیا ہے کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت عطا کروں؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتے رہتے ہیں؛ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔
(۳) *کن لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی:*
عَنْ اَبِیْ مُوسیٰ الاشْعَرِیِّ عَنْ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اِنَّ اللّٰہَ لَیَطَّلِعُ فی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ او مُشَاحِنٍ․ (سنن ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان للبیہقی رح ۳/۳۸۲)
ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ جھانکتے ہیں یعنی متوجہ ہوتے ہیں نصف شعبان کی رات میں، پس اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔
اہم فائدہ: ”مشاحن“ کی ایک تفسیر اس بدعتی سے بھی کی گئی ہے جو مسلمانوں کی جماعت سے الگ راہ اپنائے (مسند اسحاق بن راہویہ ۳/۹۸۱، حاشیہ ابن ماجہ ص۹۹) حضرت عثمان بن ابی العاص کی روایت میں ”زانیہ“ بھی آیا ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی ایک روایت میں ”رشتہ داری توڑنے والا، ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شراب کا عادی“ بھی آیا ہے اور بعض روایات میں عشّار، ساحر، کاہن، عرّاف اور طبلہ بجانے والا بھی آیا ہے۔ گویا احادیث شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عام مغفرت کی اس مبارک رات میں چودہ (۱۴) قسم کے آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی؛ لہٰذا ان لوگوں کو اپنے احوال کی اصلاح کرنی چاہیے: (۱) مشرک، کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو (۲) بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی سے کینہ اور دشمنی رکھنے والا (۳) اہل حق کی جماعت سے الگ رہنے والا (۴) زانی وزانیہ (۵) رشتے داری توڑنے والا (۶) ٹخنوں سے نیچے اپنا کپڑا لٹکانے والا (۷) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (۸) شراب یا کسی دوسری چیز کے ذریعے نشہ کرنے والا (۹) اپنا یا کسی دوسرے کا قاتل (۱۰) جبراً ٹیکس وصول کرنے والا (۱۱) جادوگر (۱۲) ہاتھوں کے نشانات وغیرہ دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے والا (۱۳) ستاروں کو دیکھ کر یا فال کے ذریعے خبر دینے والا (۱۴) طبلہ اور باجا بجانے والا۔ (شعب الایمان ۳/۳۸۲، ۳۸۳، الترغیب والترہیب ۲/۷۳، مظاہر حق جدیث ۲/۲۲۱، ۲۲۲)
(۴) *پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی*:
عَنْ ابنِ عُمَر قال: خَمْسُ لَیَالٍ لاَ یُرَدُّ فِیْہِنَّ الدُّعَاءُ لَیلَةُ الجُمُعَة واَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَجَبَ وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعبانَ ولَیْلَتَا الْعِیْدِ․ (شعیب الایمان ۳/۳۴۲، حدیث ۳۷۱۳)ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے) جمعہ کی رات، ماہِ رجب کی پہلی رات، نصف شعبان کی رات، عیدین کی راتیں۔ *شبِ براء ت میں کیا کیا جائے؟*ان احادیث شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شبِ برأت ایک بابرکت اور عظمت والی رات ہے، اگرچہ شبِ برأت کے متعلق ذخیرئہ احادیث میں جتنی حدیثیں آئی ہیں، وہ سب کمزور ہیں، ان کی سند محدثین کے اصول کے مطابق صحیح نہیں؛ مگر چوں کہ یہ متعدد حدیثیں ہیں اور مختلف صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین (مثلاً: ابوبکر صدیق، علی بن ابی طالب، معاذ بن جبل، ابوموسیٰ اشعری، عبداللہ بن عمرو بن العاص، ابو ثعلبہ خشنی، عثمان بن ابی العاص اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہم) سے مختلف سندوں سے روایت کی گئی ہیں؛ اس لیے یہ روایات کم از کم ”حسن لغیرہ“ کے درجے میں ہیں؛ اسی لیے بعض اکابر محدثین نے کہا ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی بنیاد ہے؛ چناں چہ مشہور غیرمقلد عالم ”علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ“ فرماتے ہیں: ”اِعْلَمْ اَنہ قد وَرَدَ فی فضیلةِ لیلةِ النِّصفِ من شعبان عدةُ احادیثَ مجموعُہا یَدُلُّ علی اَنَّ لَہَا اَصْلاً“ پھر چند احادیث شریفہ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ”فہٰذہ الأحادیث بِمَجْمُوعِہَا حُجَّةٌ علی من زَعَمَ اَنَّہ لم یَثْبُتْ فی فضیلة لیلةِ النِّصفِ من شعبانَ شیْءٌ“ یعنی یہ تمام حدیثیں مجموعی اعتبار سے اس شخص کے خلاف حجت ہیں جس نے گمان کیا کہ پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ (تحفة الاحوذی ۳/۳۶۵، باب ما جاء فی لیلة النصف من شعبان) اسی وجہ سے اکثر بلاد اسلامیہ کے دین دار حلقوں میں ہر زمانے میں اس رات کے اندر عبادت، دعا اور استغفار نیز اس کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا رہا ہے،
*اس خاص موقع پر کن کاموں کو کس طریقے پر کرنا چاہیے اور کن امور سے پرہیز کرنا چاہیے*
؟ ذیل میں ان کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے:
(۱) *شب براء ت میں عبادت کریں*
اس سلسلے میں چند باتیں پیش نظر رہنی ضروری ہیں: (الف): نفلی عبادت تنہائی میں اور اپنے گھر میں ادا کرنا افضل ہے؛ لہٰذا شب براء ت کی عبادت بھی گھر میں کریں، مسجد میں نہیں، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اِجْعَلُوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ مِنْ صَلَاتِکُمْ وَلَا تَتَّخِذُوْہَا قُبُوْرًا“ (بخاری شریف ۱/۱۵۸) اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں بناؤ یعنی نوافل گھر میں ادا کرو اور ان کو قبرستان نہ بناؤ کہ قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاتی (تحفة القاری ۳/۵۰۷) ۔اور چونکہ لاک ڈاؤن کا زمانہ بھی ہے اس لیے اس حدیث پر عمل کرنے کا اور بھی اچھا موقع مل گیا ہے۔
(ب) اس رات میں (اسی طرح شب قدر میں بھی) عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں؛ ذکر وتلاوت، نفل نماز، صلاة التسبیح وغیرہ کوئی بھی عبادت کی جاسکتی ہے۔
(ج) اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق عبادت کرنی چاہیے، اتنا بیدار رہنا صحیح نہیں ہے کہ آدمی بیمار ہوجائے۔
(د) پورے سال فرض نماز کا اہتمام کیا جائے، صرف شب براء ت میں نفلی عبادت کرکے اپنے کو جنت کا مستحق سمجھنا باطل خیال ہے، یوں اللہ تعالیٰ مختار کل اور قادر مطلق ہے جس کو چاہے معاف کرسکتا ہے۔
(ھ) بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس رات میں ایک مخصوص طریقے سے دو رکعت نماز پڑھ لی جائے تو جو نمازیں قضا ہوگئیں وہ سب معاف ہوجائیں گی۔ یہ بات بالکل بے اصل ہے۔
(و) *شب براء ت میں فضول گپ شپ* میں شب بیداری کرنا، گلیوں، چوراہوں اور ہوٹلوں میں وقت گذارنا بالکل بے سود؛ بلکہ ”نیکی برباد گناہ لازم“ کا مصداق ہے۔
(۲) *قبرستان جانے کا مسئلہ*
حدیث شریف گذرچکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس رات قبرستان تشریف لے گئے؛ مگر واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اس قدر خفیہ تھا کہ آپ نے اپنی زوجہٴ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی اپنے جانے کو مخفی رکھا اور کسی بھی صحابی کو اپنے ساتھ نہیں لے گئے اور بعد میں بھی کسی صحابی کو اس عمل کی ترغیب دینا ثابت نہیں؛ اس لیے شب براء ت میں ٹولیوں کی شکل میں قبرستان جانا، اس کو شب براء ت کا جز ولازم سمجھنا،راستوں میں روشنی کا اہتمام کرنا، یہ دین میں زیادتی اور غلو ہے، بغیر کسی اہتمام اور پابندی کے قبرستان جانا چاہیے! اگر ممکن ہو ۔
(۳) *پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھنا*
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث شریف پر عمل کرتے ہوئے امت میں پندرہویں تاریخ کے روزہ رکھنے کا معمول رہا ہے۔ اگرچہ وہ حدیث باتفاقِ محدثین انتہائی ضعیف ہے؛
لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ ماہِ شعبان کے اکثر حصے کے روزے رکھے جائیں، یہ نہ ہوسکے تو ماہ شعبان کے نصف اوّل کے روزے رکھے جائیں، یہ بھی نہ ہوسکے تو ایام بیض (۱۳، ۱۴،۱۵ شعبان) کے روزے رکھے جائیں اور اتنا بھی نہ ہوسکے تو کم ازکم پندرہ شعبان کا روزہ تو رکھ ہی لے، یہ روزہ بھی ان شاء اللہ موجب اجر ہوگا۔
*شب براء ت کی خرافات*
مندرجہ بالا تین اعمال شب براء ت سے متعلق ہیں، ان کے علاوہ دیگر تمام اعمال خلافِ سنت، بدعات و خرافات اور بے اصل ہیں، جن کی شریعت اسلامیہ میں قطعاً گنجائش نہیں، مثلاً:
(۱) *آتش بازی*
ان بدعات وخرافات میں سب سے بدترین اور ملعون رسم ”آتش بازی“ ہے، جو آتش پرستوں اور کفار ومشرکین کی نقل ہے، اس شیطانی رسم میں ہرسال مسلمانوں کی کروڑوں کی رقم اورگاڑھی کمائی آگ میں جل جاتی ہے، بڑی دھوم دھام سے آگ کا یہ کھیل کھیلا جاتا ہے، گویا ہم خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی نیازمندی اور عبادت واستغفار کا تحفہ پیش کرنے کے بجائے اپنے پٹاخے اور آگ پیش کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ آتش بازی کی یہ بدترین رسم تین بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے:
(الف) *اسراف وفضول خرچی*
قرآنِ کریم میں اپنی کمائی فضولیات میں خرچ کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیاگیاہے، ارشادِ خداوندی ہے: ”اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن“ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں۔ (سورئہ بنی اسرائیل:۲۷)
(ب) *کفار ومشرکین کی مشابہت*
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین اور یہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایاہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ (مشکوٰة شریف ص۳۷۵) یعنی جو شخص کسی قوم سے مشابہت اور ان کے طور طریق اختیار کرے گا اس کا شمار انھیں میں ہوگا؛ مگر افسوس ہے ہماری زندگی پر کہ ہر چیز میں آج ہم کو غیروں کا طریقہ ہی پسند ہے اور اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے نفرت ہے۔
(ج) *دوسروں کو تکلیف دینا*
جب پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں تو اس کی آواز سے کتنے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اس کو ہر شخص جانتا ہے، جب کہ ہمارا مذہب اسلام ہم کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک مومن آدمی سے کسی بھی شخص کو (مسلم ہو یا غیرمسلم) تکلیف نہیں ہونی چاہیے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الْمُوٴْمِنُ مَنْ اَمِنَہُ النَّاسُ علٰی دِمَائِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ، (ترمذی شریف۲/۹۰) یعنی صحیح معنی میں موٴمن وہ شخص ہے جس سے تمام لوگ اپنی جانوں اور مالوں پر مامون اور بے خوف وخطر رہیں، یہاں تک کہ جانوروں کو تکلیف دینا بھی انتہائی مذموم، شدید گناہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا سبب قرار دیاگیا ہے۔ (صحیح بخاری ۲/۸۲۸، صحیح مسلم حدیث ۱۹۵۸، کتاب الصید والذبائح) حاصل یہ ہے کہ صرف ”آتش بازی“ کی ایک رسم کئی بدترین اور بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے، جو کسی بھی طرح مسلم معاشرے میں رواج پانے کے لائق نہیں؛ بلکہ پہلی فرصت میں قابلِ ترک ہے۔
(۲) *چراغاں کرنا*
شبِ براء ت کے موقع پر بعض لوگ گھروں، مسجدوں اور قبرستانوں میں چراغاں کرتے ہیں، یہ بھی اسلامی طریقے کے خلاف ہے اور غیرمسلموں کے تہوار دیوالی کی نقل اور مشابہت ہے۔ علامہ بدرالدین عینی رح نے لکھاہے کہ: چراغاں کی رسم کا آغاز یحییٰ بن خالد برمکی سے ہوا ہے، جو اصلاً آتش پرست تھا، جب وہ اسلام لایا تو اپنے ساتھ یہ آگ اور چراغ کی روشنی بھی لایا، جو بعد میں مسلم سوسائٹی میں داخل ہوگیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس کو مذہبی رنگ دے دیاگیا۔ (عمدة القاری ۱۱/۱۱۷) اسی طرح غیرمسلموں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے یہ رسم ہم نے اسلام میں داخل کرلی اور غیروں کی نقالی کرنے لگے، جب کہ غیروں کی نقل ومشابہت پر سخت وعید آئی ہے جس کو اوپر بیان کردیاگیا۔
(۳) *حلوہ پکانا*
شبِ براء ت میں بعض لوگ حلوہ بھی پکاتے ہیں؛ حالاں کہ اس رات کا حلوے سے کوئی تعلق نہیں۔ آیات کریمہ، احادیث شریفہ، صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے آثار، تابعین و تبع تابعین کے اقوال اور بزرگانِ دین کے عمل میں کہیں اس کا تذکرہ اور ثبوت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شیطان نے یہ سوچا کہ اس رات میں عبادت واستغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ لا تعداد لوگوں کی مغفرت فرمائے گا اور ان کی نیکیوں میں اضافہ ہوگا تو مجھ سے یہ بات کیسے برداشت ہوگی؛ اس لیے اس نے مسلمانوں کو ان خرافات میں پھنسا کر سنّت طریقے سے دور کردیا۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایاتھا، یہ بات بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک غزوئہ احد میں شہید ہوئے تھے، اور غزوئہ احد ماہِ شوال میں پیش آیا تھا، جب کہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے، دانت ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ کھایا گیا دس مہینے بعد شعبان میں، کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے!
(۴) *گھروں کا لیپنا پوتنا، نئے کپڑے بدلنا اوراگربتی وغیرہ جلانا*
شبِ براء ت کے موقع پر گھروں کی لپائی پوتائی اور نئے کپڑوں کی تبدیلی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، نیز گھروں میں اگربتی جلاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس رات میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں، ان کے استقبال میں ہم ایسا کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل فاسد اور مردود ہے، یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں؛ لہٰذا ان بدعتوں سے بھی احتراز لازم ہے۔
(۵) *مسور کی دال پکانا*
یہ بھی بے ہودہ رسم ہے۔
غرض یہ تمام رسمیں خرافات اور بے اصل ہیں، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں؛ لہٰذا ان سب چیزوں سے احتراز لازم ہے، ہماری کامیابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں ہی مضمر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: کُلُّ اُمَّتِی یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ اِلاَّ مَنْ اَبٰی، قَالُوْا: وَمَنْ یَّأبٰی؟ قَالَ مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ اَبٰی․ (بخاری شریف ۲/۱۰۸۱، حدیث ۷۲۸۰) یعنی میری امت کا ہر ہر فرد جنت میں داخل ہوگا؛ مگر جو انکار کرے گا اور بات نہیں مانے گا وہ جنت سے دور رہے گا، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! انکار کون کرسکتا ہے؟ ارشاد ہوا: جو شخص میری اطاعت و فرماں برداری کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو نافرمانی کرے گا اس نے گویا انکار کردیا، جس کی وجہ سے وہ جنت سے محروم رہے گا۔اللہ تعالیٰ پوری امت کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور بدعات وخرافات سے حفاظت فرماکر اتباعِ سنت کے جذبے سے مالامال فرمائے!آمین ثم آمین!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں