ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
کورونا کے قہر سے نمٹنے کے لیے ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے شہریوں کے سامنے اپنی حکمت علمی بیان کرنے کے مقصد سے تیسری مرتبہ خطاب کیا _ اپنے دو سابقہ خطابات کی طرح اس مرتبہ بھی انھوں نے بہت مایوس کیا پہلی مرتبہ ایک طرف صبح سے رات تک سماجی فاصلہ (Social distancing )کے مقصد سے 'جنتا کرفیو' کی انھوں نے تلقین کی ، ساتھ ہی شام پانچ بجے تالی اور تھالی بھجوائی ، جس پر عمل آوری کرتے ہوئے عوام نے سماجی فاصلہ کی دھجّیاں اڑائیں _ دوسرے خطاب میں انہوں نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے اچانک ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا ، جس کے بعد کئی روز تک ملک کے مختلف حصوں میں مزدور پیشہ طبقہ کے ہزاروں لوگ سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے _ اب تیسری مرتبہ انھوں نے عوام سے 5 اپریل کی رات 9 بجے اپنے گھروں کی روشنیاں بند کرکے 9 منٹ تک گھروں کے دروازوں اور بالا خانوں پر دیے یا موم بتّیاں یا ٹارچ یا موبائل کی فلش لائٹس جلا کر کورونا کی تاریکی سے لڑنے کی اپیل کی ہے _ انھوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں فرمایا ہے : " کورونا بحران سے جو تاریکی اور غیر یقینی صورت حال پیدا ہوئی ہے اسے ختم کرکے ہمیں روشنی اور اعتماد کی جانب بڑھنا ہے ، اس کورونا کی تاریکی کے بحران کو شکست دینے کے لیے ہمیں روشنی کا جال چارسو پھیلانا ہے _ ملک کے 130 کروڑ باشندوں کی ' مہاشکتی کا جاگرن' کرنا ہے _ " اپنے سابقہ خطابات میں اور اس خطاب میں بھی وزیر اعظم نے نہ یہ بتایا کہ انہوں نے اس مہلک بیماری کی روک تھام کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟ اور ان کے کیا اثرات ظاہر ہوئے ہیں؟ اور نہ اس کی وضاحت کی کہ غریب عوام لاک ڈاؤن کے نتیجے میں جس بھکمری اور دیگر اذیتوں سے دوچار ہیں ان کے تدارک کے لیے انھوں نے کیا منصوبہ بنایا ہے؟ کیا خوب صورت الفاظ ، بہترین اداکاری اور جذباتی تقریروں سے کبھی فاقہ مست شہریوں کا پیٹ بھرا ہے؟!!
راقم سطور نے تالی تھالی بجانے کے اعلان پر بھی لکھا تھا اور اب چراغاں کرنے کے اعلان پر بھی اس کا یہی کہنا ہے کہ یہ سب ہندو مذہب اور تہذیب کے نمایاں مظاہر ، شعار ، پہچان اور علامتیں ہیں _ ان کا مخصوص تاریخی پس منظر ہے _ مختلف بہانوں سے ہمارے وزیر اعظم ہندو کلچر کو فروغ دینا چاہتے ہیں _ ان کی حکمت یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ایک طرف ان کی ناکامیوں پر پردہ پڑے گا ، دوسری طرف عوام ، جن کی اکثریت ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے ، ہندو کلچر کو فروغ پاتا دیکھ کر خوش ہوں گے ہندو دھرم میں 9 کی گنتی کی بڑی اہمیت ہے _ اس کی نمایاں مثال ' نوراتری' کا مشہور تہوار ہے ، جو 9 راتوں میں منایا جاتا ہے ، جن میں طاقت کی دیوی کے 9 روپوں کی پوجا کی جاتی ہے _ اسی طرح آفتوں اور مصیبتوں کو بھگانے کے لیے شنکھ بجانا اور دیا جلاکر دعا کرنا ہندو میتھالوجی کا حصہ ہے _
وزیر اعظم کے اس اعلان کے بعد مسلمانوں میں یہ بحث جاری ہے کہ اس کی تعمیل کرتے ہوئے متعین وقت پر چراغاں میں حصہ لیا جائے یا نہ لیا جائے _ بعض حضرات اس کو بہت ہلکے انداز میں لے رہے ہیں _ وہ کہتے ہیں کہ خواہ مخواہ بدگمانی سے کام نہیں لینا چاہیے اور ہر چیز کو ہندو مذہب اور تہذیب سے نہیں جوڑ دینا چاہیے _ وہ یہ مثال بھی پیش کرتے ہیں کہ کیا شبِ برات پر مسلمان چراغاں نہیں کرتے؟ حالاں کہ سب جانتے ہیں کہ شب برات پر چراغاں کرنا اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں بلکہ ہندوؤں کی نقّالی ہے _ بعض دوسرے حضرات اسے سراسر شرکیہ عمل قرار دے رہے ہیں اور سخت انداز میں اس سے اجتناب کرنے کی تاکید کررہے ہیں _ میرے نزدیک صحیح موقف دونوں کے درمیان ہے _ کوئی شخص وزیر اعظم کے متعین کردہ وقت پر دیا جلائے یا کسی اور ذریعے سے روشنی کرے تو یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ اس نے شرک کیا، لیکن بہر حال اس نے ہندو کلچر کو فروغ دینے میں حصہ لیا ، جسے بہر حال کسی طرح پسندیدہ نہیں قرار دیا جاسکتا _کسی وبا اور آفت کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے تلقین کی ہے کہ اللہ کا ذکر کیا جائے ، نماز پڑھی جائے ، اس سے دعا کی جائے اور صدقہ و خیرات کیا جائے _ ہمیں دفعِ وبا کے توہماتی اور دیومالائی طریقوں کی پیروی کرنے کے بجائے نبوی طریقے کی پیروی کرنی چاہی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں