مونگیر(یواین اے نیوز 4اپریل2020)؍ اپریل کو رات کے نوبجے سے نومنٹ تک پورے ملک کی روشنیاں بجھانے کی اپیل پر حضرت امیر شریعت مفکراسلام مولانا محمد ولی صاحب رحمانی دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر نے فرمایا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ۵؍ اپریل کی رات کو نوبجے پورے ملک میں اندھیرا کرنے کی اپیل پر عمل کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ میری رائے میں اچھی خاصی روشنی کو بجھانا اور دیئے یا لالٹین یا موبائل کی روشنی پھیلانا کچھ عجب سا کام ہوگا، یہ مضبوط صورتحال سے کمزور صورتحال کی طرف لے جانا ہے، اور وزیر اعظم اس کے ماہر ہیں، انہوں نے اپنے کئی کاموں کے ذریعہ ملک کے عوام کو بہتر سے بد تر حالت کا سفرکرایا ہے، جیسے نوٹ بندی، جی ایس ٹی کا غلط نفاذ ،بیروزگاری میں اضافہ ،کسانوں کی حالت کو نظر انداز کرنا، ملک کے غریبوں ، بے زمینوں ، کم پڑھے لوگوں کے لیے این پی آر جیسے کئی اقدام اور پروگرام کے ذریعہ ملک کو بہتر حالت سے بدتر حالت کی طرف لے جارہے ہیں، اندھیرا اور اندھیر نگری وزیر اعظم کا مشغلہ ہوسکتا ہے، مگر یہ ملک کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے، بجلی کے شعبہ کا بھی کہنا ہے، اگر روشنی بندی پر عمل کیا گیا، تو پاور گریڈ پر بہت برااثر پڑسکتا ہے، جس کو ٹھیک کرنے میں ایک ہفتہ کا وقت لگ سکتا ہے، اس کی وجہ سے کرونا کے مریضوں کے علاج میںبڑی دشواری آسکتی ہے۔
ہوسکتا ہے وزیز اعظم نے ۵؍ اپریل کی رات روشنی بندی اور اس سے قبل تھالی اور تالی بجانے کی اپیل ہند ودھرم کے پس منظر میں کی ہواور وہ مذہبی رسم ورواج کو پھیلانے کی کوشش کررہے ہوں، ، مگر اسلام، عیسائیت، سکھ مت، بدھ مت، جین مت میں اس کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے، جو لوگ اس چیز کو مانتے ہوں وہ کرسکتے ہیں، مگر مسلمانوں، عیسائیوں ، سکھوں ، بدھسٹوںاور جینیوں کو اس کے کرنے کی کوئی ضرورت نہیںہے، اسلام میں اس قسم کے وہم کی کوئی گنجائش نہیں ہے،حضرت رحمانی نے فرمایا کہ کرونا وائرس تاریکی پھیلانے سے بھاگ سکتا ہے، یہ سونچ وزیر اعظم کو مبارک ہو، میرے جیسا انسان روشنی پھیلانے کا قائل ہے، اور اس بات کو صحیح سمجھتا ہے کہ پورا ملک اپنے اپنے گھروں میں رہے، اپنے اپنے طریقہ پر اپنے اللہ کو یاد کرے، پڑوس اور محلہ کے غریبوں اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرے، انتظامیہ کی ہدایت کو مانے اس کے مشورہ پر عمل کرے ابھی ڈاکٹر حضرات اور ان کے معاونین بڑی ہمت اور محنت کے ساتھ کام کررہے ہیں، اپنی جان پر کھیل کر مریضوں کا علاج کررہے ہیں، ان کی خدمات کی قدر کی جائے، اور جہاں ضرورت محسوس ہو ان کا تعاون کیا جائے، ملک کی حفاظت سا لمیت اور مریضوں کی صحت کے لیے گھر رہ کر دعاء کی جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں