تحریر :جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
ملک میں لاک ڈاؤن کا ماحول ہے ہر ایک کے چہروں پر کرونا وائرس کاخوف نظر ارہا ہے اور زبان پر بھی اسی کا تبصرہ ہے آج تقریباً پوری دنیا کرونا وائرس جیسی مہلک بیماری کے زد میں ہے ہزاروں لوگ موت کی آغوش میں سما گئے لاکھوں لاکھ کی تعداد میں لوگ اس مہلک بیماری سے متاثر ہیں صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دیگر بہت سے ممالک میں بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے اب ایسی صورت میں عوام اور حکومت دونوں پر ملک کی فضا کو خوشگوار بنانے کی ذمہ داری بنتی ہے لیکن ہمارے ملک میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے پر پولیس ڈنڈے برساتی ہے اور فرقہ پرست طاقتیں ملک کی فضا کو زہر آلود بنانے کی کوششیں کررہی ہیں آج بھی کچھ لوگوں کی زبان سے زہر آلود باتیں نکل رہی ہیں اور میڈیا نے اپنے فرائض کو پیروں تلے روند دیا بلکہ یہ کہئے کی زبان و قلم فروخت کر دیا اپنے آپ کو بی جے پی اور آر ایس ایس کیلئے وقف کردیا ہے میڈیا کا حال یہ ہے کہ جب جسے چاہے دہشتگرد کہدے، دنگائی کہدے یعنی حکومت کو خوش کرنے کیلئے ایسے ایسے انداز کہ لوگوں کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے اور لوگ میڈیا کو اب گالی تک دینے لگے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی میڈیا فرقہ پرستی اور نفرت و تعصب کا لبادہ اوڑھ چکی ہے ہر معاملے کو ہندو مسلم کا رنگ دینے میں پیش پیش رہتی ہے این آر سی کے معاملے کو لیکر جو تحریک، مظاہرے اور احتجاج ہوئے اسے بھی بار بار مسلمانوں سے جوڑتی رہی اور آج کرونا وائرس جیسی مہلک بیماری کو بھی مسلمان بنا دیا اکثریتی فرقہ کے لوگ کہیں ہیں تو پھنسے ہوئے ہونے کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
اور اقلیتی فرقہ کے لوگ ہیں تو چھپے ہوئے ہونے کا لفظ استعمال ہوتا ہے دہلی میں کچھ تبلیغی جماعت کے لوگ اکٹھا مل گئے تو سارا معاملہ یعنی کرونا وائرس بیماری کا ذمہ دار ہی تبلیغی جماعت کو میڈیا نے قرار دیدیا میڈیا یہ بھول گیا کہ کرونا وائرس کی ابتدا چین سے ہوئی اور یہ وائرس پھیلتا گیا چین کے بعد اٹلی، اسپین، ایران، جرمنی، برطانیہ، امریکہ تک پہنچ گیا کیا ان ساری جگہوں پر تبلیغی جماعت ہے؟ جبکہ اونچے اونچے عہدے پر فائز لوگوں نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی ہے ان کا نام ہی نہیں لیا جاتا آج اس عالمی بحران سے نمٹنے کیلئے اور نجات پانے کے لئے جہاں ہر طبقہ کے لوگ اپنے اپنے مذہبی اصول کے مطابق کام کر رہے ہیں، دعا اور پرارتھنا کررہے ہیں تو ایسی صورت میں میڈیا کا تعصبانہ کردار یقیناً قابل مذمت ہے ذرائع ابلاغ جسے ہم میڈیا کہتے ہیں تو میڈیا کو ملک میں ایک بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے بلا شبہ میڈیا وہ بھی بالخصوص الیکٹرانک میڈیا معاشرے کی شہہ رگ ہے تو عوام تک ایمانداری، دیانتداری اور سچائی پر مبنی جانکاری فراہم کرنا اس کا اصل مقصد ہونا چاہئے اور عوامی مسائل سے حکومت کو آگاہ کرنا اور پوری طرح غیر جانبدار رہنا میڈیا کے لیے ضروری ہونا چاہیے یعنی عوام کے جذبات کی ترجمانی اور عوامی مسائل کو ابھارنے کی ذمہ داری بھی میڈیا کے فرائض میں شامل ہے لیکن آج میڈیا بھی اپنے معیار کو بچانے میں ناکام ہے۔
شہریت تر میمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کو لیکر جس طرح کا کردار میڈیا چینل نے ادا کیا وہ بہت ہی افسوسناک اور شرمناک تھا غرضیکہ آج میڈیا کا کردار ایسا ہے کہ ان کے اوپر عوام کا اعتماد نہیں رہا ان کے اوپر سوال اٹھنے لگے ہیں اس لئےکہ ماضی کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ چاہے جیسا بھی وقت آیا ہو لیکن میڈیا نے کبھی اپنے منہج اور کردار سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا اور کبھی بھی اپنے کاغذ، قلم، دوات اور ضمیر کو گِروی نہیں رکھا تھا اسی بنیاد پر میڈیا کو چوتھا ستون کہا گیا ہے اور مانا گیاہے لیکن آج کی میڈیا خود اپنی شبیہ کو مشکوک کرتی جا رہی ہے بڑے بڑے پونجی پتیوں اور حکومت کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی جبکہ انہیں غور کرنا چاہیے کہ جمہوری نظام کی عمارت میں ذرائع ابلاغ یاصحافت کا بہت اونچا مقام ہے میڈیا کو ملک کا، سماج کا چوتھا ستون کہاجاتا ہے یہ اپنی اہمیت تب برقرار رکھ سکتا ہے جب یہ غیر جانبدارانہ طریقہ اختیار کرے اور حقائق پر مبنی خبریں عوام تک پہنچا ئے تبھی اسے عوامی مقبولیت حاصل ہوسکتی ہے اور ان کے اوپر عوام کا اعتماد قائم ہوسکتا ہے لیکن یہاں تو بعض اینکرز اور میڈیا ذاتی اغراض و مقاصد کے حصول کیلئے اپنا کردار مجروح کرنے اور فرائض انجام دینے سے منہ موڑ نے کے طریقے پر عمل پیرا ہیں جس کی وجہ سے سماج کے باشعور و باصلاحیت افراد میں بیچینی ہے اور بہت سے صحافی بھی فکر مند نظر آتے ہیں یہ موجودہ وقت کی میڈیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے اب میڈیا کو عوام کا اعتماد اسی حالت میں حاصل ہوگا جب میڈیا کے لوگ اپنے ماضی کے حالات پر غور کریں گے اور ماضی کے حالات و طور طریقے کو اپنائیں گے یعنی حقائق کو اجاگر کرنا، دبے کچلے لوگوں کی آواز میں آواز ملانا، عوام کے جائز مطالبات کو فروغ دینا، کسی کے ساتھ حق تلفی ہوتو اسے روکنا، شیشہ کو شیشہ اور پتھر کو پتھر لکھنا، دودھ کو دودھ اور پانی کو پانی لکھنا ہر طرح کے ظلم و ناانصافی کی مخالفت کرنا، ہرطرح کی لالچ کو ٹھوکر مارنا، مفاد عامہ کو ترجیح دینا، ہر حال میں حق بولنا ان چیزوں کو شیوہ بنانا ہوگا اور یہ ساری چیزیں ساری باتیں تبھی ممکن ہیں جب نیک نیتی ہوگی دلوں میں ملک و ملت کے تئیں ہمدردی و سچائی کا درد ہوگا،، آج کے دور میں تو میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا سے عوام کا بھروسہ ہی اٹھ چکا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں