از قلم :عبدالواحد حلیمی جون پوری
اللہ تعالی نے انسان کو جو عظیم نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے ایک بڑی اور اہم نعمت صحت ہے ، صحت کی قدر کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس الصحۃ والفراغ ( بخاری کتاب الرقائق باب ما جاء فی الصحۃ والفراغ حدیث نمبر 6049 ) دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی ناقدری کرکے اکثر لوگ نقصان میں رہتے ہیں ایک صحت اور دوسری فرصت صحت کی نعمت پوری طرح موجود ہو تو انسان اپنی زندگی کے تمام افعال بخوبی سر انجام دے سکتا ہے ،
دوسری صورت میں نہ صرف کام رک جاتے ہیں بلکہ انسان کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں ، ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کا اصل جوہر اور اس کا کمال عقل و اخلاق اور ایمان و شعور ھے ، اور ان چیزوں کی صحت و سلامتی کا دارومدار بھی بڑی حد تک جسمانی صحت پر ہے ، عقل اور دماغ کے نشو و نما ، فضائل واخلاق کے تقاضے اور دینی فرائض کو ادا کرنے کے لیے جسمانی صحت بنیادی حیثیت رکھتی ہے اسی لیے سید المرسلین و نبی الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا المؤمن القوی خیر من المؤمن الضعیف طاقتور مومن بہتر اور اللہ کو زیادہ پسند ہے بنسبت کمزور مومن کے ( مشکاۃ )
اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو اپنی صحت برقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کے لئے مکمل اور جامع تعلیم دی ہے ، اگر اس تعلیم کو سامنے رکھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو نہ صرف یہ کی صحت باقی رہتی ہے بلکہ بہترین اور عمدہ حالت میں رہتی ہے ، نیز انسان اپنی دنیاوی طبعی زندگی بھی اچھی طرح گزار لیتا ہے چلیے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم حفظان صحت کی اہمیت کو دیکھتے ہیں اللہ تبارک نے انسان کو پاکیزہ اور حلال رزق کہانے کا حکم دیا ھے ۔ لوگو زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انھیں کہاؤ ۔ حلال وہ چیزیں ہیں جنہیں اللہ اور اللہ کے رسول نے حلال اور اس کا استعمال جائز قرار دیا ہے ،
اور پاک یا پاکیزہ ایسی چیزیں ہیں جو انسان کے بدن اور عقل کو نقصان نہ دیتی ہوں ، تو معلوم ہوا کہ حفظان صحت کےلئے حلال غذا کا استعمال لازم وضروری ہے ، اسی طرح سے حرام غذا سے اجتناب بھی لازم ہے ، کیونکہ شریعت مطہرہ نے جن چیزوں کے استعمال سے منع کیا ہے ہے ان میں لازما انسان کے لیے نقصان ہے، چاہے یہ نقصان جسمانی ہو یا اخلاقی و روحانی اور چاہیے ہماری محدود عقل میں یہ بات آئے یا نہ آئے بہرحال اس کے استعمال میں انسان کی جسمانی و روحانی صحت کا زیاں ہے
حفظان صحت کے لیے ایک بات قابل غور ہے جس کا ہر حفظان صحت میں بڑا دخل ہے وہ یہ کی صحت برقرار رکھنے کا گہرا تعلق طہارت و نظافت اور صفائی ہے ، چنانچہ اسلام نے طہارت کا جو وسیع تصور دے کر اسے لازم اور نصف ایمان قرار دیا ، اور اس کی ضرورت و اہمیت بیان کی یہ صرف اور صرف دین اسلام کا خاصہ ہے ، ورنہ تو بہت سی تہذیبوں اور مذاہب میں اس کا ہم پلہ اور ہم معنی کوئی لفظ ہی نہیں ہے ، مسلمان دن و رات میں پانچ مرتبہ فریضہ نماز ادا کرتا ہے اور نماز کےلئے ھر طرح کی جسمانی طہارت فرض ہے ، اسلام میں طہارت کا دائرہ روحانی طہارت یعنی کفروشرک اور اخلاقی گندگی سے شروع ہوکر جسم ، لباس ، مکان اور اردگرد کے ماحول تک پھیلا ہوا ہے
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان جسموں کو پاک و صاف رکھو اللہ تمہیں پاک کرے گا ( طبرانی ) اور گھروں اور مکانوں کی طہارت کا حکم دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ۔ اپنے صحنوں کو پاک و صاف رکھو اور یہود سے مشابہت اختیار نہ کرو ۔ ( ترمذی ) یعنی نظافت و صفائی نہ صرف جسموں اور گھروں کی ہو بلکہ اپنے ماحول اور اردگرد کو بھی صاف رکھو تاکہ پورا ماحول پاک و صاف ہو بیماریاں نہ پھیلیں اور لوگوں کی صحت صحیح رھے اسلام نے جو پاکی و صفائی کا حکم دیا ہے اس میں جسم کے تمام حصے پاک و صاف رکھنے لازم ہیں ،
بہت سے لوگ حفظان صحت کو صفائی کے مترادف کہتے ہیں لیکن حفظان صحت ایک وسیع اصطلاح ہے اس میں اس طرح کی ذاتی عادت کا انتخاب شامل ہے جیسے دانت ، منہ ، ناک ، کان کا صاف کرنا ۔ با ر بار نہانا ، ہاتھ دھونا ، بول و براز کی جگہ کا صاف کرنا ، ناخن کاٹنا ، جسم کے مخفی حصوں کے بال صاف کرنا ، پاک کپڑے پہننا ، بوقت ضرورت غسل کرنا وغیرہ شامل ہے چنانچہ اسلام صفائی و ستھرائی کی تعلیم دیتاہے اور ماحول اور اردگرد کو اور اسی طریقہ سے فضا میں آلودگی پھیلانے سے منع کرتا ہے ، اور بیماریوں کے اسباب اختیار کرنے پر روک لگا تا ہے کہ انسان ایسا کام نہ کرے کہ جس سے اسکے اعضاء و جوارح میں بیماریاں جنم لیں
اسلام نے حفظانِ صحت سے متعلق ہدایات انسان کی روزانہ زندگی کے متعلق تجویز کی ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے سویرے اٹھا کرو کیونکہ اس کا بڑا اجر یا فوائد ہیں ، رات جلد سونے اور صبح سویرے بیدار ہونے کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تمام اطباء اور ماہرین صحت اس پر زور دیتے ہیں ، مشہور انگریزی مثل ہے ۔ رات جلد سونا اور صبح سویرے جاگنا انسان کو صحت مند ، عقلمند اور دولت مند بناتا ہے ۔
اور جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم کے حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا بے شک تمہارے جسم کا تمہارے اوپر حق ہے دوسری روایت میں بے بیشک تمہارے نفس کا تم پر حق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہر ایک مومن کے لئے اعلی رہنمائی ہے کہ نفس کا تم پر حق ہے ، اور جسم کا بھی تم پر حق ہے ، نہ نفس جسم کی حق تلفی کرے اور نہ جسم نفس کا حق چھینے ، اس سے واضح ہوتا ہے کہ مومن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جسم کو بیماریوں اور تکالیف سے بچائے اور جو چیزیں اسے نقصان پہنچائے اس سے پرہیز کرے ، انسانی جسم کے محنت اور کام کرنے کی ایک حد ہوتی ہے سو اس حد سے نہ بڑھنا چاہیے ، نیز اسے راحت و آرام بھی پہنچانا چاہیے ، تاکہ وہ تروتازہ ہوکر انسانیت کی خدمت کر سکے ۔
اللہ تعالی نے جسم و جان کو ایذا پہنچانے کو حرام کیا ہے نیز اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جسم کو بیماریوں اور آفتوں سے بچائیں ، اسے کمزور کرنے سے پرہیز کریں ، اسے پاک و صاف رکھیں ، صحت مند رکھیں ، اور اس پر طاری ہونے والی بیماریوں کا علاج کریں ، اس کی وضع و قطع درست رکھیں اور اس سے اس کی بساط کے مطابق کام لیں
تو اسلام نے حفظان صحت کے جو اصول پیش کیے ہیں اگر ان پر عمل کیا جائے تو اس سے نہ صرف صحت برقرار رکھی جا سکتی ہے بلکہ ان اصولوں کو اپنا کر ہم مختلف بیماریوں سے بھی بچ سکتے ہیں جو وبائی بیماریاں پھیلتی ہیں اس سے ہم اپنا بھی بچاؤ کر سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس مصیبت سے بچا سکتے ہیں جیسے طاعون ، جذام کی بیماریاں ہیں اور موجودہ حالات میں کرونا وائرس کی وباء ہے جن کے بارے میں ماہرین ڈاکٹروں واطباء کی جو رائیں ہیں وہ بالکل اسی مذکورہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہیں جیسے ماہرین ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا چاہیے تو اسلام بھی پاکی کو نصف ایمان قرار دیتا ہے ، اور ایک دوسرے سے سے دوری بنائے رکھنا اور جہاں یہ وباء پھیلی ہے اس خطے سے بھی دور رہنا ، ہماری اسلامی تعلیمات بھی اسی طرح کی ہیں ،
جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں ہے عن سعد رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال قال اذا سمعتم بالطاعون بارض فلا تدخلوھا واذا وقع بارض وانتم بھا فلا تخرجوا منھا ، ( رقم 5396 ) جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پہیل جائے اور تم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو ،
علامہ طبری نے کہا ہے کہ حضرت سعد کی حدیث میں اس پر دلیل موجود ہے کہ آدمی کو ہر تکلیف اور اذیت ناک چیزوں کے آنے سے پہلے اس سے بچنا اور احتیاط کرنا لازم و ضروری ہے
طبی و سائنسی تحقیقات نے بھی انکشاف کیا ہے کہ کرونا جیسی مہلک وباء سے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ اجتماعی زندگی سے پرہیز کریں ، اسی بناء پر مرکزی حکومت نے 21 دن کا مکمل لا ڈاؤن نافذ کیا ہے
چنانچہ اسلام اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ زندگی اس طرح گزارو کہ ایک دوسرے کی تکلیف کا سبب نہ بنو اور لاضرر و لا ضرار فی الاسلام کا مصداق بنو ، اور ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لاعدوی و لا طیرۃ ولاھامۃ و لا صفر وفر من المجذوم کما تفر من الاسد( بخاری ) کہ بیماری نہ ایک دوسرے کو متعدی ہوتی ہے ، اور نا بدفالی کوئی چیز ہے ، اور نہ مقتول کی روح جانور کی شکل اختیار کرکے خون بہا مانگتی ھے ، اور نہ پیٹ میں بھوک لگنے کے وقت کوئی جانور کاٹتا ہے ، اور مجذوم ( کوڑ کے مریض سے ) ایسے ہی بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو تو ان روایات سے یہی معلوم ہوا کہ متعدد بیماری بھی اللہ ھی کے اذن ( اجازت ) سے کسی کو لگتی ہے تو فی الحال جو کرونا وائرس کی بیماری ہے ماہرین ڈاکٹروں کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ بیماری متعدی ھوتی ھے ،
اس لیے اس سے بچاؤ کے لیے ہمیں آگے آنا ہوگا ، اور بلا تفریق مذہب و ملت سبھی کو یکساں طور سے حکومت و انتظامیہ کی احتیاطی ہدایات و اقدامات پر از خود عمل کرنا اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کرانے کے لئے سماج میں بیداری لانا ہوگا ، چوں کہ احتیاط ہی اس وقت اس بڑی مہلک وبائی بیماری سے بچنے کا واحد علاج ہے ، بعض مسلم علاقوں میں اس سے غفلت برتی جارہی ہے جو نہایت سنگین جرم ہے خدا نہ کرے کہ ہماری غفلت و لاپرواہی پورے سماج کیلئے خسارہ عظیم کا سبب بن جائے اس لیے پوری انسانی برادری کو اس تعلق سے سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی جلد از جلد اس پریشانی سے نجات عطا فرمائے اور ہم سب کی پوری امت محمدیہ کی اور پوری انسانی برادری کی اس وائرس سے پوری حفاظت فرماۓ آمین یا رب العالمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں