عمر غزالی
تبلیغی جماعت شاید عصر حاضر میں شجر اسلام کی تناوری کیلئے ہونے والی جدوجہد میں سب سے معتدل،مناسب،پرحکمت اور ثمرآور طریقہ کار کی حامل ہے،اگر چہ اس کے نسبتی ڈانڈے علمائے دیوبند سے جاملتے ہیں لیکن اس کی جماعتی بنیادوں کو دیکھا جائے تو یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں رہتا کہ مسلکی فرقہ واریت سے اس کا کوسوں کا فاصلہ ہے،اس کی شبانہ روز سرگرمیوں کی خاطر ارض خدا کے چپہ چپہ آبلہ پائی وصحرا نوردی کرنے والوں میں اشتراک عمل کی بنیاد نہ تو حنفیت واشعریت ہوتی ہے اور نہ دیوبندیت،دو قومی نظریہ اور متحدہ قومیت جیسے سیاسی نظریات کا بھی ان سے کوئی سابقہ نہیں ہوتا،ان کے درمیان تقطہ اتحاد صرف یہ ہوتا ہے کہ دین بیزاری کے عمیق قعر سے نکال کر مسلم آبادی کو نہ صرف مساجد کے اجتماعی اصلاحی نظام سے مربوط رکھا جائے بلکہ مبلغانہ اوصاف اور داعیانہ سوز دے کر چراغ سے چراغوں کے جِلا پانے کی روایت کو تسلسل بخشا جائے، بے راہوں کو مستقبل کا ہادی بنایا جائے۔
اس کا طریقہ کار حکیمانہ تدریج دلنوازی اورسحر طرازی میں اپنی مثال آپ ہوتا ہے،یہاں کسی شخص کے دل بدلنے کی مہم کی ابتدا نماز کی دعوت سے ہوتی ہے جو پوری امت کے نزدیک سب سے متفق علیہ، مسلم ترین اور اسلام کا سب سے اہم رکن ہے،نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ کے اندر خودبخود خدا کے سامنے بندگی کے تقاضوں کی تکمیل کے احساسات جنم لینے لگتے ہیں،دوسری طرف نماز کے ذریعہ بندہ مسجد کے اجتماعی نظام سے مکمل طور پر مربوط وہم آہنگ ہوجاتا ہے،وہاں اسے ایک منتخب نصاب کے ذریعہ متعینہ اوقات میں عبادات و اعمال کا عاشق زار بنایا جاتا ہے،ملت کی گیسووں کو سنوارنے کیلئے دردمندانہ جذبات کو فروغ بخشا جاتا ہے،جماعت کے مفکرین نے اپنے جماعتی نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی جن چھ نکات میں تلخیص کی ہے ان کی نبی ص کے فرمودات کی روشنی میں تفہیم کرائی جاتی ہے،اس جہد پیہم کے نتیجہ میں مشن کیلئے جو لوگ جانفشانی کا ارادہ کرتے ہیں انہیں ایک نظام کے تحت دوسرے علاقوں میں اسی عمل کی پیروی کرنے کیلئے بھیجا جاتا ہے جس کی وجہ سے خود انہیں وادی ضلالت میں سرگردانی کے بعد چمن اسلام میں سایہ فگن ہونے کا موقع نصیب ہوا ہے۔
ایک عالمی مہلک وبا کے تعلق سے غفلت شعاری کے الزام کے تناظر میں میں تبلیغی جماعت کا کوئی دفاع نہیں کروں گا،یہ معاملہ تحقیقاتی ایجنسیوں اور ملزمین (جن میں وہ سرکاری افسران بھی شامل ہیں جو مرکز میں اتنے جم غفیر کے ٹہرے رہنے کا بالواسطہ طور پر باعث بنے)کے درمیان حتمی طور پر طے ہوگا،ذرائع ابلاغ کی جو باد سموم "جماعت" کی سمت چل رہی ہے وہ بھی نامانوس اور تشویشناک ہرگز نہیں ہے،کل تک اسی طغیانی کے تھپیڑوں کی زد میں علمائے کرام ، شاہین باغ اور ملک بھر کی تحریکات،مسلم پرسنل لاء بورڈ وغیرہ تھے،گویا یہ میڈیا ٹرائلز اب ہر انصاف ور کی نظر میں حقانیت کی علامت بن چکے ہیں، میں تو افسردگیوں کے ابر سے چھٹنےوالے آفتاب ضیاتاب کی نوید دے رہا ہوں، ہر شر میں خیر اور ہر منفی میں مثبت پہلووں کی جستجو ایک جانفزا مشغلہ ہوتا ہے،جو ایک نئی روح،حوصلہ اور اسپرٹ کی افزائش ونمو میں حیرت انگیز کردار بن کر ابھرتا ہے۔
اپنے ذہن کے طاق میں دبی ہوئی چار پانچ سال پرانی ناخوشگوار یادوں کو تازہ کیجئیے!،جب نجانے کس طاقت کے اشارے پر ایک بے انتہا فعال جماعت کے حصے بخرے کرکے اس کی اثرانگیزی پر بند باندھ دیے گئے تھے،اس کی سرگرمیوں کو باہمی اختلافات کے دائرہ میں محصور کردیا گیا تھا،جہاں کبھی زبانیں ذکر وتفکر کی عطر بیز فضاؤں میں اکرام مسلم،لایعنی سے کنارہ کشی جیسے نکات سے رطب اللسان رہا کرتی تھیں وہاں کچھ یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ امارت یا شورائیت جیسے خالص انتظامی مسائل پر اختلافات نے شعلہ جوالہ کا روپ دھار کر جماعت کے شاندار ماضی اور تابندہ روایات واقدار کو خاکستر کردیا، اب ہر معتدل ومخلص ذہن اس جماعت سے تنفر یا اکتاہٹ کا شکار ہوچکا تھا،اس جماعت کی طرف جو بھی نظر اٹھتی تھی وہ مایوسی، ناامیدی اور قنوطیت کے جذبات سے مغلوب ہوکر اشک بار ہوجاتی،آج جب تبلیغی جماعت کے خرمن پر مصائب کی برق باری ہورہی ہے تو اس کا ایک پہلو یہ بھی تو دیکھئیے کہ میڈیا ٹرائل کی یہ آزمائش جلد ختم ہوجائے گی لیکن یہ بلا جن مسرتوں اور فرحتوں کا پیش خیمہ بنی ہے اس کے تصور سے دل بلیوں اچھل رہا ہے،اب اس جماعتی حلقہ میں اختلاف کےشور وشغب کے بجائے اتحاد واتفاق کے نغمے گنگنائے جارہے ہیں،آج پوری ملت کا رویہ اس کے ساتھ کنارہ کشی اور ناامیدی کے بجائے محبت ونصرت اور شفقت کا ہے،اس سے بڑھ کر اور کیا تسلی ہوسکتی ہے کہ ان ہلکی پھلکی آفتوں سے جوجھ کر جو تبلیغی جماعت میدان عمل میں ازسر نو ملت کی تشکیل نو میں سرگرم عمل ہوگی اس کی قوت وکامرانی ناقابل تصور ہوگی،ہر ایک کی نیک خواہشات اور تائید اس کا سرمایہ عمل اور متاع سفر ہوگی،وہ ماضی کی تمام خامیوں لغزشوں اور خصومتوں سے مبرا ہوکر اعلائے کلمة الله کی راہ میں قدم بڑھاتے جائے گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں